گلگت جانے کے کئی راستے ہیں لیکن نومبر کے مہینے میں کوہستان کے پُر خطر راستوں پر کئی گھنٹوں کی مسافت کے بعد جب چِلاس چیک پوسٹ پر گاڑی رکتی ہے اور گلگت بلتستان کی حدود کا آغاز ہوتا ہے تو ٹھنڈی ہوا کے جھونکے اور بادلوں کی اوٹ سے جھانکتے سفید پوش پہاڑ موسمِ سرما کی آمد کا پیغام لیے آپ کا استقبال کرتے ہیں۔
ان ہی پہاڑوں کے دامن میں کسی آرٹسٹ کے کینوس پر بکھرے ہوئے رنگوں کی طرح سنہرے، سرخ، نارنجی اور سبز پتے مسافر کی بھٹکتی ہوئی نظروں کو اپنے سحر میں جکڑ لیتے ہیں۔ یوں گلگت کی وادیوں میں پت جھڑ اور موسمِ سرما کا حسین امتزاج دیکھنے میں آتا ہے۔ ایسے ہی کچھ مناظر ہم آپ کو یہاں دکھا رہے ہیں۔
دریائے گلگت کے دونوں اطراف وادی ہنزہ اور وادی نگر نظر آرہے ہیں۔
یہ سوئٹزرلینڈ نہیں بلکہ وادی نگر کی ایک شام کا منظر ہے۔
وادی ہنزہ کا شہری علاقہ کریم آباد جو پہلے بلتت کے نام سے جانا جاتا تھا۔
1100 سال پہلے ہنزہ کی شہزادی کے لیے بنائے گئے التِت فورٹ کا شاہی باغ
وادئ ہنزہ کے التت فورٹ میں موجود رسوئی گھر کے برتن جن میں شاہی خاندان کے لیے کھانا تیار کیا جاتا تھا۔
وادی نگر کے علاقعے مِناپن میں واقع گیسٹ ہاؤس ’اشوتھانگ‘ جس کا ہر کمرہ مستنصر حسین تارڑ کے مختلف سفر ناموں پر مبنی ہے۔
گلگت کے مشہور سیاحتی مقامات اور ان کی دلچسپ باتیں
نو ہزار فٹ سے بھی زائد کی بلندی پر وادی ہنزہ کا سب سے اونچا گاؤں ’دوئیکر‘، جو اب ’ایگلز نیسٹ‘ کا نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ اس مقام پر سیاح اکثر سورج غروب ہونے کے مناظر دیکھنے آتے ہیں۔
ہنزہ کی عطا آباد جھیل میں سیاح سپیڈ بوٹ میں ساحل کی طرف آتے ہوئے۔
گلگت کے کئی حسین مقامات کی طرح عطا آباد جھیل کا نیلا پانی سیاحوں کے لیے انتہائی پرکشش ثابت ہوتا ہے لیکن یہ جھیل گلگت کا قدرتی سیاحتی مقام نہیں ہے بلکہ 2010 میں ہنزہ کے گاؤں عطا آباد سے گزرنے والے دریائے ہنزہ میں ’مٹی کا تودہ‘ گرنے سے یہ جھیل معرضِ وجود میں آئی۔ اس جھیل کے باعث کئی افراد اور گاؤں زیرِ آب آگئے۔
حال ہی میں یہاں پھر سے گاؤں آباد ہونا شروع ہوئے ہیں اور جھیل پر اب سیاحوں کے لیے جیٹ سکی، سپیڈ بوٹ اور فیری کے انتظامات موجود ہیں۔
دنیاوی پُلِ سراط یا حسینی برج، جس کی ہر لکڑی کے درمیان چھ سے آٹھ اِنچ کا فاصلہ ہے۔ فی الحال یہ برج سیاحوں کے لیے بند ہے لیکن اسے بغیر ڈرے پار کرلینا بہادری کی ایک علامت ہے۔
قراقرم ہائی وے سے نظر آنے والے برف پوش پسو کونز اور پت جھڑ کے دلکش مناظر
بادلوں میں سے جھانکتی ہوئی گلگت کی مشہور ’لیڈی فنگر‘ پیک ۔ تصویر کے وسط میں نظر آنے والی انتہائی نوکیلی چوٹی لیڈی فنگر ہے۔ اس کی منفرد اور نوکیلی ساخت کی وجہ سے اس پر کبھی برف نہیں ٹھہرتی۔
خنجراب نیشنل پارک میں چار مارخور ایک ساتھ دیکھے جانے کا ایک انوکھا منظر۔
خنجراب نیشنل پارک دنیا کے تین بڑے نیشنل پارکوں اور دنیا کے بلند ترین مقامات میں سے ایک ہے۔ اس پارک میں کئی نایاب جنگلی حیات پائی جاتی ہیں، جن میں مارخور بھی شامل ہیں۔ مارخورٹھنڈے اور پہاڑی علاقوں میں رہنا پسند کرتے ہیں اور عام طور پر 3000 میٹر سے زائد کی بلندی پر پائے جاتے ہیں۔ یہ تصویر خنجراب نیشنل پارک میں ایک مقام پر موجود ٹیلی سکوپ کی مدد سے لی گئی، اس کے علاوہ اتنی اونچائی پر انسانی آنکھ سے مارخور تلاش کرنا انتہائی مشکل ہے۔
وادی نلتر میں موجود ایک چھ سالہ برفانی چیتا، جسے مقامی افراد ’لولی‘ کے نام سے بلاتے ہیں۔ اس چیتے کو خنجراب نیشنل پارک سے وادی نلتر لایا گیا ہے۔
ملک کے دیگر حصوں سے آئے ہوئے سیاح چار ہزار میٹر سے بھی زائد کی بلندی پر موجود درۂ خنجراب کی جانب چل کر جارہے ہیں۔
خنجراب پاس قراقرم ہائی وے کا آخری مقام ہے۔ یہ سلسلۂ قراقرم میں ایک بلند پہاڑی درہ ہے اور نومبر کے مہینے میں ہی یہاں کا درجہ حرارت منفی 22 سیلسیئس ہوجاتا ہے۔ اس لیے نومبر کے بعد یہاں سیاحوں کی تعداد انتہائی کم ہوجاتی ہے۔
درۂ خنجراب پر دنیا کا بلند ترین اے ٹی ایم جو سمندری سطح سے 16007 فٹ کی اونچائی پر موجود ہے۔
دیامیربھاشا ڈیم سائٹ، جہاں فی الحال تعمیراتی کام شروع نہیں ہوسکا لیکن کوہستان کے پہاڑوں سے گلگت کے علاقے دیامیر کی جانب جاتے ہوئے سامنے کی پہاڑیوں پر ’دیامیر بھاشا ڈیم‘ صاف لکھا نظر آتا ہے۔
حسینی برج کے قریب واقع مقامی چائے والے کی دکان پر مختلف ممالک کے سیاحوں کی طرف سے تحفے میں دیے گئے کرنسی نوٹ اور پتھروں پر لکھے گئے یادگار پیغامات۔