کرتار پور کیسے آباد ہوا؟

کرتارپور کو سکھوں کے دوسرے متبرک ترین مقام کا درجہ کیسے حاصل ہوا؟

کرتار پور راہداری کھلنے کا سکھوں نے بڑی حد تک خیر مقدم کیا ہے (اے ایف پی)

سکھ مذہب کے بانی بابا گورونانک کے 550ویں جنم دن سے تین روز قبل کرتار پور راہداری کا افتتاح ہندوستان میں بسنے والے سکھ مذہب کے ماننے والے افراد کو اس مقام تک رسائی دے گا جو ان کے مقدس مذہبی مقامات میں سے ایک ہے۔

پنجاب کے دارالحکومت لاہور سے جنوب مغرب میں واقع ننکانہ صاحب میں جنم لینے والے گرو نانک نے زندگی کے آخری سال کرتار پور میں گزارے۔ انہوں نے آخری عمر میں کرتار پور کو اپنا ٹھکانہ کیوں بنایا یہ ایک دلچسپ واقعہ ہے۔

بابا گرونا نک کی ریاضت، تعلیمات اور احترام انسانیت کے اصولوں نے انہیں ہندوؤں اور مسلمانوں میں یکساں مقبول بنایا۔ روایت کے مطابق ان کی وفات کے بعد مسلمانوں اور ہندوؤں میں قضیہ کھڑا ہو گیا تھا کہ بابا گرو نانک کی آخری رسومات کس طرح ادا کی جائیں۔

ہندو انہیں اپنے عقیدے کے مطابق جلانے کے لیے اصرار کر رہے تھے جب کہ مسلمان انہیں دفنانے پر مصر تھے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انتقال کے وقت ہندوؤں اور مسلمانوں میں بابا گرو نانک کے لیے عقیدت اور محبت کے جو جذبات تھے اس کی پیشن گوئی ان کی پیدائش کے وقت ایک پروہت ہر دیال مشرا نے کر دی تھی۔ سکھ مذہب کی روایات کے مطابق جب بابا گورو نانک کی پیدائش کے پانچویں روز پروہت ان کے گھر آئے تو انہوں نے نومولود کا نام نانک نرنکاری تجویز کیا۔ بابا گرو نانک کے والد نے پروہت سے کہا کہ یہ نام تو آدھا مسلمانوں اور آدھا ہندوؤں جیسا ہے۔ پروہت نے جواب دیا کہ یہی نام مناسب ہے کیونکہ یہ بچہ مذہبی تعصب اور گروہ بندی سے بالا تر ہو گا اور ہندوؤں اور مسلمانوں میں اس کے عقیدت مند ہوں گے۔

یہ پیشن گوئی حقیقت میں کی گئی یا یہ بھی ان ہزاروں روایات کی طرح فقط ایک قصہ کہانی ہے جو ہر مذہب کے اکابرین کے معتقدین ان کے بارے بیان کرتے ہیں، لیکن یہ ایک حقیقت ہے کہ بابا گورو نانک اپنے انتقال کے وقت مسلمانوں اور ہندوؤں میں  اپنی تعلیمات کی وجہ سے یکساں مقبول تھے۔ بابا گرو نانک کے انتقال کے وقت بے شمار ہندو اور مسلمان کرتار پور میں موجود تھے۔

گرو نانک کرتار پور کیسے پہنچے اور یہ بستی کیسے آباد ہوئی اس کے بارے میں بھی سکھ مذہب کی تاریخ کی کتابوں میں روایات موجود ہیں۔  اس سلسلے میں پروفیسر حمید اللہ ہاشمی نے اپنی تصنیف ’بابا گورنانک‘ میں ان کی موجودہ کرتارپور کے مقام پر آمد کا واقعہ بیان کیا ہے۔ گرونانک جب لاہور سے اس علاقے میں پہنچے تو اس وقت یہاں ایک جنگل تھا اور لاہور کے نواب کی طرف سے کروڑی مل نامی شخص یہاں کا کوتوال تھا۔ 

گورونانک کی آمد کے بعد جب اردگرد کی بستیوں میں ان کے عقیدت مندوں کی تعداد بڑھنے لگی تو یہ بات کروڑی مل کو کھلنے لگی۔ وہ گھوڑے پر سوار گرو نانک کو گرفتار کرنے نکلا لیکن رستے میں گھوڑے سے گرنے کی وجہ سے اپنی ہڈیاں تڑوا بیٹھا۔

کچھ مہینے بعد روبصحت ہوا تو پھر گرفتاری کے ارادے سے نکلا لیکن راستے میں اندھا ہو گیا۔ ان حادثوں نے کروڑی مل کی آنکھیں کھول دیں اور وہ گرو نانک سے معافی مانگ کر ان کا مرید ہو گیا۔

کروڑی مل نے گرو نانک سے التجا کی کہ وہ مستقل طور پر اس علاقے میں قیام کریں اور دھرم شالہ بنانے کے لیے اراضی بھی فراہم کرنے کا اعلان کیا۔ گرو نانک نے اس کی استدعا کو قبول کیا اور اس علاقے میں ایک قصبہ آباد کرنے کا ارادہ کیا۔ تھوڑے دن بعد  دھرم شالہ تیار ہو گیا۔ گرو نانک نے اپنے خاندان کو بھی وہاں بلوا لیا۔

کچھ عرصہ بعد ان کے مریدوں نے بھی وہاں کا رخ اختیار کر لیا اور اس علاقے میں سکونت اختیار کر لی۔ تھوڑے عرصے بعد ایک پوری بستی آباد ہو گئی اور گرو نانک نے اس کا نام کرتار پور رکھا۔ کرتار مقامی زبان میں خدا کے لیے بولا جاتا تھا اس لیے یہ خدا کی بستی یعنی کرتار پور کہلائی۔

تاریخی شواہد کے مطابق کرتار پور سنہ 1504  کے لگ بھگ آباد ہوا جب ہندوستان پر لودھیوں کی حکومت تھی اور ابھی مغلوں نے یہاں کا رخ نہیں کیا تھا۔

دھرم شالہ میں روحانی مجالس کا اہتمام کیا جاتا تھا اور صبح وشام اس میں کیرتن قائم ہوتی تھی۔ گرو صاحب اور ان کے مریدوں نے اس علاقے میں کاشت کاری بھی شروع کر دی۔ وہ مریدوں سے حاصل ہونے والے نذرانوں کو اپنی ذات پر خرچ نہیں کرتے تھے بلکہ غریبوں اور مسافروں کی نذر کر دیتے تھے۔

کرتار پور میں ہی بابا گرو نانک نے اپنی زندگی کی آخری سانس لی اور ہندوؤں اور مسلمانوں میں ان کی تدفین کے قضیے کے دوران ان کی لاش چادر کے نیچے سے غائب ہو گئی۔ ڈاکٹر رادھا کرشن اور تارا چند جیسے ہندو تاریخ دانوں نے ان پر ہندو اور اسلام کے اثرات پر لکھا تو علامہ اقبال نے بھی انہیں خراج تحسین پیش کیا:

پھر اٹھی آخر صدا توحید کی پنجاب سے
ہند کو ایک مرد کامل نے جگایا خواب سے

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ