محمد جان میری طرف ایسے دیکھ رہا تھا جیسے میرا دماغ خراب ہو گیا ہے۔ قاسم اپنی انگلی دماغ کےپاس لے جا کے گھما رہا تھا، عثمان بھی سوچ یہی سب کچھ رہا تھا بس بیٹھا نارمل تھا، وہ بے چارہ سب سے شریف آدمی ہے۔ ہم لوگ سات آٹھ مہینے بعد ملے تھے۔ سلام دعا، حال چال، گپ شپ کے بعد محمد نے پوچھا، سنا حسنین جمال زندگی سے تو نے کیا سیکھا؟
میں نے کہا، محمد یقین کر میں نے یہ سیکھا ہے کہ جو کچھ سیکھا تھا وہ غلط تھا اور جو کچھ اب سیکھ رہا ہوں وہ غلط ہو جائے گا۔ بات یہ واقعی ایسی ہے کہ یا کوئی فلاسفر کرے گا یا چول، فقیر دوسری صف میں ہے تو اسے جائز تھی۔ واقعی مسئلہ یہ ہے کہ ہر وہ چیز جو مجھے سچ کہہ کر سمجھائی گئی تھی، ہر وہ نظریہ جسے میں ٹھیک سمجھتا تھا، ہر وہ رائے جو میرے نزدیک درست تھی، ہر وہ خیال جسے میں صحیح سمجھتا تھا وہ سب کچھ ایک ایک کر کے غلط ہوتا جا رہا ہے۔ ضروری نہیں کہ وہ سب کے نزدیک غلط ہو لیکن ایسا ہو رہا ہے اور برابر ہو رہا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
معاشرتی علوم کو دیکھتا ہوں تو بچپن میں غزنوی اور محمد بن قاسم میرے ہیرو ہوتے تھے۔ بڑا ہوتا ہوں تو مجھے خیال آتا ہے کہ یار وہ میرا آئیڈیل کیسے ہو سکتا ہے جس نے کسی دوسرے کی جان و مال پہ حملہ کیا ہو؟ اس کے عبادت خانے توڑے ہوں، اس کے پرامن شہروں پہ لشکر چڑھائے ہوں، دشمن کی عورتیں اس کا مال غنیمت ہوں اور جو دولت ان حملوں میں ہاتھ آئی ہو وہ اس سے اپنا ملک اور اپنی فوج چلاتا ہو۔ پھر کچھ عرصے بعد یہ سوچتا ہوں کہ دنیا میں کوئی بھی لڑائی ہو، ایک جیتنے والا ہوتا ہے اور ایک ہارنے والا ہوتا ہے۔ ہر جیتنے والا ہارنے والے کے نزدیک نفرت کے قابل ہوتا ہے، تو پھر راجہ داہر ہو یا سومنات والے ہندو ہوں، محمد بن قاسم ہو یا صلاح الدین ایوبی ہو، میں کسی کو اپنے ترازو میں کیسے تول سکتا ہوں؟ ٹھیک ہے، وہ غلط تھے لیکن میرے اس فیصلے سے دنیا میں کیا تبدیلی آ سکتی ہے؟ جب روس پر پوٹن، امریکہ پہ ٹرمپ، برطانیہ میں بورس، بھارت پر مودی، ترکی پہ اردوان، شمالی کوریا پہ کم جون انگ اور پاکستان پہ عمران خان حکومت کر سکتے ہیں تو صدیوں پرانی تاریخ پڑھ کے اور اس پہ فیصلوں کے چکر میں اپنا دماغ خراب کر کے مجھے حاصل کیا ہو سکتا ہے؟
میں قومی ترانہ بڑے شوق سے پڑھتا تھا۔ بچپن میں پوری آواز کے ساتھ گلا پھاڑ کے اسمبلی میں پاک سرزمین پڑھتا تھا۔ سایہ خدائے ذوالجلال پہ سر آج بھی آٹو موڈ میں جھکتا ہے لیکن باقی ترانے میں کچھ باتیں نہیں سمجھ آتیں۔ ایک لائن کی مثال لیتے ہیں۔ یہ قوم، ملک، سلطنت، پائندہ، تابندہ باد، یہ کیا ہے؟ ایک ریاست میں تین الگ الگ سسٹم کیسے چل سکتے ہیں؟ قوم کا لفظ عام طور پہ مذہبی اکثریت کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ جیسے ہندو قوم، یہودی قوم، مسلمان قوم وغیرہ۔ ڈکشنری میں دیکھیں تو وہ کہتی ہے کہ ایسا کوئی گروہ جو مذہبی، نسلی، لسانی (یعنی جن کی مادری زبان ایک ہو) اور تاریخی وحدت کی وجہ سے اکٹھا ہو، وہ قوم کہلاتا ہے۔ اب اپنے ملک میں دیکھتا ہوں تو دوسرے مذہب کے لوگ بھی ہیں، دوسری نسل کے بھی ہیں (جیسے میں ہندوستان کا راجپوت بھٹی ہو سکتا ہوں اور آپ عربی نسل کے سید ہو سکتے ہیں)، زبانیں بھی یہاں کئی قسم کی بولی جاتی ہیں اور ہر علاقے میں الگ لوگ اپنی الگ مادری زبان کے ساتھ رہتے ہیں، تاریخی طور پہ بھی کچھ ایسے پکے ثبوت نہیں ملتے کہ میں یقین کر لوں کہ میں ایک ہزار سال سے ادھری اپنے انہی ہم وطنوں کے ساتھ رہ رہا ہوں، سو حملے ہوئے، سو ہجرتیں ہوئیں، کہاں کے لوگ کہاں آئے، کون جانتا ہے؟ تو قوم تو یہ ہو گئی۔ سلطنت کے ساتھ سلطان یا سلاطین ہوا کرتے تھے۔ یعنی بادشاہ ہوتے تھے اور ان کی رعایا ہوتی تھی۔ 1956 تک تو سمجھ میں آتا ہے کہ ہم سلطنت برطانیہ کا حصہ تھے، اوکے ہو گیا، اب تک یہ لفظ کیوں ہمارے ترانے میں ایسے ہی چلا آ رہا ہے؟روائتی بادشاہت کا چانس بھی کوئی نہیں تو اب تک یہ نشانی کیوں سنبھالی ہوئی ہے؟ قوم ملک سلطنت میں لفظ ملک رہ گیا، اس کی بات کرتے ہیں۔ ملک ڈکشنری کے مطابق وہ علاقہ ہے جو سیاسی یا جغرافیائی طور پہ اکٹھا ہو۔ اردو میں اس لفظ کے بھی دوسرے مطلب ہو سکتے ہیں لیکن فی الحال اگر میں یہ سوچوں کہ جمہوریہ پاکستان کے لیے ملک کا لفظ استعمال ہو گا اور ملک میں رہنے والے ایک سیاسی آئین کے تحت اس کے شہری ہوں گے تو یہ قوم اور سلطنت والا معاملہ مجھے بہرحال سمجھ نہیں آتا۔ ایک ملک جو کب سے جمہوریت کے نام پر قائم ہے اس کے ترانے میں سلطنت کا ذکر کیسے چلا آ رہا ہے؟ پھر اگلی بات یہی سمجھ آتی ہے کہ جوان جو تو آج سوچ رہا ہے کل یہ بھی تو غلط ہونا ہی ہے تو فقیر سر جھٹکتا ہے اور پھر سے یہی سوچنا شروع کر دیتا ہے۔
میں چھوٹا تھا تو مجھے سکول میں پڑھاتے تھے کہ سچائی ایک عظیم طاقت ہے۔ آنیسٹی از دی بیسٹ پالیسی۔ پھر میں بڑا ہوا تو میں نے دیکھا کہ جھوٹ سے بڑی طاقت کوئی نہیں ہے۔ سچے آدمی کا تو سایہ بھی ساتھ نہیں ہوتا۔ ہر قدم پہ جھوٹ بولنا پڑتا ہے۔ سکول میں تھا تو ٹیچروں سے جھوٹ، دوست نے موٹر سائیکل مانگی تو اس سے جھوٹ، ابا نے دیر سے آنے کا پوچھا تو ان سے جھوٹ، بھائی نے کسی جھگڑے کا پوچھا تو اس سے جھوٹ، شاگرد نے کسی شعر کا مطلب پوچھا تو اس سے جھوٹ، باس نے کسی دفتری غلطی کا پوچھا تو ان سے جھوٹ، بیوی نے خراب موڈ کا پوچھا تو اس سے جھوٹ، ماں نے آنکھوں میں پانی دیکھ کے پوچھا تو الرجی کا بتا کر اس سے جھوٹ، سیکنڈ ہینڈ موبائل بیچا تو جھوٹ، خریدا تو جھوٹ، اخبار پڑھا تو جھوٹ، کتاب پڑھی تو لکھاری کا جھوٹ، جھوٹ ہی جھوٹ، ہر طرف جھوٹ، جھوٹوں جھوٹ چرتالیس (44) کی دفعہ لگی ہوئی ہے اور مجھے طوطا بنا رہے ہیں کہ سچائی عظیم طاقت ہے، کون سی سچائی، کدھر کی سچائی؟ پھر میں سوچتا ہوں کہ شاید سچ یہی سب کچھ ہو اور جو میں سوچ رہا ہوں وہ بعد میں جھوٹ نکل آئے، پھر ٹھنڈا ہو جاتا ہوں۔
مجھے گاندھی جی بڑے عظیم انسان دوست لگتے تھے، بعد میں پتہ لگا جنوبی افریقہ میں انہوں نے بھی کالوں کے خلاف فل گیم کی تھی۔ سر سید احمد خان اپنے ہیرو تھے، بڑے پسند تھے کہ مسلمانوں کی تعلیم انہی کی وجہ سے ممکن ہوئی، پتہ لگتا ہے وہ عورتوں کی تعلیم کے ہی خلاف تھے۔ سوشلزم تھوڑا پسند آتا تھا پتہ لگا کہ ہر سوشلسٹ رہنما بذات خود ایک بادشاہ بن کے مرنے تک حکومت اور قوم کا پیچھا نہیں چھوڑتا تھا۔ مولوی بڑے پاک صاف اور مقدس قسم کے لگتے تھے، پھر مدرسوں کا یونانی طریقہ تعلیم اخبار سے لے کر فیس بک تک چھایا ہوا نظر آ گیا۔ افغان اور کشمیر جہاد پہ دل میں ایک مقدس قسم کی لہر بارہ چودہ سال کی عمر میں ادھر بھی اٹھتی تھی، بعد میں پتہ چلتا ہے وہ سب بھی ایک حکومتی پالیسی تھی اور اب تو خیر وہ پالیسی ہی غلط ہے۔ بھٹو صاحب بڑے پسند تھے، جانو لیڈر تھے اپنے، آج پتہ لگتا ہے کہ سارے بنیاد پرست قسم کے فیصلوں کی بسم اللہ انہوں نے ہی اپنے آخری دور میں کی تھی، وہ بھی سلام علیکم ہو گئے۔ ہر بچے کی طرح ٹینک، ہیلی کاپٹر، جنگی جہاز، سب کچھ مجھے بھی بہت پسند تھے، اب سمجھ آتا ہے کہ یار مرنے تو اس سے ہم جیسے انسان ہی ہیں، تو یہ سب چیزیں اور ان کا شوق بھی پانی ہو جاتا ہے۔ ابن خلدون کا مقدمہ تھا تو وہ بغیر ستونوں کا ہو چکا ہے، شہاب نامہ جو فیورٹ ترین تھا شہاب صاحب اس سمیت کٹہرے میں نظر آتے ہیں، اشفاق احمد کی ساری باتیں گول مول ہو کے ایک دوسرے سے الجھ چکی ہیں، بندہ جائے تو کہاں جائے؟
محمد جان کو میں یہ سب تفصیل سے بتانا چاہتا تھا۔ میں نے ایسا نہیں کیا۔ جگری دوستوں میں بیٹھ کے بندہ ایک آدھی لائن کا چول پن تو کر سکتا ہے، اتنی لمبی تقریر کرے گا تو وہ یا تو جگری نہیں رہیں گے یا دوست نہیں رہیں گے۔ یہ بدنصیبی پڑھنے والے کا مقدر ہوتی ہے۔ پڑھے، سوچے، سوال اٹھائے، خود سے اس کا جواب دے، نہ سمجھ آئے تو نعرہ مارے سب دا بھلا سب دی خیر، سکندر جب گیا دنیا سے دونوں ہاتھ خالی تھے، بوہتا سوچ کے وی کی کر لو گے؟