لاطینی امریکہ کے سب سے مستحکم ملک چلی میں آخر ہو کیا رہا ہے؟

ماہرینِ معاشیات کا کہنا ہے کہ میٹرو کرائے میں اضافے نے ایک ایسے معاشرے کو بیدار کرنے میں مدد دی، جو 1973 سے 1990 کے دوران آمریت کے خوفناک واقعات کے بعد تشدد سے نفرت کرنے لگے تھے۔

مشتعل مظاہرین کی جانب سے جلائے گئے میٹرو سٹیشن سے دھواں اٹھ رہا ہے۔ (تصویر: اے ایف پی)

لاطینی امریکہ کے ملک چلی میں پُرتشدد مظاہروں کے دوران آتشزدگی سے تین افراد ہلاک ہوگئے جبکہ دارالحکومت سینٹیاگو سمیت ملک کے کئی علاقوں میں کرفیو نافذ کردیا گیا۔

فرانسیسی خبر رساں ادارے  اے ایف پی کے مطابق سینٹیاگو  کی میئر کارلا روبیلر نے بتایا کہ اتوار کی صبح دارالحکومت کی سپر مارکیٹ میں آگ لگنے سے تین افراد ہلاک ہوئے جبکہ مظاہرین اور سکیورٹی فورسز کے مابین پرتشدد جھڑپوں کا سلسلہ جاری ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

روبیلر نے نامہ نگاروں کو بتایا: ’ایک سپر مارکیٹ میں آتشزدگی کے نتیجے میں تین افراد ہلاک ہوئے۔ مرنے والے افراد میں دو جھلس کر ہلاک ہوئے جبکہ تیسرے شخص کو تشویش ناک حالت میں ہسپتال لے جایا گیا، جو بعدازاں زخموں کی تاب نہ لاکر دم توڑ گیا۔‘

لیکن سوال یہ ہے کہ لاطینی امریکہ کے سب سے مستحکم ملک میں آخر عوام کیوں سڑکوں پر نکلنے پر مجبور ہوگئے ہیں؟ اس کا جواب ہے سماجی اور معاشی مسائل، جن سے تنگ آکر چلی کے عوام بڑے پیمانے پر مظاہروں میں شرکت کر رہے ہیں اور جنہیں روکنے کے لیے حکومت طاقت کا استعمال کر رہی ہے۔

دہائیوں بعد چلی میں پُرتشدد مظاہروں کے بعد ایمرجنسی کا نفاذ کیا گیا ہے اور اتوار کی صبح سے سینٹیاگو میں کرفیو نافذ کر دیا گیا، جہاں مظاہرین نے ایک روز قبل بسوں اور میٹرو سٹیشنز کو نذرِ آتش کر دیا تھا جبکہ انسدادِ فسادات پولیس سے جھڑپوں میں کئی افراد زخمی ہو گئے تھے۔

چلی کی سکیورٹی فورسز کا ایک اہلکار عوام سے مذاکرات کر رہا ہے۔ (تصویر: اے ایف پی)


ایمرجنسی کا چارج سنبھالنے والے چلی فوج کے جنرل جیویئر ایٹوریاگا کا کہنا تھا: ’آج پیدا ہونے والی خوفناک صورتحال اور پرتشدد کارروائیوں کا تجزیہ کرنے کے بعد، میں نے مکمل کرفیو کے ذریعے شہری آزادی اور نقل و حرکت کو معطل کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔‘

اے ایف پی کی ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے کہ کیسے سکیورٹی فورسز مظاہرین پر واٹر کینن سے پانی کی بوچھاڑ کر رہی ہیں اور انسدادِ فسادات پولیس نوجوانوں کو وین میں ٹھونس رہی ہے۔

صدر سیبسٹین پینیرا نے مظاہرین سے یہ کہتے ہوئے اپیل کی کہ ’ایسا کرنے کی درست وجوہات ہیں لیکن انہیں پُر امن طریقے سے مظاہرہ کرنا چاہیے اور کسی کو بھی یہ حق نہیں ہے کہ وہ وحشیانہ جرائم کا ارتکاب کرے۔‘

چلی کے صدر سیبسٹین پینیرا نے مظاہرین سے پر امن رہنے کی اپیل کی۔ (تصویر: اے ایف پی)


ہزاروں مظاہرین نے جمعے کو سینٹیاگو اور دیگر شہروں میں برتنوں کو پیٹنے کے ساتھ مظاہروں کا آغاز کیا تھا جس سے ان کی معاشی اور معاشرتی حالات پر شدید غم و غصے کی عکاسی ہوتی ہے۔

چلی کے عوام نالاں ہیں کہ سماجی اور معاشی عدم مساوات سے امیر اور غریب کے مابین فاصلہ بڑھ گیا ہے۔

جمعے کو ہی شہر کے تجارتی مرکز اور صدارتی محل کے باہر پُرتشدد جھڑپیں شروع ہوگئی تھیں۔ بد امنی کا آغاز میٹرو کے ٹکٹوں کی قیمتوں میں اضافے کے خلاف طلبہ کے احتجاج سے ہوا تھا۔

جنوری میں میٹرو کے کرایوں میں 20 پیسو (چلی کی کرنسی) کا اضافہ کیا گیا تھا اور حکومت کا موقف تھا کہ ایسا تیل کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کے باعث کیا گیا ہے۔

سینٹیاگو میٹرو 140 کلومیٹر طویل نیٹ ورک کے ساتھ جنوبی امریکہ کا سب سے بڑا اور جدید ترین ٹرانسپورٹ سسٹم ہے جو چلی کے عوام کے لیے بڑے فخر کا باعث تھا۔

مظاہرین کی جانب سے نذرِ آتش کی گئیں بسیں۔ (تصویر: اے ایف پی)


چلی میں فی کس آمدنی 20 ہزار ڈالر ہے جو لاطینی امریکہ کے کسی بھی ملک سے زیادہ ہے۔ اس سال ملک کی متوقع معاشی نمو 2.5 فیصد اور مہنگائی صرف دو فیصد ہے، لیکن صحت اور یوٹیلیٹی اخراجات میں اضافے، کم پینشن اور معاشرتی عدم مساوات سے عوام کو مایوسی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔

ماہرینِ معاشیات کا کہنا ہے کہ میٹرو کرائے میں اضافے نے ایک ایسے معاشرے کو بیدار کرنے میں مدد دی، جو 1973 سے 1990 کے دوران آمریت کے خوفناک واقعات کے بعد تشدد سے نفرت کرنے لگے تھے۔

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی امریکہ