آج کل کے جدید سوشل میڈیا کے دور میں جب ہر کوئی ہاتھ میں کیمروں سے مسلح موبائل لیے گھوم رہا ہے تو ایسے میں تصاویر اور ویڈیوز کی کوئی کمی نہیں ہونی چاہیے لیکن اچھی پروفیشنل تصاویر کا کال پھر بھی رہتا ہے۔
پرنٹ میڈیا تو کسی نہ کسی طرح مشکل حالات کا مقابلہ کرنے کی کوشش کر رہا ہے لیکن ڈیجیٹل اور الیکٹرانک میڈیا کو اچھی تصاویر کی ضرورت ہر وقت رہتی ہے۔ ایک اعلیٰ بلاگ کے ساتھ اگر مناسب تصویر نہ ہو تو پڑھنے والوں کو متوجہ نہیں کر پاتا اور ٹی وی، جو ہے ہی ویژول میڈیم، میں اچھی تصاویر کی ہر وقت ضرورت رہتی ہے۔
بیرون ملک ایسی تصاویر کی فراہمی کروڑوں ڈالرز پر مبنی ایک بہت بڑا کاروبار ہے لیکن پاکستان جیسے ملک میں جہاں کاپی رایٹس یا جملہ حقوق کو کوئی گھاس نہیں ڈالتا یہ کام آگے نہیں بڑھ سکا ہے۔ ایک آدھ ویب سائٹس آئیں لیکن کئی مسائل کی وجہ سے جلد ماضی بن گئیں۔ لیکن اب اسی ضرورت کو پورا کرنے کے لیے چند پیشہ ور فوٹوگرافرز نے مل کر پاک سٹاک فوٹو ڈاٹ کام کے نام سے سٹارٹ اپ شروع کیا ہے۔
منتظمین اسے پاکستان کی پہلی اور واحد سٹاک فوٹو لائبریری قرار دے رہے ہیں۔ اب پبلشرز، اشتہاری اور مارکٹینگ کمپنیاں اور میڈیا باآسانی اپنی ضرورت کی تصویر اس ویب سائٹ سے نہ صرف خرید سکتے ہیں بلکہ اپنی تصاویر فروخت کے لیے پیش بھی کرسکتے ہیں۔ اس وقت اس میں ہزار سے زائد تصاویر دستیاب ہیں جو آپ مختلف لائسنسنگ انتظام کے تحت خرید سکتے ہیں اور تصویر کے معیار کے اعتبار سے ادائیگی کرسکتے ہیں۔
اس کوشش کی روح و رواں محمد عابد، ثاقب ریاض اور اسد زیدی کا تکون ہے جو اس سٹارٹ اپ ویب سائٹ کی مصنوعات، ٹیکنالوجی، حکمت عملی اور معیار پر نظر رکھتے ہیں۔ یہ ویب سائٹ اسلام آباد میں نیشنل انکیوبیشن سینٹر سے چلائی جا رہی ہے جہاں اس کے کاروباری پہلو کو بھی حتمی شکل دی گئی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
محمد عابد نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے اس کوشش کے آغاز کی وجہ کچھ یوں بیان کی: ’میں نے ہمیشہ یہ محسوس کیا کہ ہماری مقامی ویب سائٹس کیسے سفید فام ماڈلز کی تصاویر لگاتی ہیں جس وجہ سے ہمارے لوگ اس مواد کے ساتھ بہت کم تعلق حاصل کر پاتے ہیں۔ چھوٹے اداروں کے پاس اکثر فوٹوگرافروں کی خدمات حاصل کرنے کے لیے وسائل نہیں ہوتے۔ ہماری تحقیق کے مطابق پاکستانی مواد پر مبنی ایک تصویری لائبریری ایک موقع تھا جسے ہم ہاتھ سے جانے نہیں دینا چاہتے تھے۔‘
فل الحال اس ویب سائٹ کے بانی اپنی جیب سے اس کے اخراجات پورے کر رہے ہیں۔ عابد کا کہنا ہے کہ وہ اپنی ترقی خود رو (آرگینک) رکھنا چاہتے ہیں۔ اس سٹارٹ اپ ویب سائٹ میں ایک چھوٹی تصویر کے ساڑھے آٹھ سو روپے قیمت رکھی گئی ہے اور بڑی تصاویر کی قیمت بھی بڑی یعنی ساڑھے پانچ ہزار روپے تک۔ اس میں فوٹوگرافر کا حصہ 50 فیصد ہوتا ہے جبکہ باقی رقم ویب سائٹ اپنے اخراجات پورے کرنے کے لیے رکھ لیتی ہے۔
تو ایک ایسے ماحول میں جہاں جملہ حقوق کوئی معنی نہیں رکھتے، کیا ایسے کسی پلیٹ فارم کی ضرورت ہے جو تصویر کی قیمت بڑھا دے؟ عابد کہتے ہیں کہ وہ ’مقامی طور پر اشتہاری کمپنیوں اور میڈیا اداروں پر انحصار زیادہ کر رہے ہیں جہاں پاکستانی تصاویر کی مانگ کافی زیادہ ہے۔ پھر غیرملکی صحافی ہیں جو یہ تصاویر لینے کے لیے خود نہیں آسکتے تو ہم انہیں یہ مہیا کرسکتے ہیں۔‘
پاکستان میں عام طور پر اخبارات و رسائل اور ٹی وی چینل غیرملکی خبررساں اداروں پر انحصار کرتے ہیں۔ پاک سٹاک فوٹو کی طرز پر کئی بین الاقوامی ویب سائٹس سرگرم ہیں جن میں شٹرسٹاک سب سے بڑی مانی جاتی ہے جس پر بیس کروڑ تصاویر دستیاب ہیں۔
تو پاک سٹاک کیسے ان دیو ہیکل ویب سائٹس اور اداروں کا مقابلہ کرسکتی ہے؟ اس کا جواب عابد نے انتہائی آسان الفاظ میں کچھ یوں دیا: ’بیرون ملک کمپنیاں ممبرشپ یا سبسکریپشن پر چلتی ہیں اور دوسرا ان کا اکثر مواد پاکستان کے لیے موافق نہیں ہوتا۔ بےشک ان کی لائبریری بہت بڑی ہے لیکن پاکستان سے متعلق محض ایک لاکھ تصاویر ہیں۔‘
پاکستان میں یہ سوچ ابھی نئی ہے، تاہم باقی دنیا میں یہ نیا نہیں رہا۔ عالمی سطح پر ممالک یا علاقائی بنیادوں پر کمپنیاں میدان میں آئی ہیں جو اپنے مواد کو مقامی مارکیٹ کے لیے زیادہ موزوں بنا رہی ہیں۔ بھارت میں اسے امیج بازار، کینیڈا میں سٹاک فوٹو اور شمالی یورپ میں سکین سٹاک فوٹو جیسی ویب سائٹس یہی کاروبار کر رہی ہیں۔
پاک سٹاک فوٹو ڈاٹ کام جیسے سٹارٹ اپس کو کامیاب کرنے کے لیے سرکاری اور غیرسرکاری اداروں کو حوصلہ افزائی کرنا ہوگی تاکہ وہ اپنے پاؤں پر کھڑے ہو کر ملک کی شناخت اور ایک عالمی برینڈ بن پائیں۔