عبد اللطیف ناصر کو کہا گیا کہ وہ گھر جانے کے لیے آزاد ہے۔ اس کے پاس واپس لے جانے کو زیادہ سامان نہیں تھا۔ بدنام زمانہ گوانتا نامو بے جیل میں 14 سال بطور قیدی گزارنے کے بعد اس کے پاس پڑھنے کے لیے عینک اور اس کی اپنی لکھی ہوئی 2 ہزار الفاظ کی انگریزی عربی لغت کے علاوہ چند چیزیں تھیں۔ مراکش میں اس کا خاندان اس کی نئی زندگی شروع ہونے کا منتظر تھا۔ اس کا بھائی جو تالاب اور پانی کی صفائی کی کمپنی کا مالک تھا، وہ اس کے لیے نوکری بھی ڈھونڈ چکا تھا اور خاندان والوں نے اس کے لیے دلہن بھی دیکھ لی تھی۔
لیکن ایسا نہ ہو سکا، چھ حکومتی ایجنسیاں اس کی رہائی سے پہلے اس کو کسی مقدمے میں سزا دینا تو دور کی بات اس پر کوئی الزام بھی عائد نہ کر سکیں۔ لطیف کے نام سے پہچانے جانے والے اس شخص کو بتایا گیا کہ وہ کیوبا کے جنوب مشرقی کونے پر واقع امریکی فوجی اڈے پرقائم گونتا نامو بے جیل میں ٹھہریں گے۔ نہ گھر جانے کا جشن ہوگا، نہ نوکری ہو گی (جس میں انہیں کاسا بلانکا کے امیر لوگوں کے لیے سوئمنگ پولوں کی صفائی کرنی ہوتی)، اور نہ ہی ان کی شادی ہوگی۔ انہیں اپنے خواب پورےکرنے کا موقع نہیں مل سکا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
دی انڈپینڈنٹ کو ملنے والے ایک خفیہ مراسلے کے مطابق لطیف نے اپنے وکلا میں سے ایک کو بیان میں کہا کہ ’کسی کی آزادی کو سلب کرنا، جب اس کو جانے کی اجازت بھی دی گئی ہو، انتہائی درد ناک عمل ہے۔‘
کو ئی اس قسم کی مایوسی کونہیں سمجھ سکتا۔ جب چھ امریکی اعلی ادارے آپ کو کلیئر قرار دیں اور اس کے بعد کوئی آکر کہے ’نہیں آپ نے ادھر ہی رہنا ہے۔‘ میرے پاس اس کے اظہار کے لیے الفاظ نہیں۔
بارک اوبامہ دور میں گوانتا نامو کی قیدیوں کے تبادلے اور رہائی کے عمل میں تیزی لانے کے لیے بنایا گیا ادارہ ’دی پیریاڈک ریویو بورڈ یا پی آر بی نے 2016 میں فیصلہ کیا کہ لطیف کو مزید حراست میں رکھنا ضروری نہیں۔ لیکن دو چیزوں نے لطیف کی قسمت بدل دی۔
اوبامہ حکومت کے اختتامی دنوں میں رباط نے رسمی معاہدہ کیا تھا کہ مراکش کی حکومت ان کو واپس قبول کرے گی۔ دوسرا وہ ٹویٹ تھا جو ڈونلڈ ٹرمپ نے تین جنوری کو پوسٹ کیا۔ اس ٹویٹ سے دو مہینے پہلے وہ امریکہ کے صدر منتخب ہوئے تھے ۔
ٹرمپ نے اپنا عہدہ سنبھالنے سے دو ہفتے پہلے لکھا تھا ’گوانتا نامو سے مزید رہائیاں نہیں ہوں گی ۔ یہ انتہائی خطرناک لوگ ہیں، اور ان کو ہمیں جنگ کے میدان میں واپس آنے کی جازت نہیں دینی چاہیئے۔‘
لطیف، قیدی نمبر 244، کی کہانی (اور چار مزید قیدی جن کی رہائی کی اجازت بھی مل چکی تھی ان میں الجیریا کی شہری سفیان بر ہومی، نمبر 694، یمن سے توافق البیہانی، نمبر 893، روہنگیا کے خاندان سے تعلق رکھنے والے معین عدین الستار، نمبر 309، اور قیدی نمبر 38 ردا بن صالح الیزیدی جس کا تعلق تنزانیہ سے تھا، شامل تھے) یہ امریکہ کی نام نہاد دہشت گردی کے خلاف جنگ کی بھولی بسری کہا نیوں میں سے صرف ایک ہے۔ یہ جنگ جارج ڈبلیو بش نے نیو یارک اور واشنگٹن پر القاعدہ کے حملوں کے بعد عجلت میں شروع کی تھی۔
یہ ایک ایسا فیصلہ تھا جس نے قوم کو ایسے راستے پر لگایا جس میں کئی تاریکیاں تھیں: اذیت دینا، واٹر بورڈنگ، غیر قانونی قیدیوں کا تبادلہ یا پکڑ دھکڑ، دوستانہ ممالک میں غیر قانونی کاروائیاں یا خفیہ اداروں کے آپریشن، یہ تمام لوگوں کی نظر سے اوجھل اور عدالتی کاروائی یا کانگریس کی نگرانی سے چھپ کر ہورہے تھے۔
گوانتا نامو سے بہتر کوئی بھی جگہ اس پوشیدہ دنیا کی علامت نہیں ہو سکتی تھی۔ اس جگہ کی تیاری ٹوئن ٹاورز کے ملبے اور جھلسا ہوا سٹیل ہٹانے سے بھی پہلے ہو رہی تھی۔ سب سے زیادہ قیدیوں والے دنوں میں اس جیل خانے میں 780 قیدی رکھے گئے تھے۔ ان کی اکثریت افغانستان کے جنگی میدان یا قصبوں سے لائی گئی تھی اور ان کو مخالف کمانڈروں نے سی آئی اے کو فروخت کیا تھا، ان میں سے اکثر پاکستانی خفیہ ادارے کے لیے دلال کے طور پر کام کرتے تھے اور ان کو اس کا م کا بڑا انعام ملتا تھا۔
آج کل صرف 40 رہ گئے ہیں جن کو ’آتھرائزیشن فار دی یوز آف ملٹری ایکٹ‘ جسے کانگریس نے نائن الیون کے بعد پاس کیا تھا ،کے تحت رکھا جا رہا ہے۔ ایک قیدی پر سالانہ 13 ملین ڈالر خرچ ہوتے ہیں۔ بہت سے امریکیوں کا یہ خیال ہے کہ یہ بہت پہلے بند ہو چکا ہے کیونکہ اوبامہ نے (یہ جیل) بند کرنے کا وعدہ 2007 میں کیا تھا۔ امریکی فوج اب چاہتی ہے کہ نائن الیون حملوں کے مبینہ سات منصوبہ سازوں پر مقدمات کے حوالے سے پیش رفت ہو۔ ان میں رمزی بن الشیب اور خالد شیخ محمد شامل ہیں۔
لیکن وہ پانج آدمی جن کا دو درجن قیدی ساتھیوں سمیت رہائی کا حکم جاری ہو چکا ہے اس پر ابھی تک کوئی عمل در آمد نہیں ہوا اور وہ تذبذب میں زندگی گزار رہے ہیں۔ ابھی تک واشنگٹن کا کوئی منصوبہ نہیں کہ ان پر فرد جرم عائد کی جائے، لیکن ان کو جانے کی اجازت بھی نہیں دی جارہی۔
ریپریو، قانونی حقوق کا گروپ جس نے گوانتا نامو کے کئی قیدیوں کی نمائندگی کی، کے بانی سٹیفورڈ سمیتھ حال ہی میں لطیف سے ملے ہیں۔ سمیتھ کا کہنا ہے، ’عبدالطیف کی حالت دوسروں کی نسبت زیادہ ابتر ہے۔ ان کی حالت اس قیدی سے بھی ابتر ہے جو موت کا انتظار کر رہا ہوتا ہے۔ کیونکہ موت کی سزا پانے والا کم از کم اپیل تو کر سکتا ہے۔‘
ان کا مزید کہنا ہے، ’عبدالطیف کی حالت بہت خراب ہے۔ ان کو کہا گیا کہ وہ آزاد ہیں، اور اب ان کو کہا جا رہا ہے کہ ان کو ہمیشہ کے لیے یہیں رہنا ہے۔‘
امریکہ نے 54 سالہ لطیف پر الزام عائد کیا ہے کہ وہ کئی دہائیوں سے بنیاد پرست اسلام کی طرف راغب ہیں، اور وہ ہائی سکول اور کالج کے زمانے میں جماعت العدل ولاحسان کے رکن تھے۔ جب مراکش نے اس جماعت کے خلاف 1990 کے دہائی میں اقدامات اٹھانے شروع کیے تو وکی لیکس نے 2008 میں بھیجی گئی محکمہ دفاع کی ایک میمو شائع کی جس کے مطابق وہ پہلے لیبیا گئے تھے اور اس کے بعد سوڈان۔ میمو کہتا ہے کہ وہ سوڈان میں ’مکمل مسلمان معاشرہ تلاش کرنے‘ گئے تھے۔امریکی فوج کا دعوی ہے کہ وہ وہیں پہلی دفعہ اسامہ بن لادن سے ملے ۔ چیچنیا، جہاں بہت سارے رضاکار مسلمان روسی افواج کے خلاف لڑ رہے ہیں، میں ناکامی کے بعد وہ براستہ پاکستان افغانستان چلے گئےجہاں مبینہ طور پر انہوں نے اسلحے کی تربیت حاصل کی ۔ امریکی فوج کا دعوی ہے کہ وہ امریکہ اور برطانیہ کے حملے کے بعد ان عرب جنگجووں کے امیر تھے جو شمالی اتحاد اور امریکی فورسز کے خلاف 2001 کے موسم خزاں میں کابل کا دفاع کر رہے تھے۔ امریکی فوج کہتی ہے کہ وہ 50 القاعدہ جنگجوؤں کے ساتھ شمالی اتحاد کے دستوں نے تورہ بورہ کے آخری مقابلے میں پکڑے گئے تھے اور امریکہ کی تحویل میں دے دیئے گئے ۔
اس کی حراست کی توجیہ کے طور پر امریکی فوج نے 2008 میں لکھا کہ ’اندازہ یہ ہے کہ یہ قیدی بہت خطرناک ہے، کیونکہ امریکہ ،اس کے مفادات اور اتحادیوں کو ان سے سخت خطرہ ہوسکتا ہے۔‘
لطیف کے وکیل اور دیگر اس ثبوت پر سوال اٹھا رہے ہیں اور کہتے ہیں کہ بہت سے دعووں کا بھروسہ نہیں کیا جا سکتا۔ وہ قطعی طور پر کہتے ہیں کہ ان کے خلاف الزامات کا جائزہ عدالت میں نہیں لیا گیا اور یہ کہ ان کو اور دوسروں کو مناسب دفاع کا موقع ہی نہیں دیا گیا۔ وہ کہتے ہیں پی آر بی کی سماعت میں کامیابی کے لیے قیدیوں سے 'خلوص' دکھانا مطلوب ہے، ان کے مطابق اس کا مطلب یہ ہو سکتا ہے کہ حکومت کی جانب سے ناقابل اختلاف الزامات کا اعتراف کیا جائے۔ کچھ لوگوں نے اس ماحول پر بھی اعتراض کیا جس میں لطیف اور سینکڑوں قیدیوں کو حراست میں لیا گیا تھا جب افغانستان اور اس میں طالبان حکومت کوتہس نہس کیا گیا۔ ( ان میں سے کچھ طالبان رہنماؤں نے امریکی حکام سے امن معاہدے کے لیے مذاکرات میں کردار بھی ادا کیا۔)
2006 میں لکھی گئی اپنی آپ بیتی، 'ان دی لائن آف فائر' میں پاکستان کےسابق صدر پرویز مشرف نے انکشاف کیا ہے کہ سی آئی اے مشتبہ طالبان اور القاعدہ ارکان کے بدلے پانچ ہزار ڈالر دیتی تھی۔ جنوبی ایشیا میں یہ ایک خطیر رقم ہے۔ وہ لکھتے ہیں، ’بہت سے القاعدہ کے لوگ افغانستان سے بھاگ کر سرحد پار پاکستان آئے۔ ہم نے آنکھ مچھولی کھیلی۔ ہم 689 افراد پکڑ چکے ہیں اور 369 لوگوں کو امریکہ کے حوالے کر چکے ہیں۔ ہم لاکھوں کے حساب سے ڈالرز بطور انعام کما چکے ہیں۔ جن کو عادت ہو چکی ہے کہ ہم پر یہ الزام لگاتے ہیں کہ ہم کچھ خاطر خواہ نہیں کر رہے ان کو چاہیئے کہ سی آئی اے سے پوچھیں کہ انعام میں حکومت پاکستان کوکتنی رقم دی گئی ہے۔‘
ان کے تبصرے نے ایمنسٹی انٹر نیشنل کو بتا دیا کہ سینکڑوں لوگ غیر قانونی طور پر قیدی بنائے گئے ہیں۔ ایمنسٹی انٹر نیشنل کے سینئیر ڈائریکٹر ریسرچ ،کلاڈیو کارڈن کہتے ہیں، ’انعام کے خواہشمند پولیس اور مقامی لوگوں نے مختلف قومیتوں کے لوگوں کو اکثر مختلف مقامات سے پکڑا۔ گوانتا نامو کا سفر اکثر پاکستان سے شروع ہوتا ہے۔‘
اہل خانہ لطیف کے گھر لوٹنے کا انتظار کررہے ہیں۔ وہ کافی دیر سے انتظار کر رہے ہیں۔ ’رہائی کی خبر سننے کے بعد 24 گھنٹے کے اندر ہم نے ان کی واپسی اور خوش آمدید کے لیے تیاری مکمل کرلی کیونکہ ہم بے حد خوش تھے۔ وہ تمام لوگ جو ان کے ساتھ قید کے دوران رابطے میں تھے ان کے اچھے کردار کی تعریف کر رہے تھے، اور ہم ان کے استقبال کے لیے خوش ہو رہے تھے‘ یہ کہنا تھا مصطفٰی ناصر، لطیف کے دو بھائیوں میں سے ایک کا، جو مراکش سے اے بی سی نیوز کے ساتھ سکائپ پر بات کر رہے تھے۔ ’تمام خاندان کو سکون مل گیا تھا اور ہر کوئی تیاری میں مدد کر رہا تھا۔ ہر کوئی کچھ نہ کچھ کر رہا تھا، ایک نے وہ گھر سنوارا جس میں اس نے رہنا تھا، دوسرے نے اس کا کمرہ، ہم نے ان کے لیے دلہن بھی پسند کر لی تھی۔ لیکن آخر کار یہ خوشی اور وعدےعارضی ثابت ہوئے۔‘
خاندان کے افراد، جس میں ان کی پانج بہنیں، دو بھائی اور کئی کزنز شامل ہیں، نے کہا کہ ان کو لطیف کا اس دن کے بعد جب وہ جوانی میں ملک چھوڑ کر چلے گئے تھے کچھ پتہ نہیں چلا تھا۔ پھر کسی وقت ان سے آئی سی آر سی یعنی انٹر نیشنل کمیٹی آف دی ریڈ کراس کے نمائندے نے رابطہ کیا تا کہ ان کی گوانتا نامو میں قید ہونے کی اطلاع دے۔
مصطفٰی نے کہا، ’یہ شدید صدمہ تھا بلکہ اس سے بھی زیادہ۔ ہمیں جو خبر ملی وہ مثبت نہیں تھی۔ میرا بھائی جس کو ہم ہمدرد، پر امن، ذہین، محنت کش، تعلیم یافتہ کے طور پر جانتے تھے۔ جس نے بکلوریٹ کی سند اس وقت حاصل کی جب یہ بہت مشکل ہوا کرتا تھا اور عام نہیں تھا۔ وہ یونیورسٹی گیا اور اچھی کار کردگی دکھائی۔‘
اس کے ایک کزن نے شناخت چھپانے کی درخواست کے ساتھ کہا، ’تقریبا تمام خاندان کو صدمہ ہوا کیوں کہ وہ ایک اچھے آدمی تھے۔‘
خاندان کا کہنا ہے کہ جب اس سال کے اوائل میں ان کی (لطیف سے) بات ہوئی، تو وہ دباؤ کے شکار تھے، غصہ تھے اور گونتانامو سے باہر زندگی کی انہیں کوئی امید نہیں تھی۔ ان کے مطابق لطیف نے ان کو بتایا: ’میری زندگی کے کئی سال ضائع ہو گئے، کلیئرنس کے بعد بھی تین سال گزر گئے، میں اپنے وطن واپس آ سکتا تھا لیکن اب مجھے مزید کوئی امید نہیں۔‘
ان کے بھائی کی حال ہی میں لطیف سے بات ہوئی اور انہوں نے لطیف کو یقین دلایا کہ وہ اب بھی ان کی رہائی کے لیے کوشاں ہیں، اس سے ان کی حالت کافی بہتر ہوئی۔ اس کے بھائی نے کہا، ’ہم چاہتے ہیں کہ لوگوں کو پتہ چلے کہ لطیف ایک اچھے شخص ہیں۔ کوئی ان کے چہرے پر نظر ڈالے تو معصومیت نظر آجاتی ہے، اور یہ کہ ان کو فطرت سے پیار ہے اور اس کا کردار اچھا ہے۔ وہ ہر کسی کے لیے نیکی کا خواہاں ہے، ہر کوئی اس کا شاہد ہے پڑوسی بھی اور خاندان بھی، لوگ ان کو انکی شخصیت کی سچائی، کردار، اخلاص کی وجہ سے نام سے جانتے ہیں۔ کئی لوگ ان سے پیار کرتے ہیں۔‘
2016 میں شلبی سلیوان بینس نےجب لطیف کی خاطر پی آر بی کے سامنے گواہی دی، تو وہ کافی پر امید تھیں۔ ماحول ایسا ہی تھا کہ کوئی ضمانت کے لیے سماعت ہو رہی ہو ۔ یہ بورڈ محکمہ دفاع، انصاف، داخلہ سیکیورٹی، سٹیٹ کے سینئیر اہلکاروں، چئیرمین جوائنٹ چیفز آف سٹاف کے نمائندوں اور ڈائریکٹر نیشنل انٹیلجنس پر مشتمل ہوتا ہے۔
سلیوان بینس، ایک وکیل جو اس وقت ریپریو کے لیے کام کرتی تھیں نے بتایا، ’وہ ماضی کے کیئے پر بہت پشیماں ہیں۔ مجھے بھروسہ ہے کہ ناصر کی بڑی خواہش ہے کہ اپنی زندگی کے بد قسمت دن بھلا کر آگے جائیں۔‘
گوانتا نامو سے ویڈیو کانفرنس کے ذریعے واشنگٹن ڈی سی میں آئے ہوئے حکام سے بات کرتے ہوئے ان کا مزید کہنا تھا: ’ان کی کوشش یہ ہوگی کہ معاشرے کے ساتھ وہ دوبارہ یکجا ہوجائے، شادی کریں اور اپنا ایک خاندان بسائیں۔ لطیف نے کوئی منفی تبصرہ نہیں کیا یا امریکہ کے متعلق کوئی غلط ارادہ ظاہر نہیں کیا یا اس طرح کے شواہد بھی سامنے نہیں آئے کہ ان کی انتہا پسند سرگرمیوں میں کوئی دلچسپی ہے۔‘
ایک مہینہ بعد بورڈ نے وہ خبر دی جس پر لطیف کو بمشکل یقین تھا۔ ان کی رہائی پر کسی بھی خفیہ یا حکومتی ادارے کا کوئی اعتراض نہیں تھا۔ ایک دفعہ جب ان کا ملک معاہدے پر دستخط کر لے تو وہ جانے کے لیے آزاد ہوں گے اور امریکی کانگریس کو بھی ان کی منتقلی کی اطلاع دے دی گئی۔ چھ مہینے بعد جب امریکی وزارت خارجہ کوشش کر رہی تھی کہ مراکشی حکام دستخط کریں، تو ٹرمپ کی ایک ٹویٹ نے اوبامہ دور کی رہائی سے متعلق پالیسی ایک لمحے میں تبدیل کردی۔ جب لطیف کے وکیلوں نے ان کو حراست میں رکھنے کو چیلینج کیا تو عدالت نے کہہ دیا کہ فیصلہ انتظامیہ کرے گی۔19 جنوری 2017 کو وفاقی جج کولین کولر کوٹلے نے یہ دلائل مسترد کر دیئے کہ یہ ٹرمپ کے آنے والے سیکریٹری دفاع جیمز میٹس کی ذمہ داری ہے کہ وہ کانگریس کو بتائیں اور لطیف کی رہائی کے لیے راستہ ہموار کریں۔ پچھلے سال لطیف کے وکیلوں اور دس مزید آدمیوں نے پروانہ حاضری ملزم کے لیے درخواست دی جو قانون عمومی کے بنیادی اصول کے تحت تھی۔ جس میں مطالبہ کیا گیا کہ ان کو جج کے سامنے حاضر کیا جائے اور بتایا جائے کہ وہ اب تک کیوں حراست میں رکھے جارہے ہیں۔
’کسی بھی درخواست گزار کی رہائی کے خلاف ٹرمپ کے اعلان جس کی تحریک عقل یا ارادی طور پر قومی سلامتی کے خدشات کی بجائے انتظامیہ کی طاقت اور ملے جلے تعصب پر مبنی تھی ۔ یہ درخواست گزار شاید زندہ گونتا نامو سے کبھی نہ نکلیں اگر عدالت مداخلت نہ کرے، جس طرح درخواست کے عبارت میں لکھا ہے۔‘ سپریم کورٹ کے بعد سینئر عدالت، ڈسٹرکٹ آف کولمبیا کے لیے ڈسٹرکٹ کورٹ میں بیٹے فیڈرل جج تھامس ہوگان نے پوچھا کہ ان اشخاص کو انتظامیہ کتنے عرصے کے لیے زیر حراست رکھنے کا ارادہ رکھتی ہے، محکمہ انصاف کے وکیل رونلڈ ویلسی نے کہاِ، ’اختلافات کے اختتام تک‘۔
جج نے فرانس اور انگلینڈ کے درمیان سو سالہ جنگ (1337-1453) کے دوران پکڑے جانے والے ایک قیدی کا ذکر کیا۔ ’ہاں عالیجاہ‘ ویلسی نے جواب دیا۔ ’ہم ان کو سو سال تک رکھ سکتے ہیں اگر تصادم جاری رہا۔‘
ریپریو کے ایک اور وکیل مارک میھر کہتا ہے کہ یہ افراد اب ’غیر معینہ مدت کے لیے حراست میں ہیں، بغیر کسی مقدمے کے اور صدر کے حکم پر۔‘
نیو یارک میں واقع مرکز برائےآئینی حقوق کے وکیل، شایانہ قدیدل، سفیان برہومی کی نمائندگی کرتے ہیں ۔ بر ہومی نے 17 سال سے زائد گوانتا نامو میں گزارے اور ان کی رہائی 2010 میں کلئیر ہوئی۔ سفیان ان 11 اشخاص میں شامل نہیں جنہوں نے درخواست دی تھی۔ اگر چہ ایک ایسی ہی درخواست برہومی نے اپنے طور پر دے دی تھی۔ قدیدل کہتے ہیں کہ ٹرمپ انتظامیہ نے واضح کیا ہے کہ اس کا کوئی ارادہ نہیں کہ مزید قیدیوں کو رہا کرے خواہ ان کا رتبہ یا مالی جمع پونجی کوئی بھی ہو۔ ٹرمپ کے ٹویٹ کے علاوہ ایک اور اشارہ وہ فیصلہ ہے جس کے تحت وزارت خارجہ میں قیدیوں کی منتقلی کا ڈیسک ختم کیا گیا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ وہ حال ہی میں سفیان سے ملے ہیں۔ ’حیران کن طور پر وہ بہتر تھے۔ ان لوگوں کے متعلق ایک بات یہ ہے کہ وہ بہت پر امید ہوتے ہیں۔‘
قدیدل کہتے ہیں اب جب گونتا نامو قید کو جاری رکھنا ایک پاگل پن ہے، ایسا کرنے میں دلچسپی بڑھ رہی ہے۔ ٹرمپ کے لیے شاید سیاسی، فوج کے لیے سٹریٹیجک، فوجی وکیلوں، جن کے ذمےنائن الیون کے ملزموں کی دفاع ہے، کے لیے شاید یہ پیشہ ورانہ اور مالی مفادات سے تعلق رکھتا ہے۔ فوج کو ایک قید خانے کا اجرا چاہیے تا کہ مستقبل میں وہ وہاں قیدی بھیج سکیں۔
سلیوان بینس، جو کئی گونتا نامو قیدیوں کی نمائندگی کرتے ہیں، کہتے ہیں کہ ان آدمیوں نے ان سے مختلف سوالات کئے۔ یمن سے تعلق رکھنے والے 47 سالہ بیہانی، جس نے 17 سال قید میں گزارے اور 2010 میں ان کی رہائی کلیئر ہوئی، کی خواہش ہے کہ یہ پتہ چلے کہ ’حکومت ان کے متعلق کیا کہتی ہے‘۔ یہ بہت مشکل ہے کہ ان کو جواب دیا جائے۔ ملزم کی درخواست جو 2017 میں دائر کی گئی کی ابھی تک کوئی جواب نہیں آیا۔ وہ کہتے ہیں، ’وہ (بیہانی) عدالتی کیس پڑھ سکتے ہیں اور سمجھ سکتے ہیں۔ ہمیں نہیں پتہ کہ ان کو حراست میں کیوں رکھا جا رہا ہے۔ ان کو سعودی عرب منتقل کرنا تھا۔ ہمیں نہیں پتہ کہ ان کو جہاز میں کیوں نہیں بٹھایا گیا۔‘
وہ کہتے ہیں لطیف کو خدشہ ہے کہ ان کو باقی زندگی گونتا نامو میں گزارنے کے لیے تیاری کرنی چاہیئے۔ لطیف کہتے ہیں کہ اسباق اور پروگرام جو حکام مہیا کرتے تھے اب کم ہوگئے ہیں اور لائبریری کے پاس کوئی نئی کتاب نہیں آرہی۔ انگریزی خبروں کا واحد چینل رشیا ٹو ڈے ہے۔ عربی کا واحد چینل لبنانی المایا دین ہے۔
وکیل کہتے ہیں، ’ان کی بڑی پریشانی یہ ہے کہ ایسی زندگی گزاریں جس میں زندگی کے عناصر نہ ہوں۔‘ سلیوان بینس کہتے ہیں کہ قیدیوں کو آپس میں مل جل کر ٹائم گذارنے میں کم دلچسپی ہے کیوں کہ ’ہمارے پاس کیا باتیں ہوتی ہیں؟ بس وہی جو 2006 میں ہوا تھا؟ اور کچھ نہیں‘۔
سلیوان بینس کے مطابق، ان کا مزید کہنا تھا: ’اگر آپ تعلیم کا ماحول بنائیں تو وہ اس چیز میں گم ہو جائے گا جس کے ساتھ اس کی دلچسپی ہوگی۔ مثال کے طور پر اگر کسی کو انگریزی سے دلچسپی ہے، تو وہ انگریزی کے متعلق ہر وقت باتیں کرے گا۔ اگر کسی کو فنون سے تو وہ اس کے متعلق باتیں کرے گا۔ مسئلہ یہ ہے کہ قیدیوں کے پاس کرنے کے لیے کچھ نہیں۔‘
بیہانی، لطیف، اور برہومی کی حالت کسی حد تک باقی دو سے بہتر ہیں جن کی رہائی بھی کلئیر ہوگئی تھی۔ ستار اور یزیدی کی کوئی قانونی نمائندگی نہیں۔ گونتا نامو سے متعلق وکیل برادری قیدیوں کے ذہنی صحت کے متعلق پریشان ہے، لیکن خاص کر ان دو کے لیے جنہوں نے قید میں 17 سال گزارے ہیں۔
امریکی محکمہ انصاف ان پانج آدمیوں کے متعلق سوالات کے جواب دینے سے قاصر ہے۔ پینٹا گون کے ترجمان کموڈور کینڈیس ٹریش کہتے ہیں کہ فوج قیدیوں کو تفریحی سہولیات، عبادات کی سہولت خاندان والوں سے بات کرنے کے لیے فون کی سہولت اور ای میل مہیا کر رہی ہے۔ وہ کہتے ہیں لائبریری میں تیس ہزار سے زائد کتابیں رکھی گئی ہیں جبکہ فلمیں دیگر 19 مختلف زبانوں میں مہیا کی جارہی ہیں۔ قیدیوں کو سیٹلائٹ ٹیلیویژن اور ریڈیو تک رسائی ہے۔
امریکی فوج کے مطابق وہ ایک قیدی کے صحت پر تبصرہ نہیں کرسکتی، ’قیدیوں کو جنیوا کنونشن کے مطابق علاج معالجے کی سہولت دی جارہی ہے اور اس کا مطلب امریکی سروس ممبر کے برابر علاج کا حق ہے۔‘
قیدیوں کو رہائی نہ ملنے کے سوال پر امریکی فوج کا کہنا تھا: ’قیدی کی منتقلی کا فیصلہ اس کے ملک سے تفصیلی اور خصوصی گفتگو کے بعد کیا جاتا ہے جس میں قیدی کی طرف سے منتقلی کے بعد ممکنہ خطرات اور وہ اقدامات جو وہ ملک خطرات کو ختم کرنے کے لیے اٹھاتا ہے شامل ہیں۔ جب کوئی ملک قیدی کی وطن واپسی قبول کرلیتا ہے تو ہم یقین دہانی چاہتے ہیں کہ منتقلی کے بعد ہماری انسانی سلوک کی پالیسی پر عمل درآمد کیا جائے گا۔‘
لطیف، جن کو کچھ سالوں کے لیے تنہائی میں رکھا گیا تھا، نے دو دفعہ بھوک ہڑتال اختیار کی تاکہ حالات کے خلاف احتجاج کریں۔ 2013 میں ان کا وزن 56 کلو گرام تک گر گیا۔ اب ان کی کوشش ہے کہ اپنی صحت کا بہتر خیال رکھیں۔ آرام دہ چیزوں جن کی اکثر اوقات وہ درخواست کرتے ہیں میں فلیکس آئل، خشک میوہ جات، سونف، اخروٹ، پستہ، بادام کا مکھن شامل ہیں۔
انہوں نے اپنے وکیلوں سے گوانتا نامو میں ساڑھے 17 سال گزارنے پر تبصرہ کیا۔ وہ کہتے ہیں، ’میں نے یہ سیکھ لیا ہے کہ دوسروں کے کلچر کے لیے کھلا ذہن رکھیں۔ ہمارے پاس جو بھی ہے وہ سب مثالی نہیں اور اچھا بھی نہیں۔ بسا اوقات ایک گارڈ آپ کا دوست بن جاتا ہے۔ جب وہ جاتا ہے تو میں افسردہ ہو جاتا ہوں۔‘ ان کا مزید کہنا تھا: ’کچھ امریکی ہمارے رہائی کے لیے کوشاں ہیں ، کسی ملک کو اس کی حکومت کی پالیسیوں سے جج نہ کریں۔‘
© The Independent