کینیڈا کے قومی نشریاتی ادارے سی بی سی نے کہا ہے کہ عام انتخابات کے بعد جسٹن ٹروڈو دوبارہ ملک کے وزیراعظم بننے کی پوزیشن میں آ گئے ہیں تاہم وہ اکثریتی حکومت بنانے میں ناکام رہیں گے۔
40 روزہ جاری رہنے والی کشیدہ انتخابی مہم کے بعد اگرچہ لبرل پارٹی نے کچھ نشستیں گنوا دی ہیں لیکن جسٹن ٹروڈو کے ایک بار پھر وزیراعظم بننے کے امکانات روشن ہیں۔
ایلکشنز کینیڈا کے اندازے کے مطابق جسٹن ٹروڈو کی لبرل پارٹی 156 نشستوں پر کامیابی حاصل کر سکتی ہے جس سے اسے روایتی حریف کنزرویٹو پارٹی کے اینڈریو شیئر پر برتری حاصل ہو جائے گی۔ انتخابی مہم کے دوران 47 سالہ ٹروڈو کو ان کے خلاف مبینہ سکینڈلز کا مسلسل سامنا کرنا پڑا۔
اگرچہ ایگزٹ پولز سے واضح ہے کہ لبرل پارٹی کو برتری حاصل ہے تاہم امید ہے کہ کوئی بھی جماعت اکثریتی حکومت کے لیے ضروری 170 نشستیں حاصل کرنے میں ناکام رہے گی۔
سوموار کو 20 ہزار سے زیادہ پولنگ سٹیشنز پر ہونے والے انتخابات میں اینڈریو شیئر کی کنزرویٹیو پارٹی 121 نشستیں جیت کر ملک کی دوسری سب سے بڑی جماعت اور مضبوط اپوزیشن بن کر سامنے آ سکتی ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
جگمیت سنگھ کی نیو ڈیموکریٹک پارٹی کے بارے میں خیال کیا جا رہا تھا کہ یہ کینیڈا کی تیسری بڑی جماعت بن کر ابھرے گی تاہم یہ اعزاز بلاک کیوبیکوائے کو حاصل ہوگا جو 32 نشستوں پر کامیاب ہوگئی ہے۔
سی بی سی کے مطابق ایلزبتھ مے کی گرین پارٹی تین نشستیں جیت سکتی ہے جبکہ پیپلز پارٹی آف کینیڈا کے رہنما میکسیم برنیئر کو اپنی ہی نشست پر شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے۔
یہ ایگزٹ پولز کینیڈا کی جدید تاریخ کے انتہائی متنازع انتخابات کے بعد سامنے آئے ہیں جس میں بار بار سامنے آنے والے سکینڈلز نے وزیراعظم ٹروڈو اور ان کی انتظامیہ کو بدنام کیا۔
اگرچہ سروے سے معلوم ہوا کہ کینیڈا کے رائے دہندگان کے لیے ہیلتھ کیئر سب سے اہم مسئلہ ہے جبکہ موسمیاتی تبدیلی بھی ان انتخابات کی مہم میں اہم موضوع بن کر سامنے آیا۔
یہ انتخابی سیزن وزیراعظم ٹروڈو کے اس اعتراف پر مرکوز تھا جس میں انہوں نے متعدد مواقع پر بلیک فیس استعمال کرنے کا اعتراف کیا۔ بلیک فیس میک اپ یا پینٹ سے چہرے کا رنگ سیاہ کرنے کو کہتے ہیں جسے سیاہ فافوں کی تضحیک بھی سمجھا جاتا ہے۔
ٹروڈو پر یہ بھی الزام ہے کہ انہوں نے کیوبیک کی تعمیراتی کمپنی ایس این سی لاوالین کے خلاف جاری مجرمانہ مقدمے میں غیر قانونی طور پر مداخلت کی تھی۔
ان سکیںڈلز کے باعث ٹروڈو کے ووٹوں میں زبردست کمی دیکھی گئی جبکہ موسمیاتی تبدیلی، تارکین وطن کو ملک میں خوش آمدید کہنا، حکومت میں صنفی نمائندگی کو بڑھانا اور مردم شماری کے سوالات میں تبدیلی کرنے جیسے ان کے قابل ذکر اقدامات کو نظر انداز کیا گیا۔
ان انتخابات میں ٹروڈو کی پوزیشن اتنی نازک تھی کہ سابق امریکی صدر باراک اوباما نے روایت توڑ کر کینیڈا کے انتخابات پر اثر انداز ہونے کے الزامات کا سامنا کرتے ہوئے جسٹن ٹروڈو کی حمایت میں آواز بلند کی تھی۔
اوباما نے لکھا: ’بطور صدر مجھے جسٹن ٹروڈو کے ساتھ کام کرنے پر فخر تھا۔ وہ ایک محنتی اور اثر انگیز رہنما ہیں جو موسمیاتی تبدیلی جیسے بڑے مسائل پر بات کرتے ہیں۔ دنیا کو اب ان کی ترقی پسند قیادت کی ضرورت ہے اور مجھے امید ہے کہ ہمارے شمالی پڑوسی ملک کے باشندے ان کو دوبارہ منتخب کریں گے۔‘
موجودہ انتخابات کے برعکس 2015 کے انتخابات میں کینڈا میں ’ٹروڈومانیہ‘ پھیل گیا تھا اور جسٹن ٹروڈو کی مقبولیت اپنے عروج پر تھی۔ یہ وہی تحریک تھی جس کے ذریعے جسٹن کے آنجہانی والد پیئر ٹروڈو بھی 1960 کی دہائی میں اقتدار میں آئے تھے۔
2015 کے انتخابات میں جسٹن ٹروڈو کی لبرل پارٹی نے پارلیمنٹ میں 184 نشستیں حاصل کی تھیں جس سے نو سال بعد کنزرویٹو پارٹی کے اقتدار کا خاتمہ ہوا۔
© The Independent