مغربی کنارے کی چوٹی کی ڈی جے سما کہتی ہیں کہ ’فلسطین لوگ کم آتے ہیں، یہاں آنا ان کے لیے آسان نہیں۔ ہر کوئی سمجھتا ہے کہ یہ میدان جنگ ہے، لہٰذا کوئی دلچسپی نہیں ہے۔۔۔ آپ جانتے ہیں یہ برلن کی طرح نہیں ہے۔‘
سیاسی بحرانوں، اسرائیلی فوجیوں کے ساتھ پرتشدد جھڑپوں اور گرائے جانے کی دھمکیوں کی وجہ سے مقبوضہ علاقے کم ہی خبروں سے دور رہے ہیں۔ لیکن جو اس تمام سے دور محسوس ہوتا ہے وہ رام اللہ کا یہ سورج کی روشنی سے چمکا ہوا صحن ہے۔
یہ جون کی دوپہر تھی جب لوگوں کے ایک ہجوم کی خبروں میں کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ یہ پہلا موقع تھا کہ دنیا کے سب سے زیادہ دیکھے جانے والے موسیقی کے انڈر گراونڈ چینل بوائلر روم نے فلسطینی خطے سے نشریات کیں۔ دن کی پہلی تقریب حائفہ کے جزر کریو کی تھی جس میں زبردست رنگوں اور فیشن سے بھرپور نوجوان ڈیک کے گرد موجود تھے۔ ڈی جیز کے بلکل پیچھے ایک رقص کرتی عورت براہ راست کیمروں میں دیکھ رہی ہے۔ اس نے جالی والا ٹاپ اور نقلی نقاب پہن رکھا تھا۔ یہ بلکل بھی کوئی میدان جنگ نہیں لگ رہا تھا۔ یہ تو کوئی زبرست پارٹی کا ماحول تھا۔
رام اللہ سے نشریات کرنے کا فیصلہ فلسطینیوں کے لیے بہت اہمیت رکھتا ہے۔ یہ اس خطے میں پیدا ہونے والے ہنر کی گہرائی کو تسلیم کرتا ہے، اور پہلے سے قائم اس قسم کی سوچ یا نظریات کا مقابلہ کرنے میں مدد دیتا ہے کہ مغربی کنارہ ایک قدامت پسند، غیر سیکولر اور دہشت گردی سے متاثرہ علاقہ ہے۔ مغربی کنارے سے بوائلر روم 2018 کی سب سے زیادہ مقبول نشریات میں سے ایک تھا جس میں یوٹیوب پر سماء کو 13 لاکھ مرتبہ دیکھا گیا۔ لیکن اس سے زیادہ اہم یہ کہ یہ منقطع فلسطینی دھڑوں کے انڈر گراؤنڈ موسیقاروں کو اکٹھا کرتا ہے۔ ان میں وہ بھی شامل ہیں جو مغربی کنارے پر رہتے ہیں، جو عربی بولتے ہوئے پلے بڑھے اور آذادانہ طور پر اسرائیل کا سفر نہیں کرسکتے ، اور پھر اسرائیل میں فلسطینی ہیں جو عبرانی زبان بولتے ہوئے پلے بڑھے ہیں اور مغربی کنارے سے یوٹیوب ویڈیوز دیکھنے کے علاوہ بھی رابطے میں رہنے کی کوشش کرتے ہیں۔
دونوں علاقوں کے بہترین اور روشن ترین فنکاروں پر مشتمل ایک پارٹی کرنے کی صرف ایک وجہ نہیں ہے، یہ فعال طور پر ایک پل کی تعمیر اور برادریوں کو دوبارہ ملانا ہے جو جغرافیایی اور ثقافتی طور پر دونوں دہائیوں تک الگ کردی گئی ہیں۔
سماء کا کہنا ہے کہ ’طویل طویل عرصہ تک فلسطینی شہروں کے درمیان ایک بہت بڑی تقسیم تھی، لیکن آخر میں ہم سب ایک سے ہی لوگ ہیں، ہم سب فلسطینی ہیں اور ہم سب ایک ہی ثقافت رکھتے ہیں۔’
بیئر کی بوتلوں سے سگریٹ کے لمبے سوچ سے بھرے کش، اجتماع (مرد اور عورتیں برابر تعداد میں) انڈر گراونڈ آوازوں پر ہلتے ہیں۔ روایتی عربی رببابا اور کچھ برلن- اسکے کک ڈھول، ماحول کو اجنبی لیکن اذیت ناک طور پر جانا پہچانا بناتے ہیں۔
" ڈائریکٹر جیسکا کیلی نے بوائلر روم کے ساتھ مل کر فلسطین انڈر گراونڈ کی رام اللہ میں پہلی پارٹی پر دستاویزی فلم بنائی تھی۔ وہ کہتی ہیں: ’مغرب میں بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ فلسطینی ثقافت بہت قدامت پرست ہے، کہ مرد اور عورتوں ملتے نہیں ہیں، وہ منشیات استعمال نہیں کرتے نہ ہی شراب پیتے ہیں، وہ کھل کر ہم جنس پرست نہیں ہو سکتے، نہ ہی بڑے پیمانے پر پارٹیاں نہیں کرتے۔ رام اللہ میں اپنی پہلی پارٹی کے مطابق دستاویزی فلم کی پیروی کی. "ظاہر ہے، قدامت پرست اقدار مغربی مغرب میں بہت ہی اہم ہیں، لیکن ہماری فلم ایک اور حقیقت سے ظاہر کرتی ہے کہ ان دقیانوسیوں سے بہت مختلف ہے.‘
ڈائریکٹر جیسکا کیلی، جنہوں نے بوائلر روم کے ساتھ مل کر فلسطین انڈر گراونڈ کی رام اللہ میں پہلی پارٹی پر دستاویزی فلم بنائی کہتی ہیں: ’مغرب میں بہت سے لوگوں کا خیال ہے کہ فلسطینی ثقافت بہت قدامت پرست ہے، کہ مرد اور عورتوں ملتے نہیں ہیں، وہ منشیات یا پینا پلانا نہیں کرتے ہیں، وہ کھل کر ہم جنس پرست نہیں ہو سکتے ہیں، وہ بڑے پیمانے پر پارٹیاں نہیں کرتے ہیں۔ مغربی کنارے میں بےشک قدامت پرست اقدار بہت ہی حاوی ہیں، لیکن ہماری فلم ایک اور حقیقت ظاہر کرتی ہے کہ یہ دقیانوسیوں سے بہت مختلف ہے۔‘
ایم سی اور ہپ ہاپ پروڈیوسر مکماکک سمجھتے ہیں کہ فلسطینی ثقافت کو موسیقی کے ذریعے خراج تحسین پیش کرنا بہترین مزاحمت ہے۔ (بوائلر روم)
حقیقت میں، فیس بک پر پارٹی کے پہلے ٹرانسمیشن کے دوران، ناظرین نے پوچھا تھا کہ یہ سیٹ کہاں منعقد کیا گیا تھا، ممکنہ طور پر رام اللہ میں ہو سکتا ہے جو مغربی کنارے کی سب سے زیادہ آبادی اور مزاحمت کا مرکز ہے۔ فلسطینی ثقافتی دارالحکومت، رام اللہ اچھے کھانوں، فن اور نائٹ لائف کا مرکز۔ محض 24 ہزار افراد پر مشتمل اس شہر کا اسرائیلی قبضے سے قبل طویل عرصے تک فلسطینیوں پر وسیع پیمانے پر اثر رہا ہے۔
فلسطینی انڈرگراونڈ رام اللہ کے اس پہلو کو اجاگر کرتا ہے۔ ہم مصروف گلی کوچوں اور لوگوں کو دھوپ میں سڑک پار کرتے دیکھتے ہیں ناکہ پرہجوم احتجاج یا ٹائر جلانے کا عمل۔ رام اللہ بحیرہ روم کے کسی بھی بھی دلفریب شہر کی طرح نظر آتا ہے۔ عمارتیں گر نہیں رہیں، لوگ معمولات زندگی میں مصروف ہیں، کھجور کے درخت ہیں اور کھڑکیوں سے فٹبال کے پرچم آویزاں ہیں۔ رام اللہ مصیبت زدہ نہیں بلکہ تخلیق کا شہر ہے۔
رام اللہ میں صورتحال محدود ہے اور اکثر ایونٹ کسی نجی مکان یا چھوٹی سی جگہ میں منعقد ہوتے ہیں۔ اس دستاویزی فلم میں ہم ایک چھوٹے سے اطالوی ریستوران لاوین کی پرانی فوٹیج دیکھتے ہیں جو رات میں نائٹ کلب کی صورت اختیار کر لیتا ہے۔ یہ تحریک چند جذباتی افراد اور ان کے حامیوں پر مشتمل ہے جو انڈرگروانڈ رجحانات سے اپنے پرانے لگاؤ کا اظہار کرتے ہیں اور اس کا اظہار اور احتجاج کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔
90 کی دہائی کے وسط سے ہپ ہاپ بطور انڈر گراؤنڈ مقبول ترین موسیقی رہی ہے۔ سب سے مقبول شخصیت مقطع (عربی میں رکاوٹ) ہیں جو ایک ریپر اور ڈی جے ہیں۔ انہوں نے شورشرابے والی گلیوں سے متاثرہ منفرد موسیقی ترتیب دی ہے۔
مقطع اندرون شہر کا رخ کرتے ہیں، اپنا فون نکالتے ہیں اور اس علاقے کی صدائیں ریکارڈ کرنے لگتے ہیں۔ تعمیراتی کام، مصروف بازار اور کھیل کے میدانوں میں چیختے بچے۔ وہ کہتے ہیں کہ ’یہ رام اللہ کی آواز ہے۔ ہماری ثقافت کو آہستہ آہستہ مٹایا جا رہا ہے۔۔۔ ہم اپنے کھانے، لباس اور موسیقی کھو رہے ہیں۔ میرے لیے اپنی ثقافت سے صدائیں دوبارہ استعمال کرکے ایک طریقہ ہے اسے زندہ رکھنے کا اور مزاحمت کا۔‘
بعد میں مقطع ان آوازوں کو الیکٹرانک موسیقی کے ساتھ ملاتے ہیں اور اس کے اوپر ریپ کرتے ہیں۔ یہ ’رام اللہ کی صدا’ فلسطینی موسیقی کی شناخت بن گئی ہے۔ بعد میں فلم میں ہم دیکھتے ہیں کہ اسرائیل سے جزار کریو جو مقطع کو اپنی تخلیق کی وجہ بتاتے ہیں اپنی گاڑی میں اسے سن رہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں ’یہ بنسا بنسا! کی ڈرل سے ہے۔‘
فلسطینی ہپ ہاپ کے پیشوا سمجھے جانے والے مقطع نے 2007 میں رام اللہ انڈرگراونڈ کے ساتھ ریپنگ کا آغاز کیا۔ لیکن ان کا خیال تھا کہ وہ مغربی کنارے سے ہٹ کر موسیقی تیار کر رہے تھے، جو امریکہ اور دیگر عرب ہپ ہاپ تحریکوں کے قریب تھی۔ 2009 میں انہوں نے صالب واحد بشمول ریپرز دکن، جولمد، ہیکل، ال ناتھر اور مغربی کنارے کی پہلی خاتون ایم سی، مکماکک کے ساتھ کام کیا۔
ہم مقطع کے پیچھے ایک تاریک زیرِ زمین سٹوڈیو پہنچتے ہیں اور ان کا گروپ فری سٹائل میں بجانا شروع کر دیتا ہے۔ یہ موسیقی اس حد تک ثقافتی شناخت سے وابستہ ہے کہ اشعار کے ساتھ۔ فنکار جب اشعار غلط بول دیتے ہیں تو اپنے سر دھنتے ہیں، ہنستے ہیں اور ایک دوسرے کو کمر پر تھپکی دیتے ہیں۔
شاعری کچھ زیادہ سیاسی یا مزاحمتی نہیں، بلکہ وہ مزاح، ذاتیات اور رام اللہ کی غیرروایتی بولی پر مبنی ہے۔ دکن مارکیٹ میں ملی ایک لڑکی کے بارے میں ریپ کرتے ہیں جب تمام گروہ اوپر نیچے چھلانگیں مارنے لگتے ہیں اور ’رمضان مفت میں نہیں آتا!‘ گاتے ہیں۔
تاہم مقطع زور دیتے ہیں کہ رام اللہ کی ہپ ہاپ تحریک پر سیاست اور تبدیلی کی ضرورت بہت حاوی ہے۔ مکیماکک وضاحت کرتی ہیں کہ ’ہم تعطل کا شکار سیاست میں رہتے ہیں لہٰذا ہمیں اس قسم کی تبدیلی چاہیے۔ اسٹیبلشمنٹ پر حملہ سیدھے طریقے سے نہیں کیا جاتا۔ یہ بہت نرم ہوتا ہے۔ ہم اپنی ثقافت کو زندہ رکھ کر مزاحمت کر رہے ہیں۔ ہم تازہ، نئی اور دلچسپ چیزیں بنانا جاری رکھے ہوئے ہیں۔‘
وہ ہنستے ہوئے کہتی ہیں کہ ’ہمارے پاس ایسے فنکار بھی تھے جو عربی تجارتی موسیقی سے ٹیکنو بناتے تھے۔ سیاسی طور پر معملات تاریک ہیں لیکن رام اللہ میں یہ دلچسپ وقت ہے۔‘
اس نرم خو مزاحمت نے نہ صرف مغربی کنارے کے اندر مقبولیت حاصل کی ہے، بلکہ دیگر جگہوں پر فلسطینی برادریوں اور یہاں تک کہ اسرائیلیوں میں بھی مقبول ہے۔ اسرائیل کے انگریزی زبان کے اخبار ہارٹز نے تل ابیب میں فلسطینی ہپ ہاپ کی بڑھتی ہوئی مقبولیت پر ایک مضمون شائع کیا جس میں رام اللہ، ناصرہ اور حيفا کے مقبول ستاروں کو نمایاں کیا گیا۔
رام اللہ میں بوائلر روم کی پارٹی کے دوران فلسطینی انڈرگراؤنڈ کے نائب پروڈیوسر ڈیبورا ایپکل اسرائیلیوں کی جانب سے مثبت رائے کی وضاحت کرتی ہیں۔ ’کئی لوگوں کے لیے فلسطین کا یہ مختلف پہلو کافی حیران کن ہو گا۔‘ ایک رائے یہ تھی: ’اسرائیل کی جانب سے بہت پیار! کاش ہم ایک دوسرے کے ساتھ امن و آشتی کے ساتھ رہ پائیں۔ سیٹ زبردست ہے۔ میری خواہش ہے کہ میں ایک دن رام اللہ جا سکوں۔‘
رام اللہ کے فنکاروں کے لیے بوائلر روم بات کو آگے بڑھا رہا ہے۔ یہ انہیں اپنا کام جاری رکھنے کا جذبہ دیتا ہے۔ انہوں نے مجھے بتایا کہ یہ شو اب تک ہونے والے شوز میں سب سے طاقتور تھا۔‘
صالب واحد کا اثر بہت دور تک ہوسکتا ہے، لیکن انہیں ابھی مغربی کنارے سے باہر پرفارمنس دینی ہے۔ ایک دہائی والے کریئر کے باوجود مقطع نے تصدیق کی کہ ’میں نے [اسرائیل] میں کبھی بھی پرفارم نہیں کیا۔ میں چار سال تک حیفا میں پرفارمنس دینے کی کوشش کرتا رہا ہوں۔ لیکن یہ نہیں ہوسکا کیونکہ مجھے وہاں جانے کی اجازت نہیں ملی ہے، اگرچہ میں اصل میں وہیں سے ہوں۔‘
اگرچہ دستاویزی فلم کی مرکزیت رام اللہ ہے، لیکن اس میں اسرائیل بھر میں فلسطینی انڈر گراؤنڈ موسیقی منظر پر نظر ڈالی ہے، جس میں جافا اور حیفا میں کلبوں کو بھی دیکھا ہے۔ علاقوں کے درمیان فرق فنکاروں کی آزادی سے واضح ہوتا ہے۔ اسرائیلی پاسپورٹ کے ساتھ فلسطینی باشندے تو باآسانی مغربی کنارے کا سفر کر سکتے ہیں اور بغیر کسی مشکل کے پارٹیاں کر سکتے ہیں، رام اللہ کے رہائشیوں پر سفری پابندیاں ان کو ان کی موسیقی کو شہر سے باہر پھیلانے کو متاثر کر رہی ہے۔ اس کے علاوہ علاقے سے باہر فلسطینیوں کے ساتھ بات چیت کرنے کی صلاحیت کو بھی متاثر کرتی ہیں۔
تقریباً 18 لاکھ فلسطینی اسرائیل میں رہتے ہیں، جس میں شمالی ساحل پر ایک شہر حیفا، فلسطینیوں کی سب سے بڑی کمیونٹی میں سے ایک ہے۔ شہر دلچسپ اور متحرک ہے، تل ابیب اور یروشلم کا ایک مرکب۔ اس کے پڑوسیوں کے مقابلے میں بہت زیادہ پرامن، یہ یہودیوں اور مسلمانوں کے مل کر رہنے والی جنت کے طور پر جانا جاتا ہے۔
جس لمحے آپ رام اللہ سے کسی ڈی جے کو جعفر میں دیکھتے ہیں یہ لوگوں کو محسوس کرواتا ہے کہ سرحدیں بےمعنی ہیں۔
ڈائریکٹر جیسکا کیلی نے فلم کی ریلیز سے قبل اپنی تشویش کا اظہار کیا، اور اس مخصوص لمحے پر اسرائیلی حکام کا ردعمل۔ ’مجھے نہیں لگتا کہ وہ اس کے بڑے پیمانے پر پرستار ہو جائیں گے۔ ہم نے بھی 'اسرائیل'، 'مقبوضہ فلسطین' اور '48' جیسے نام استعمال کرنے کا متنازع فیصلہ کیا تاکہ اس فلم میں حصہ لینے والے کیسے اسرائیل کا حوالہ دیتے ہیں کا اظہار کرسکیں۔ بہت سے اسرائیلی ہیں جو اسے اسرائیل کے وجود سے انکار کے طور پر دیکھیں گے، لیکن ہمارے لیے یہ دیکھنے والوں کو سمجھانا ہے کہ اس میں حصہ لینے والے کیا کہہ رہے ہیں۔’
سین کو کاٹ کر رات کے وقت آنا لولو میں رقص و ٹیکنو کی فوٹیج دکھائی جاتی ہے۔ یہ جعفر میں واحد فلسطینی مقام ہے اور اس کے مالک مروان ہواش کے ساتھ انٹرویو میں وہ رام اللہ کے فنکاروں کو مصروف رکھنے کی اہمیت بتاتے ہیں باوجود اس کے کہ انہیں اسرائیل سمگل کرنے کے خطرے کے۔ ’یہاں جعفر میں جس وقت آپ رام اللہ سے ڈی جے کو دیکھتے ہیں تو ایک گھنٹی بجتی ہے۔ یہ انہیں احساس دلاتی ہے کہ سرحدیں کوئی معنی نہیں رکھتی ہیں اور انہیں ہم توڑ سکتے ہیں۔‘
سماء وہ پہلی فلسطینی خاتون ڈی جے ہیں جنہوں نے بوائلر روم میں اکیلے پرفارم کیا۔ وہ ڈیٹروئٹ اور برلن کی آوازوں سے متاثر ہیں اور جون سے ہلچل پیدا کیے ہوئے تھیں۔ میں نے ان سے پیرس میں ایک شو کے بعد ملاقات کی جہاں وہ 2018 کے آغاز سے مقیم ہیں۔ ان کا اصرار ہے کہ گھر پر ہونے والی پارٹیاں کسی بھی طرح سے یورپ سے کم نہیں۔ ’فلسطین میں پارٹی کے دوران رقص اور توانائی اور گرمجوشی برلن میں پارٹی کی طرح ہی ہے۔ واحد فرق لوگوں کی تعداد اور جگہ کا چھوٹا ہونا ہے۔ مجھے ٹیکنو میں محسوس ہوتا ہے کہ دنیا بھر میں توانائی اور احساس ایک جیسا ہے۔‘
سماء کے لیے پیرس منتقل ہونے کی بڑی وجہ کرفیوز سے بچنا تھا جن کی وجہ سے پارٹیاں منعقد کرنا مشکل ہو جاتا تھا۔ انہوں نے مسکراتے ہوئے کہا کہ ’ہماری یورپ کے مقابلے میں صورتحال نئی، تازہ اور آرام دہ ہے اور میرا اندازہ ہے کہ جبر کی وجہ سے پارٹی زیادہ دھماکہ خیز ہوتی ہے۔‘
بوائلر روم سیٹ کی وجہ سے سماء نے ان میں بطور فنکار فلسطینی دلچسپی میں زبردست اضافہ دیکھا ہے۔ میں ان سے پوچھا کہ سیٹ کی اہمیت اور اس کا ان کے آبائی شہر کے فنکاروں کے لیے کیا مطلب ہوگا۔ ’ایسے شہر میں جہاں موسیقی کی قدر ایک حد تک ہے ہمیں زیادہ آذاد ہونے کا احساس دلاتی ہے اور ہماری ہمت بڑھاتی ہے۔
’ان فلسطینیوں کے لیے جو الیکٹرانک موسیقی میں دلچسپی رکھتے ہیں، ہم وہ بیگانے نہیں جو وہ ہمیں بنانا چاہتے تھے۔ ہم اپنی موسیقی کے ساتھ مزاحمت کرتے ہیں، مشترکہ طور پر ہم انقلاب ہیں۔‘