میرے دل کی دھڑکنیں بہت تیز ہو چکی تھیں، ایک ہاتھ میں فون جبکہ دوسرے میں کنگھی تھی اور میں آئینے کے سامنے بال سنوار رہا تھا۔
میرے بال تین دن سے نہ دھلنے کے باعث میرے خیالات سے زیادہ الجھے ہوئے تھے۔ آج میرے سسرال والے مجھے دیکھنے آرہے تھے۔ فون پر میں اپنے سسر صاحب سے مخاطب تھا۔
مجھے لگا گھر پہنچنے میں انھیں وقت لگے گا تب تک میں کچھ بن سنور لوں گا، مگر فون پر جیسے ہی مجھے بتایا گیا کہ وہ اُس گلی میں داخل ہو چکے ہیں جہاں میں رہتا ہوں تو میرے دل کی تیز دھڑکنوں میں ایک ٹھہراؤ سا آیا، جیسے اب دھڑکنیں حالات کی کشیدگی کا اشارہ دینے سے بھی گئیں۔
میں بوکھلایا، سٹپٹایا اور کنگھی کو میز پر یہ سوچ کر رکھا کہ کنگھی کر کے بھی میں زیادہ پرکشش نظر نہیں آؤں گا اور گلی میں چلا گیا۔ چند ہی قدم پر میرے سسر صاحب، ان کے داماد (’کمانڈر‘ دلاور)، صاحبزادے (علی بھائی) اور دیگر خواتین گاڑی سے اتر رہے تھے۔
میں ان کی جانب بڑھتے ہوئے اپنے پہلے تاثر کے بارے میں بہت فکر مند تھا۔ مجھے ڈر تھا کہ اتنی بری حالت، الجھے بال، معمول کی شرٹ پتلون اور جلدی میں پہنے گئے بڑے بھائی کے جوتے میرا پہلا امپریشن خراب نہ کر دیں۔ (عام زندگی میں مجھے اس کی پروا نہیں ہوتی مگر یہ رشتے کا معاملہ ہے بھائی، کرنا پڑتا ہے)۔
بہرحال سب نے مجھے دیکھ کر کیا ردعمل دیا یہ جان لیجیے۔ سسر صاحب کی نظروں سے واضح تھا کہ وہ خود سے کہہ رہے ہوں ’ہمارا مہمان بنا تو اتنا بن ٹھن کے اور آج اس کا میزبان کا روپ تو بہت بھیانک نکلا بھائی۔‘
میرے سسر صاحب کے صاحبزادے (علی بھائی) مجھے حیرت کی تصویر بنے نظر آئے۔ انھوں نے مجھے تصاویر یا ٹی وی سکرین پر ہی دیکھ رکھا تھا۔ یہ موبائل کے فلٹرز اور ٹی وی سکرین کی چمک، کتنا بڑا دھوکا ہوتے ہیں، اس کا اندازہ مجھے اس وقت علی بھائی کی حیرت سے ہوا۔ ان کا چہرہ لفظ حیرت کی مکمل ترجمانی کر رہا تھا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
رہے کمانڈر دلاور (سسر صاحب کے داماد)، انھوں نے مجھے جس اندازسے دیکھا، جس طرح ہاتھ ملایا اور چلنے کو کہا میں دعوے سے کہہ سکتا ہوں کہ انھوں نے مجھے گھر کا ملازم سمجھا تھا جو انھیں راستہ بتانے کے لیے آیا تھا۔
بدقسمتی سے بوکھلاہٹ میں میرے ساتھ وہ بھی ہوا جو اکثر آپ سب کے ساتھ ہوتا ہے۔ جب کمانڈر دلاور کو میں گلے لگانا چاہ رہا تھا، تو وہ ہاتھ ملانا چاہ رہے تھے۔(ملازم جو سمجھا تھا) اور جب میں ہاتھ ملانا چاہ رہا تھا تو وہ گلے لگانا چاہ رہے تھے۔
مختصر یہ کہ میں (جہاں پاؤں پڑ جائے، رکھتا ہوا) مہمانوں کو لے کر گھر کی جانب چل پڑا۔ بلاوجہ اسلام آباد اور لاہور کے موسم کا موازنہ بھی کرتا رہا جبکہ دونوں شہروں میں یکساں گرمی پڑ رہی تھی۔ دلچسپ اور حیران کن یہ کہ کسی نے بھی موسم پر تبصرہ نہ کرنا چاہا، سب خاموش چلتے رہے۔
میری تذلیل کی داستاں یہاں ختم ہوئی مگر ابھی ایک اور مسئلہ درپیش تھا۔ گھر پہنچنے پر سب مرد و خواتین یوں ملے جیسے برسوں کا یارانہ ہو جبکہ مہمان و میزبان سب ایک دوسرے کے لیے اجنبی تھے۔ میں بھی کچھ حد تک ایسی اداکاری کر رہا تھا مگر مجھے ناکامی کا سامنا تھا، اداکاری کرنی پڑتی ہے بھائی، کیا کریں رشتہ داری ہے۔
گفتگو شروع ہوئی اور باہمی دلچسپی کے امور زیر غور آئے (صحافتی زبان میں باہمی دلچسپی کے امور سے مراد ’نہ بتانے والی باتیں یا بے کار باتیں‘ ہوتی ہیں) لہٰذا آپ کچھ بھی سمجھ لیں۔
ایک موقع پر گفتگو ’سیاست میں عسکری مداخلت‘ پر آن پہنچی۔ میں ’غدار‘ اور میرے سسر ’محب وطن‘۔۔۔ یہ بحث میری جب بھی کسی سے ہوئی تو بس ہاتھا پائی کی کسر رہ جاتی ہے۔ کیا آج بھی یہی ہونے جا رہا ہے؟ کیا ایسا ہونا بہت غلط نہیں ہو جائے گا؟ کئی سوالات میرے ذہن میں تھے۔
یہ وہ تاریخی دن تھا جب میں نے پہلی بار اپنے نظریات کو اپنی ہونے والی بیوی پر قربان کر دیا۔ میرے سامنے سسر صاحب اپنے بھاری الفاظ میں سول سپرمیسی کی مخالفت اور اس سے نفرت کا اظہار کر رہے تھے اور میں سراپا اتفاق بنا ہوا تھا۔
ایک موقعے پر تو سسر صاحب نے عسکری مداخلت کی اس حد تک حمایت کی کہ جرنیلوں کی ذہانت، پالیسی سازی، صلاحیتوں کی تعریف کے ساتھ ساتھ معیشت، سیاست یا عدالتی امور میں ان کی مداخلت کو بھی ملکی خدمت اور ان کی عظیم قربانی قرار دیا۔
میری برداشت اُس لمحے ختم ہو گئی جب انھوں نے سول سپرمیسی کے چاہنے والوں کے لیے ’احمق‘ کا لفظ استعمال کیا۔ مجھے لگا یہ تو اب حد ہو گئی۔۔۔میں نے یہ سب سن بھی کیسے لیا؟
مگر میں نے نہ صرف یہ سب سنا بلکہ سر ہلا کر، مسکرا کر، بھاری الفاظ اور لہجے کو اتفاقیت سے بھرتے ہوئے، دل پر پتھر رکھ کر باآواز بلند، بار بار اتفاق بھی کیا اور کرتا چلا گیا۔ کیا کروں کرنا پڑتا ہے بھائی، رشتہ داری ہے۔ رہے کمانڈر ’ان کا تو نام ہی کافی ہے۔‘
پہلے وہ بوکھلاہٹ اور اب یہ نظریاتی قربانی۔ میں تو قربان ہی ہو چکا تھا۔ اپنی محبت یا سسر صاحب کی حب الوطنی پر؟ اس کا اندازہ آپ خود ہی لگا لیجیے۔
کھانا، چائے۔۔۔ رشتہ پکا ہوا۔ اتفاق ہوا کہ رواں سال ہی شادی کی جائے گی، مگر کمانڈر دلاور کی نظروں سے میں پڑھ سکتا تھا کہ ان کو خدشہ ہے کہ ایک غدار ان کی فیملی کا حصہ بننے جا رہا ہے۔
ملاقات کے اختتام پر دروازے پر موضوع چھڑ گیا کہ لاہور شہر میں اچھی رہائش کہاں ہو سکتی ہے، تو میرے عسکریت پسند سسرال کی اکثریت نے عسکری فلیٹس کو بہترین بتایا۔ اندازہ لگائیں مجھ ’غدار‘ پر کیا بیتی ہو گی، مگر رشتہ داری ہے، کرنا پڑتا ہے۔
چند روز بعد میری ہونے والی بیوی (اسما) نے اپنی پسند کا اظہار کرتے ہوئے بتایا کہ اسے لاہور کے عسکری فلیٹس پسند ہیں۔ یہاں یہ واضح کر دوں کہ اسما نے صرف پسند کا اظہار کیا تھا، کوئی مطالبہ نہیں۔ وضاحت بھی دینی پڑتی ہے۔۔۔
یہ تحریر مکمل کرنے کے بعد مجھے عسکری فلیٹس دیکھنے جانا ہے، سو اجازت دیجیے۔ اللہ حافظ!