سابق وزیر اعظم نواز شریف کی علاج کے لیے بیرون ملک روانگی کے بعد یہ سوال بہت اہمیت اختیار کر گیا ہے کہ وہ مستقبل قریب میں وطن واپس آئیں گے یا نہیں۔
ان کی روانگی سے پہلے یہ تاثر دیا جا رہا تھا کہ ان کی حالت بہت تشویش ناک ہے۔ اسی لیے ایئر ایمبولینس بھی منگوائی گئی۔ نوازشریف کے حامیوں کا موقف تھا کہ اگر انہیں جلد علاج کے لیے بیرون ملک نہ بھیجا گیا تو ان کی جان بھی جا سکتی ہے۔ اطمینان کی بات یہ ہے کہ نواز شریف اپنے پاﺅں پر چل کر لندن روانہ ہوئے ہیں۔ جب وہ ایون فیلڈ کیس کی سماعت کے دوران اپنی اہلیہ کلثوم نواز کو شدید علالت کے دوران لندن میں ہی چھوڑ کر وطن واپس آئے تھے تو اس وقت بھی ان کے بارے میں یہی قیاس آرائیاں جاری تھیں کہ وہ اب کبھی پاکستان نہیں آئیں گے اور اہلیہ کی علالت کے بہانے لندن ہی میں قیام کریں گے۔
نواز شریف اور ان کی صاحبزادی مریم نواز اس مشکل گھڑی میں نہ صرف یہ کہ پاکستان واپس آئے بلکہ انہوں نے مقدمات کا سامنا بھی کیا اور سزا کے بعد جیل بھی کاٹی۔ لیکن اس دوران ان کے بھائی شہباز شریف پس پردہ ان کی رہائی کے لیے کوششیں کرتے رہے۔
عمران خان کی حکومت کے لیے یہ بڑا مشکل مرحلہ تھا کہ وہ سزا یافتہ شخص کو علاج کے لیے بیرون ملک جانے کی اجازت دیتی۔ لیکن حالات اس نہج پر پہنچ گئے کہ احتساب کے حوالے سے پی ٹی آئی اور عمران خان کے بیانیے کو کامیابی حاصل نہ ہوسکی۔ نہ صرف یہ کہ نواز شریف کو بادل نخواستہ بیرون بھیجنے کے لیے رہا کرنا پڑا بلکہ وہ کوئی رقم ادا کیے بغیر صرف ایک تحریری یقین دہانی کے بعد بیرون ملک روانہ ہوئے ہیں۔
بیرون ملک روانگی کے لیے نواز شریف نے لاہور ہائی کورٹ سے رجوع کیا تھا۔ لاہور ہائی کورٹ میں ان کی درخواست کی سماعت جسٹس باقرنجفی نے کی۔ یہ وہی فاضل جج ہیں جنہوں نے ماڈل ٹاﺅن فائرنگ کیس کی بھی سماعت کی تھی۔ نوازشریف کی وطن واپسی کے بارے میں ہر مرتبہ شکوک وشبہات پیدا ہونے کی بنیادی وجہ ان کا ماضی ہے۔
نوازشریف اپنے اسی ماضی سے جان چھڑانے کے لیے اپنی اہلیہ کو جاں کنی کے عالم میں لندن چھوڑ آئے تھے لیکن المیہ یہ ہے کہ ماضی جب تاریخ کا حصہ بن جاتا ہے تو اس سے جان چھڑانا ممکن نہیں رہتا۔ نواز شریف کی موجودہ روانگی کے بارے میں اگر یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا کہ تاریخ ایک مرتبہ پھر خود کو دہرا رہی ہے۔ اس مرتبہ تاریخ نے خود کو دہرانے میں 19 برس لیے ہیں۔
19 برس پہلے کے نواز شریف کا آج کے نواز شریف کے ساتھ موازنہ کرنا اگرچہ درست نہیں کہ اس مرتبہ ہم نے ان کے نقطہ نظر اور بیانیے میں زمین آسمان کا فرق دیکھا ہے۔ لیکن اس کے باوجود کچھ مماثلتیں ایسی ہیں جنہیں نظراندازنہیں کیا جا سکتا۔
2000 میں بھی نواز شریف کو قید سے نکال کر بیرون ملک بھیجا گیا تھا۔ اس مرتبہ بھی ایسا ہی ہوا۔ اس وقت بھی وہ علاج کے بہانے بیرون ملک گئے تھے۔ 2019 میں بھی وہ علاج کے لیے ہی روانہ ہوئے ہیں۔
انہیں لینے کے لیے سعودی شاہی خاندان کا خصوصی طیارہ آیا تھا۔ اس مرتبہ قطری حکومت نے ان کے لیے ایئر ایمبولینس بھیجی ہے۔ تاہم سال 2000 اور سال 2019 کے واقعات میں کچھ فرق بھی موجود ہے لیکن پہلے ہم ماضی کے واقعات پر ایک نظر ڈالیں گے۔
سابق وزیر اعظم نواز شریف پہلی مرتبہ 9 دسمبر 2000 کو رات کی تاریکی میں اہل خانہ سمیت سعودی عرب روانہ ہوئے تھے۔ وہ اس وقت پرویز مشرف کے دور حکومت میں اغوا، ہائی جیکنگ اور کرپشن کے الزامات میں عمرقید کاٹ رہے تھے۔ نواز شریف 12 اکتوبر 1999 کو اپنی حکومت کا تختہ الٹے جانے کے بعد سے مسلسل جیل میں تھے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
سعودی عرب کی مداخلت پر پرویز مشرف کے ساتھ ڈیل کے بعد ان کی سزا ختم کر دی گئی۔ انہیں لینے کے لیے سعودی عرب کے شاہی خاندان کا خصوصی طیارہ اسلام آباد آیا تھا۔ نواز شریف کے ساتھ ان کے خاندان کے 18 ارکان بھی سعودی عرب گئے تھے جن میں ان کی اہلیہ، تین بچے، بھائی اور والدین شامل تھے۔ نواز شریف کو بیروان ملک جانے کی اجازت پرویز مشرف حکومت نے جلاوطنی کی شرط پر دی تھی۔
نواز شریف کے بارے میں بتایا گیا تھا کہ وہ معاہدہ کر کے گئے کہ 21 برس تک پاکستان آ کر سیاست نہیں کریں گے۔ وہ خود اور ان کی پارٹی بھی اس معاہدے سے انکار کرتی رہی لیکن بعد ازاں مشرف حکومت کی جانب سے وہ معاہدہ منظرعام پر آ گیا جس میں دس سال کی جلاوطنی کی شرط موجود تھی۔ روانگی کے وقت نواز شریف کی جائیداد ضبط کر لی گئی تھی اور انہوں نے پانچ لاکھ ڈالر جرمانہ ادا کرنے پر بھی رضامندی ظاہر کی تھی۔
بعدازاں اگست 2007 میں ان کی جلاوطنی ختم ہو گئی اور جولائی 2009 میں انہیں ہائی جیکنگ کے الزامات سے بری کر دیا گیا۔ جولائی 2013 میں وہ دوبارہ وزیراعظم منتخب ہو گئے۔ تاہم جولائی 2017 میں انہیں وزیر اعظم کے عہدے سے برطرف کر کے نااہل قراردے دیا گیا۔ اس وقت وہ ایون فیلڈ کیس میں 10 سال قید کاٹ رہے تھے۔ یہ سزا انہیں جولائی 2018 میں سنائی گئی تھی۔
2000 اور 2019 میں فرق یہ ہے کہ اس مرتبہ نواز شریف اہل خانہ کے ہمراہ نہیں صرف اپنے بھائی اور ڈاکٹر کے ہمراہ بیرون ملک گئے ہیں۔ دوسرا سب سے اہم فرق یہ ہے کہ اس مرتبہ وہ ڈیل کر کے نہیں بلکہ ڈیل مسترد کر کے گئے ہیں اور ماضی کے برعکس انہوں نے کسی ادائیگی، جلاوطنی یا کسی اورمعاہدے پر دستخط نہیں کیے۔
وہ اوروں کی شرائط پر نہیں اپنی شرط پر بیرون ملک گئے ہیں اور رات کی تاریکی میں نہیں بلکہ دن کے اجالے میں گئے ہیں۔ پچھلی مرتبہ جب لوگ سو کر اٹھے تھے تو انہیں معلوم ہوا تھا کہ نواز شریف بیرون ملک چلے گئے ہیں۔ اس مرتبہ لوگوں نے براہ راست ٹی وی چینلوں پر انہیں روانہ ہوتے دیکھا۔
عدالتی احکامات کے مطابق انہیں ایک ماہ کے لیے بیرون ملک بھیجا گیا ہے۔ ایک ماہ بعد ڈاکٹروں نے اگر سفر کی اجازت دی تو وہ وطن واپس آ کر اپنی باقی سزا پوری کریں گے۔ ہم ان کی صحت و سلامتی کے لیے دعا گو ہیں اور ہمیں امید رکھنی چاہیے کہ نئے پاکستان کے نتیجے میں قوم کو نیا نواز شریف بھی مل جائے گا۔