'ایک مرتبہ میں نے چلہ کاٹنے کا فیصلہ کیا اس وقت میری عمر سولہ سال تھی۔ عام طور پر ایسا کوئی کام کرنے سے پہلے مجھے ابا سے اجازت لینا پڑتی تھی لیکن اس بار ایسا نہیں ہو سکا۔ وہ روی شنکر جی کے ساتھ طبلہ بجانے انگلینڈ گئے ہوئے تھے۔ میں ان سے بغیر پوچھے بابا حاجی ملنگ کے مزار پر چلا گیا۔
بچپن سے میں دیکھتا تھا کہ میری ماں بھی منت ماننے وہاں جایا کرتی تھیں۔ عام طور پر چلے کا وقت چالیس دن ہوتا ہے۔ میں وہاں صرف سولہ روز تک رکا۔ اس دوران میں وہاں بیٹھا مختلف تالیں دہراتا رہا۔'
یہ سب بتانے والے مشہور طبلہ نواز ذاکر حسین ہیں۔ نسرین منی کبیر نے ان کی زندگی کے حالات جاننے کے لیے ان سے چار پانچ طویل انٹرویو کیے اور پھر ان کی مدد سے ایک کتاب تیار کی۔ Zakir Hussain, A Life in Music نامی یہ کتاب ہمیں ان کی زندگی کے بہت سے دلچسپ واقعات بتاتی ہے۔
'ان سب بندشوں اور دھنوں کو دہراتے ہوئے میں ایسا دکھائی دیتا تھا جیسے کوئی منتر پڑھ رہا ہوں۔ میں روزانہ کئی گھنٹوں تک مسلسل وہاں طبلہ بھی بجایا کرتا تھا۔ ایک دن وہاں ایک بزرگ مجھے ملے اور انہوں نے چند چیزیں مجھے بتائیں۔ مجھے ایسا لگا جیسے ان کے آنے اور میرے چلے کی حاضری میں کوئی تعلق تھا۔ بہرحال، اس کے بعد میں گھر واپس آ گیا۔ اس دن میں بہت تازہ دم محسوس کر رہا تھا۔
کچھ ہفتے بعد میرے ابا واپس آئے۔ ماں نے انہیں بتایا کہ میں چلے پر گیا تھا۔ انہوں نے بہت غصہ کیا انہوں نے کہا کہ چلہ پلٹ جاتا یا تمہارے ساتھ کچھ غلط ہو جاتا تو کیا ہوتا؟ جب ان کا غصہ تھوڑا کم ہوا تو انہوں نے مجھ سے پوچھا کہ میں وہاں کیا کرتا رہا؟ میں نے انہیں ساری تفصیل بتائی۔ پھر میں نے انہیں ان بابا جی کے بارے میں بھی بتایا۔
بابا کی سکھائی ہوئی وہ دھن میرے دماغ میں بالکل تروتازہ تھی، تو اسی طرح ابا کو میں نے طبلے پر وہ بجا کے دکھا دی۔ ابا ایک دم بہت زیادہ خاموش ہو گئے۔ وہ ہاتھ پیچھے باندھے ادھر سے ادھر ٹہلنے لگ گئے۔‘
ذاکر حسین مشہور طبلہ نواز استاد اللہ رکھا کے صاحب زادے ہیں۔ انہوں نے اپنا پہلا کنسرٹ سات برس کی عمر میں کیا۔ ان کی فنی مہارت بہت جلد انہیں سینئر اساتذہ کے قریب لے آئی۔ ذاکر حسین نے طبلے اور جاز میوزک کے ملاپ سے مشرق اور مغرب کی مسحور کن موسیقی کو یکجا کر دکھایا۔ رائل البرٹ ہال ہو یا میڈیسن سکوئر گارڈن، ذاکر حسین ہر جگہ کئی مرتبہ اپنے فن کا مظاہرہ کر چکے ہیں۔ انہوں نے کئی فلموں کی موسیقی بھی ترتیب دی ہے۔ اس کتاب میں نسرین منی کبیر سے بات کرتے ہوئے انہوں نے مزید بتایا: 'کچھ دیر بعد ابا نے کہا کہ دوبارہ بجا کر دکھاؤ۔ میں نے دوبارہ بجا دی۔ مجھے سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ وہ ایک دم اتنے گم سم کیوں ہو گئے ہیں۔ میرا خیال تھا کہ وہ اس کیفیت کو سمجھنے کی کوشش کر رہے تھے جو اس دھن میں چھپی ہوئی تھی۔ یا شاید وہ اس کیفیت سے گزرتے ہوئے کچھ یاد کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔
کئی گھنٹوں بعد اسی روز انھوں نے رات کو مجھے بتایا کہ یہ ایک بہت پرانی دھن ہے اور یہ میں نے تمہیں کبھی نہیں سکھائی تھی۔
میرے شاگردوں میں سے بھی کسی کو میں نے یہ دھن نہیں سکھلائی۔ تم مجھے ذرا تفصیل سے ان بزرگ کا حلیہ بتاؤ جو تمہارے پاس آئے تھے۔ میں نے جتنا بہتر ممکن تھا انہیں سارا حلیہ بتا دیا۔ میں نے کہا کہ وہ ایک سفید بالوں والے بوڑھے آدمی تھے جنہوں نے سر پر پگڑی پہنی ہوئی تھی اور شلوار قمیض بھی لمبی اور ڈھیلی سی تھی۔
انہوں نے کہا کہ یہ دھن بابا ملنگ کی ہے اور جو تم نے حلیہ بتایا ہے یہ بھی ایک دم انہی کا ہے۔ تو یقینا صاحب مزار بابا ملنگ خود تمہارے پاس آئے ہوں گے اور تمہیں انہوں نے یہ دھن تعلیم کی ہو گی۔
یہ چیزیں عام طور پر سمجھ میں آنے والی نہیں ہے اسی لیے میں ان کے بارے میں زیادہ بات بھی نہیں کرتا۔ لیکن میں اسے جھٹلا نہیں سکتا کیوں کہ یہ سب کچھ میرے ساتھ ہوا تھا'۔
اس کتاب کو پڑھتے ہوئے ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے ذاکر علی ایک پیدائشی داستان گو ہیں اور وہ ہماری انگلی پکڑے ہمیں اپنی زندگی کی گلیوں میں گھمائے چلے جا رہے ہیں۔ پنڈت روی شنکر، استاد علی اکبر خان اور استاد ولایت خان سے ہونے والی بہت دلچسپ ملاقاتوں کا حال بھی 200 صفحوں کی اس کتاب میں پڑھنے کو ملتا ہے۔
ذاکر حسین نجی محفلوں میں گانا پسند نہیں کرتے۔ وجہ بتاتے ہوئے کہنے لگے: 'مختلف اداروں کی تقریبات یا شادیوں میں گانا مجھے پسند ہی نہیں ہے۔ یہ ایسی جگہ ہوتی ہیں جہاں لوگوں کو آپس میں ملنا ہوتا ہے، گپ شپ کرتے ہیں، کچھ پینا پلانا ہوتا ہے، کھانوں سے لطف اندوز ہونا ہوتا ہے۔ یہ کوئی سمجھ میں آنے والی بات نہیں ہے۔ کلاسیکل موسیقی ایسے نہیں سنی جا سکتی اور نہ ہی گائی جا سکتی ہے۔
کوئی کانسرٹ ہال ہو، کوئی مناسب سا تھیٹر ہو، لوگ اپنی جگہوں پر بیٹھے ہوں، ہال میں اندھیرا ہو، روشنی سٹیج پر ہو، موسیقاروں نے اپنی جگہ سنبھالی ہوئی ہو، پھر جو تماشائی ہیں ان کا مکمل فوکس اسٹیج پر ہو، تب جا کر گانے کا آغاز ممکن ہوتا ہے۔
میں نے اکثر یہ بات کہی ہے کہ کسی بھی موسیقی کی تقریب میں پہلے پندرہ منٹ بہت اہم ہوتے ہیں۔ ان پندرہ منٹوں کے دوران ایک ہی وقت میں بہت سارے ایسے کام ہو رہے ہوتے ہیں جو فنکار اور حاضرین کے درمیان تعلق پیدا کرتے ہیں۔
جب میں گانا شروع کرتا ہوں تو میں فوٹوگرافرز کو اجازت نہیں دیتا کہ وہ آس پاس گھومتے رہیں اور ہماری تصویریں کھینچتے رہیں۔ منتظمین سے بھی میں ہمیشہ درخواست کرتا ہوں کہ جیسے ہی میں گانا شروع کروں وہ ہال کے دروازے بند کر دیں اور کسی بھی دوسرے شخص کو اس وقت تک اندر نہ آنے دیں جب تک کہ محفل میں کچھ وقفہ نہ آ جائے، یا ہم لوگ خود کسی کام سے تھوڑی دیر کے لیے رک نہ جائیں۔ مغربی کلاسیکل موسیقی کے پروگراموں میں یہ سب پہلے سے ہوتا ہے، اس میں کچھ بھی نیا نہیں ہے'۔
جب ان سے پوچھا گیا کہ فن کار کے لیے تماشائیوں کی تعداد کچھ اہمیت رکھتی ہے یا نہیں، تو انہوں نے زبردست طریقے سے اپنی بات سمجھائی:
'تماشائیوں کی مختصر تعداد ایک اچھی محفل موسیقی ترتیب دینے میں مدد دیتی ہے۔ کم لوگ ہوں تو موسیقی کی آواز ہر ایک بندے تک بہتر پہنچتی ہے۔ خاص طور پر جو ہمارا روایتی میوزک ہے، اس میں گانے والے اور سننے والے کے درمیان ایک تعلق قائم ہونا ضروری ہے۔
اگر آپ ایک دوسرے کے قریب بیٹھے ہیں آپ کی آنکھوں کا ایک تعلق بن رہا ہے تو یہ تجربہ ذرا ہٹ کے ہوتا ہے۔ بالکل ایسے ہی اس بات کو سمجھیں جیسے میں اس وقت آپ سے بات کر رہا ہوں۔
تو موسیقی سمجھنے کے لیے وہ جو کیمسٹری ہوتی ہے وہ ان محفلوں میں ہی ممکن ہوتی ہے جن میں تماشائی تھوڑے ہوں۔ مجھے لوگوں کی طرف سے ایک خاص سمجھ اور قبولیت چاہیے ہوتی ہے۔ میری انا اس بات کا تقاضہ کرتی ہے کہ جو کچھ میں گائے جا رہا ہوں وہ سامنے والوں کو سمجھ میں آتا ہو۔
اس کے برعکس جب آپ چار ہزار تماشائیوں سے بھرے کسی ہال میں طبلہ بجا رہے ہوتے ہیں تو آپ کو بالکل اندازہ نہیں ہوتا کہ پیچھے والی نشستوں پر کیا ہو رہا ہے۔ اور جس باریکی سے طبلے کا کوئی سر پہلی، دوسری یا تیسری قطار تک پہنچتا ہے، یہ ہرگز ضروری نہیں کہ 20 نشستوں پیچھے بھی وہ اسی شدت سے پہنچ پاتا ہو۔
کل ملا کر یوں سمجھ لیں کہ ایک بھرپور تجربے کے لیے موسیقار کے سامنے بیٹھنا اور اس سے آئی کنٹیکٹ ہونا بہت ضروری ہے'۔
ذاکر حسین ایک طویل عرصے سے امریکہ میں مقیم ہیں۔ ان کی اہلیہ بھی وہیں کی رہنے والی ہیں۔ تو ان کا زیادہ تر وقت انگریزی ہی میں بات کرتے گزرتا ہے۔ جب نسرین منّی کبیر نے ان سے پوچھا کہ آپ خواب کون سی زبان میں دیکھتے ہیں تو ایک آہ بھری اور کہنے لگے:
'پہلے 18 برس میں ہمیشہ اردو میں ہی خواب دیکھا کرتا تھا۔ پھر اس کے بعد چیزیں آپس میں گڈمڈ ہو گئیں۔ اب زیادہ تر انگریزی میں خواب دیکھتا ہوں۔
حتی کہ اگر مجھے اردو یا ہندی میں انٹرویو بھی دینا ہو تو مجھے تھوڑا وقت لگتا ہے کہ میں دوبارہ سے روانی پکڑ سکوں۔ میں انگریزی میں سوچ کر اس کو اردو میں ترجمہ کرتا ہوں اور تب بات ممکن ہوتی ہے۔ چوں کہ زیادہ تر میں انگریزی ہی بول رہا ہوتا ہوں اور بہت سے ہندوستانی بھی ایسے ہیں جو مجھ سے انگلش میں ہی بات کرتے ہیں تو یہ کہا جاسکتا ہے کہ زیادہ تر وقت میں انگریزی میں خواب دیکھتا ہوں۔ ہاں جب ماں باپ یا دوسرے رشتہ دار خواب میں آ جائیں توظاہری بات ہے میں اردو میں ہی بات کرتا ہوں۔'
ابتدائی عمر کے ریاض کی باتیں کرتے ہوئے کہنے لگے:
'مجھے صرف پانچ گھنٹے کی نیند ملتی تھی۔ میرے ابا مجھے تین بجے صبح جگا دیتے تھے۔ جیسے ہم آپ بیٹھے ہیں ویسے ہی وہ اس وقت میرے ساتھ بیٹھ جاتے تھے اور موسیقی کے بارے میں بتایا کرتے تھے۔
ہم اس وقت طبلہ نہیں بجاتے تھے، ہم صرف بول دہرایا کرتے تھے۔ ایک کے بعد ایک بول گاتے ہوئے وہ مجھے بتایا کرتے تھے کہ یہ دھن فلاں استاد کی ہے، یہ گت ان بزرگ کی ہے۔ خاص طور پر اس وقت تو ان کے چہرے پر ایک پاکیزگی دکھائی دیتی تھی جب وہ پرانے لوگوں کے بارے میں بات کیا کرتے تھے یا جب وہ اپنے استادوں کے بارے میں مجھے بتایا کرتے۔ ایمان داری کی بات تو یہ ہے کہ میں واقعی اس سب میں کھو جاتا تھا اور اب میں ان کا بہت زیادہ شکر گزار محسوس کرتا ہوں کیونکہ موسیقی کو گہرائی میں جاننا اس کی جڑیں پہچانے بغیر ناممکن ہے، اور یہ سب مجھے میرے باپ نے ہی سکھایا تھا'۔
استاد اللہ رکھا کے بارے میں بتاتے ہوئے کہنے لگے؛
'ہمارے ابا کسانوں کے خاندان میں پیدا ہوئے۔ وہ گیارہ سال کے تھے جب وہ گھر سے بھاگ کر اپنے ایک رشتہ دار کے پاس لاہور آ گئے۔ وہاں انہوں نے چھوٹی موٹی نوکریاں کرنی شروع کر دیں۔ موسیقی ہمیشہ سے ابا کا شوق رہا تھا اور شاید لاہور جانے کی وجہ بھی یہی تھی کیوں کہ لاہور اس وقت تمام ثقافتی سرگرمیوں کا مرکز تھا اور بہت سے موسیقار وہاں رہا کرتے تھے۔
ان دنوں ہر جمعے نماز کے بعد وہاں کسی آدمی کے گھر میں ایک بیٹھک ہوا کرتی تھی جسے تکیہ کہتے تھے۔ وہاں سب موسیقار لوگ کچھ نہ کچھ گا بجا لیتے تھے۔ یہ بیٹھک زیادہ تر سہ پہر کو ہوا کرتی تھی کیوں کہ شام میں سب کو زیادہ تر کوٹھے والی باجیوں کے ہاں بجانے کے لیے جانا ہوتا تھا۔ ایک دن ابا کے وہی رشتہ دار انہیں ایسی ایک بیٹھک میں لے گئے۔
اس دن وہاں ایک صاحب گانا گاتے تھے اور ان کے ساتھ جو طبلہ بجانے والا تھا اسے وہ تال کچھ سمجھ نہیں آ رہی تھی۔ میزبان نے پوچھا کہ یہاں پر کوئی ایسا طبلہ بجانے والا موجود ہے جو ان کے لئے بجا سکے تو ماحول کی نزاکت اور حفظ مراتب کا خیال کیے بغیر ابا نے کہا میں بجاؤں گا۔ سب لوگ حیران ہو کر دیکھ رہے تھے کہ یہ اتنا چھوٹا سا بچہ کیسے بچائے گا لیکن انہوں نے اتنا عمدہ طبلہ بجایا کہ وہ سب حیران رہ گئے۔
ان دنوں مختلف تھیٹر اور نوٹنکیاں گاؤں دیہاتوں میں اپنے فن کا مظاہرہ کیا کرتی تھیں۔ ابا کے گاؤں بھی وہ لوگ آیا کرتے تھے، انہیں میراثی کہا جاتا تھا۔ میرے ابا نوٹنکیوں میں شامل موسیقاروں کو گاتا بجاتا دیکھتے تو بس وہیں سے کچھ نہ کچھ سیکھ لیا کرتے تھے۔
جب محفل میں سب لوگوں کو یہ پتا لگا کہ ابا کا استاد بھی کوئی نہیں ہے اور انہوں نے صرف اپنے شوق سے طبلے پہ ہاتھ سیدھا کیا ہے تو ان لوگوں نے ابا کو میاں قادر بخش صاحب کے پاس بھیجا اور پھر وہی میرے والد کے پہلے گرو ہوئے'۔
بچپن کی یادیں دہراتے ہوئے ایک جگہ بتاتے ہیں؛ 'میرے امّاں اور ابّا کا تعلق بہت گہرا تھا۔ وہ لوگ گھنٹوں آپس میں بیٹھ کر باتیں کیا کرتے تھے۔ ایک مرتبہ ابا کو اپنے پروگراموں کے لئے کسی دورے پر جانا تھا وہ چلے گئے اور وہاں جاکر کچھ ایسے مصروف ہوئے کہ ماہانہ خرچ بھیجنا یاد ہی نہ رہا۔ ہمارے حالات اتنے برے ہو گئے کہ ماں کے پاس آخری پانچ روپے بچ گئے۔ ہمیں یہ بھی اندازہ نہیں تھا کہ اگلے دن ہم کھانا کیسے کھائیں گے تو وہ بیچاری بس دعا کرتی ہوئی سو گئیں کہ اللہ پاک کچھ مدد کر، پیسے بھجوا۔
اس رات انہیں خواب میں ابا نے رومال میں لپٹی ہوئی کوئی چیز دی اور جب انہوں نے رومال کھولا تو اس میں رقم کی چھوٹی سی تھیلی تھی۔ وہ عام طور پہ روی شنکر جی کے یہاں پیسے بھجواتے تھے۔ اگلی صبح اماں مجھے لے کے راجندرا شنکر جی (پنڈت روی شنکر کے بڑے بھائی) کے ہاں پہنچ گئیں۔ میری ماں اس طرح کی خاتون نہیں تھیں کہ وہ ان سے رقم کا پوچھتیں یا خواب کے بارے میں کوئی بات کرتیں۔
انہوں نے ایسا کچھ نہیں کہا اور آدھے گھنٹے ہم ان کی بیوی لکشمی جی کے پاس بیٹھے گپ شب کرتے رہے۔ اچانک لکشمی کہنے لگیں کہ بھیا نے آپ کے لیے یہ بھیجا ہے اور انہوں نے ایک رومال اماں کے حوالے کردیا۔ اس کے اندر ایک چھوٹی سی تھیلی لپٹی ہوئی تھی اور اس میں کچھ کرنسی نوٹ موجود تھے، یہ حیران کن تھا!
عام طور پر ماں باپ اپنی اولاد کے کانوں میں کچھ مقدس کلمات، کچھ دعائیں یا ایسی چیزیں پڑھتے رہتے ہیں لیکن ابا نے کبھی ایسا نہیں کیا۔ وہ مجھے اپنی گود میں اٹھاتے تھے اور مختلف تالیں دہرایا کرتے تھے۔ میری اماں ناراض ہوا کرتی تھیں اور کہتی تھیں کہ بھئی کوئی پاک چیز، کوئی دعا، کوئی مقدس کلام اس کے کان میں پڑھ دو۔ لیکن ابا انہیں بتاتے تھے کہ ان کی ساری عبادت موسیقی ہے۔ وہ سرسوتی دیوی کا احترام بھی عین اسی طرح کرتے تھے جس طرح وہ اپنے مذہب پر یقین رکھتے تھے'۔
ذاکر حسین تاحال امریکہ میں ہی مقیم ہیں۔ انہیں حکومت ہندوستان سے پدما شری اور پدما بھوشن اعزاز بھی مل چکا ہے۔ پنجاب باج کے اس ماہر کو امریکہ میں بھی کئی اعزازات سے نوازا گیا ہے۔
کتاب کی مصنف نسرین منی کبیر ہندوستانی سینیما کے بارے میں سولہ کتابیں تحریر کر چکی ہیں۔ لندن میں قیام پذیر نسرین کبیر نے چند ٹی وی سیریز بھی بنائیں۔ مذکورہ کتاب ہر بڑے آن لائن سٹور پر دستیاب ہے۔