اُس روز صبح سے کراچی میں غیرمعمولی سکیورٹی انتظامات تھے۔ چپہ چپہ پر رینجرز، پولیس خودکار ہتھیاروں کے ساتھ لیس۔ پی آئی ڈی سی پل کے قریب سینکڑوں سکیورٹی اہلکار تعینات۔
انسداد دہشت گردی کی عدالت کے احاطے کے گرد سخت گھیرا۔ عمارت کو غیرضروری افراد بشمول صحافیوں سے خالی کرانے کا عمل شروع۔ صحافیوں کا احتجاج، حسب معمول تو تو، میں میں۔۔۔
موقع غنیمت جانتے ہوئے ظفر عباس، جو اس وقت ڈان اخبار کے ایڈیٹر ہیں، اور میں عدالت کے کمرے کے عقب میں ایک باتھ روم میں چھپ گئے۔ واقعہ تاریخی تھا، کیسے ضائع کرسکتے تھے۔ اُن دنوں میں اے ایف پی اور ظفر بی بی سی کے لیے کوریج کر رہے تھے۔
چند لمحات میں بکتر بند گاڑیوں کی قطار کمرہ عدالت کے سامنے۔ نواز شریف، ان کے بھائی شہباز اور شاہد خاقان عباسی سمیت ساتھیوں کو بکتر بند گاڑیوں سے نکالا گیا۔
فوجی انقلاب کے بعد نواز شریف اور ان کے ساتھیوں کو پہلی مرتبہ عدالت میں پیش کیا گیا۔ بطور ملزمان۔ الزامات سنگین اور مقدمہ بغاوت کا۔
چند روز قبل ہی فوج کے سربراہ جنرل مشرف نے نواز شریف کی حکومت کا تختہ الٹا تھا۔ 12 اکتوبر 1999-
بقول نواز شریف کے قریبی ساتھی ’اس واقعے نے نواز شریف کے ذہن کو جھنجھوڑا، اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ سانجھے داری کی سیاسی ہم آہنگی کو چوٹ پہنچائی اور شریف خاندان کی سیاست کا رخ یکسر موڑ دیا۔‘
خاندان کے لیے یہ بدلتے رخ، بدلتے رویے اور اپنی سیاست کو نئی ڈگر پر چلانا آئندہ برسوں میں کٹھن سفر ہی رہا۔
مفاہمتی سفر سے مزاحمتی سفر کا یہ بدلتا راستہ گویا ایک نہ ختم ہونے والی دشوار پگڈنڈی کا سفر ثابت ہو رہا ہے۔ شریف خاندان کی سیاست ایک گرداب کے شکنجے میں ہے۔
ظاہر ہے نواز شریف اور ان کے خاندان کا سیاسی جنم جنرل جیلانی کے پنگھوڑے میں ہوا۔ سیاسی بلوغت کی بیل فوجی حکمران جنرل ضیا کے دور میں منڈھی۔
ذاتی کاروبار کے سفر سے اقتدار کے حصول کا سفر اسٹیبلشمنٹ سے مفاہمت یا مضبوط ہم آہنگی کے ساتھ طے کیا۔
اسٹیبلشمنٹ کو اُس وقت جمہوریت کی بحالی کی تحریک کو دبانے اور طویل مدت کے لیے بھٹو خاندان کی سیاست کو سکیڑنے اور سمیٹنے کے لیے پنجاب سے ایک سیاسی قوت کی ضرورت تھی۔
شریف خاندان بمقابلہ بھٹو خاندان
ان دنوں نواز شریف اسٹیبلشمنٹ کے پوسٹر بوائے۔ سایسی سر سانجھے۔ بینظیر بھٹو کے خلاف اسٹیبلشمنٹ کی مدد سے آئی جے آئی سایسی اتحاد کی تشکیل ہو یا فاروق لغاری کا بی بی حکومت کا فارغ کرنا، سب میں پیش پیش۔
پنجاب میں سیاسی پذیرائی اور ساری پشت پناہی کی وجہ سے نواز شریف کے تیور بدلتے نظر آ رہے تھے۔ ابا جی، وزیر اعظم ہاؤس میں خوشامدی مشیران اور اسٹیبلشمنٹ آشیرباد سب ایک ایسا سیاسی مرکب ثابت ہوا جس کی کڑواہٹ نواز شریف کو آنے والے وقت میں ہمیشہ محسوس رہی۔
جنرل کاکڑ، غلام اسحاق خان، چیف جسٹس سجاد علی شاہ، آرمی چیف جنرل جہانگیر کرامت جنہیں مختلف حلقوں میں ایک اینٹیلیکچوئل اور جمہوریت نواز سمجھا جاتا تھا، انہیں مستعفی ہونے پر مجبور کیا۔
پھر 1997 میں دو تہائی اکثریت، امیر المومنین بننے کا خواب۔ اسٹیبلشمنٹ کے نقطہ نظر سے کارگل معاملہ پر تنازع، صدر کلنٹن کے ساتھ راز و نیاز، بغیر اعتماد مہم لیے واجپائی کا دورہ لاہور اور بس ڈپلومیسی، جنرل مشرف کی غیرموجودگی میں آرمی چیف کو بدلنا۔۔۔ فہرست طویل ہوتی رہی۔
شریف خاندان کے لیے اپنا ہی سازگار وزن بھاری محسوس ہونا شروع ہوگیا۔ 11 برس پر محیط آمریت کے سفر کا اختتام جنرل ضیا کے طیارے حادثے سے ہوا تھا لیکن 11 برس بعد ایک نئے آمریت کے سفر کا آغاز۔
جنرل مشرف کا دور۔ جیل کی نظر بندیاں ۔ نواز شریف، ان کی خاندانی سیاست کے خوابوں کی الٹی تعبیر۔
پارٹی تتر بتر، نہ ہی مظاہرے نہ احتجاج، معافیاں تلافیاں۔ ایسے میں مرحومہ کلثوم نواز نے تحریک چلائی، مریم ساتھ رہیں۔
لیکن اس احتجاج کا نتیجہ، معاہدہ، سیاست سے کنارہ کشی کا وعدہ ۔ ٹرکوں میں سامان لاد کر سعودی عرب جلاوطنی قبول۔ مفاہمتی خدوخال حاوی رہے۔
جلاوطنی کے بعد نواز شریف کی سیاسی واپسی، اقتدار میں واپسی۔ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ پینگیں بڑھانے کی کوششیں، میمو گیٹ میں کالے کوٹ زیب تن کیے لیکن اعتماد کا فقدان۔ ڈان لیکس کا قضیہ، مشکلات بڑھتی گئیں۔
کرپشن مقدمات، نااہلی۔ نواز شریف اور ان کی صاحبزادی اور سیاسی جانشین مریم کا اسٹیبلشمنٹ مخالف بیانیہ۔ مزاحمتی سیاسی جنگ کا اعلان لیکن پارٹی کی سینیئر قیادت منقسم، خاندانی سیاست بیانیے پر تقسیم۔
شہباز شریف جو ماضی میں چوہدری نثار کے ساتھ وزیر اعظم ہاؤس اور پنڈی کے درمیان پل کا کردار ادا کرتے رہے ہیں، وہ مفاہمت کے حامی رہے ہیں۔
بڑے بھائی ’بھائی جان‘ کے ساتھ بغاوت نہیں کرسکتے، نہ ہی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ ٹکراؤ چاہتے ہیں۔
وہ ان دنوں اپنے شدید علیل بھائی کی سلامتی چاہتے ہیں اور پارٹی کا مفاہمتی ایجنڈا جاری رکھنا چاہتے ہیں۔
نواز شریف اب بیرون ملک علاج کے لیے روانہ ہو رہے ہیں۔ لندن اور پھر شاید امریکہ جانا پڑے۔ نواز شریف علاج کے بعد واپس آئیں گے۔ انہیں بخوبی معلوم ہے کہ ماضی میں ان کی وطن دوری سے پارٹی میں ٹوٹ پھوٹ ہوئی۔ اسی وجہ سے گذشتہ برس اپنی بیمار اہلیہ کلثوم کو لندن چھوڑ کر واپس آئے تھے، جیل کاٹی اور مقدمات کا سامنا کیا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اس مرتبہ اگر نواز شریف کا علاج کی غرض سے بیرون ملک قیام مختصر رہتا ہے اور وہ جلد واپس آتے ہیں تو پارٹی منفی اثرات سے محفوظ رہے گی۔
مریم اپنی والدہ کے بعد اور اب والد نواز شریف کی شدید علالت کے باعث سیاسی سرگرمیوں سے فی الوقت دور نظر آئیں گی۔
اُدھر شریف خاندان کی سیاست کی مفاہمتی ڈور شہباز شریف تھامے نظر آئیں گے۔ شریف خاندان کی سیاسی گھٹی میں مزاحمت نہیں اسی وجہ سے وہ مفاہمت اور مزاحمت کے گرداب میں پھنسی رہی ہے۔ لیکن شریف خاندان کی سیاسی جڑیں سب سے بڑے صوبے پنجاب میں مربوط رہی ہیں۔
اقتدار کے گڑھ پنجاب سے ہی فوج کی بھرتیاں ہوتی ہیں، اسی صوبے میں شریف خاندان کے سیاسی حامی ہیں اور اگر شریف خاندان کی سیاست میں اسٹیبلشمنٹ مخالف بیانیہ حاوی ہوتا ہے تو پھر ان کے لیے بھی یہ پریشان کن پہلو رہے گا۔ آنے والے دنوں میں اسٹیبلشمنٹ اور شریف خاندان کی سیاست غالباً دونوں ہی مفاہمت اور مزاحمت کے گرداب کا شکار رہیں گے۔