نوجوان بلے باز بابر اعظم نے جس تیزی سے کرکٹ میں نام بنایا ہے اور دنیا کی نظریں اپنی طرف مبذول کروائی ہیں اس سے لگتا ہے کہ ایک اور انضمام الحق پیدا ہوگیا ہے۔
برزبین ٹیسٹ میں ان کی سنچری ٹیم کے کام تو نہ آ سکی لیکن میڈیا نے ان کا ڈنکہ بجانا شروع کر دیا ہے۔ سب کو چھوڑیں ہمارے وزیر اعظم عمران خان بھی ان کے گن گانے لگے ہیں۔ سابق کپتان اور کمنٹیٹر وسیم اکرم نے انکشاف کیا ہے کہ عمران خان نے بابر اعظم کی بہت تعریف کی ہے اور ان کی تکنیکی مضبوطی کی وجہ سے انہیں چوتھے نمبر پر کھیلنے کا مشورہ دیا ہے۔
اب وزیر اعظم نے کہا ہو یا نہ کہا ہو مگر یہ تو سچ ہے کہ نمبر چار بیٹنگ آرڈر میں سب سے اہم ہوتا ہے اور دنیا کے جانے مانے کھلاڑی اس پر کھیلتے رہے ہیں۔
ان میں سر گارفیلڈ سوبرز، گریگ چیپل، کلائیو لائیڈ، کالی چرن، وینگسرکار، برائن لارا، جیک کیلس، سچن ٹنڈولکر، اروندا ڈی سلوا اور سنگاکارا جیسے بڑے بیٹسمین شامل ہیں۔
پاکستان میں نمبر چار پر ابتدائی دور میں وقار حسن، سعید احمد، مقصود احمد اور ماجد خان کھیلتے رہے ہیں لیکن مشتاق محمد پہلے کھلاڑی تھے جنہوں نے اس پوزیشن پر قبضہ کیا اور اس نمبر پر کئی یادگار اننگز کھیلیں۔
جب جاوید میاں داد آئے تو انہوں نے یہ پوزیشن اچک لی۔ جاوید شاید پاکستان کے سب سے زیادہ طویل دور تک اس پوزیشن پر کھیلنے والے کھلاڑی رہے ہیں اور ایسا لگتا تھا کہ وہ بنے ہی اس نمبر کے لیے تھے۔ انھوں نے اس پوزیشن پر بےشمار یادگار اننگز کھیلیں اور پاکستان کو میچ جتوائے۔
جاوید میاں داد کی خاصیت یہ تھی کہ وہ کسی بھی وقت کوئی بھی شاٹ کھیل لیتے تھے اور ان کی جیسی خود اعتمادی پاکستان کے کسی بیٹسمین کے پاس نہ تھی۔ وہ دنیا کے کسی بھی بولر کو کسی بھی وکٹ پر بڑے اعتماد سے کھیلتے تھے۔
جب میاں داد ریٹائر ہوئے تو انضمام الحق اس نمبر پر کھیلنے لگے۔ وہ بھی اس نمبر پر بہت کامیاب رہے اور ان کی کئی زبردست باریاں اس نمبر پر سامنے آئی ہیں۔ انہوں نے اپنے آخری میچ تک یہ پوزیشن کسی کو نہ دی حالانکہ اس دور میں محمد یوسف بھی بہت اچھا کھیل رہے تھے۔ لیکن انضمام نمبر کے معاملے میں میاں داد کی طرح ضدی تھے۔
جب انضمام ریٹائر ہوئے تو پاکستان کے لیے سب سے زیادہ رنز بنانے والے یونس خان نے نمبر چار پر قبضہ کر لیا۔ یونس ایک انتھک محنت کرنے والے کھلاڑی تھے جنہوں نے اس پوزیشن پر آ کر ہزاروں رنز بنائے اور درجنوں ریکارڈ توڑے۔ یونس خان بھی میاں داد اور انضمام کی طرح نمبر کے معاملے میں جذباتی تھے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
یونس کی ریٹائرمنٹ کے بعد اس نمبر پر پہلی مرتبہ ایک خلاء آیا اور ٹیم کے لیے مشکل تھا کہ کون اس نمبر پر کھیلے۔ سب کی نظریں اسد شفیق پر تھیں جو 50 سے زائد ٹیسٹ کھیل چکے تھے۔
اسد شفیق نے یونس کے بعد اس پوزیشن پر کئی ٹیسٹ کھیلے ہیں لیکن وہ اس نمبر کے ساتھ وہ انصاف نہیں کر پائے کیونکہ ان کی کارکردگی نشیب وفراز کا شکار رہی ہے۔ انھوں نے کچھ اچھی اننگز کھیلی ہیں جیسے کہ لارڈز میں انگلینڈ کے خلاف اور گذشتہ ٹیسٹ میں آسٹریلیا کے خلاف ان کے 76 رنز۔
اب بابر اعظم اس نمبر کے ایک مضبوط امیدوار ہیں۔ اگرچہ بابر کہہ چکے ہیں کہ ان کو کسی پوزیشن پر بھی کھلا دیا جائے وہ کھیلیں گے لیکن پاکستان کی تاریخ کے بڑے بیٹسمینوں کے اس نمبر پر کھیلنے کے باعث ممکن ہے بابر بھی اسی نمبر پر کھیلنا چاہتے ہوں۔ جلد بازی میں کیا گیا ہر فیصلہ بابر اعظم کی کارکردگی کو نقصان پہنچا سکتا ہے کیونکہ نمبر چار پوزیشن صبر اور حوصلے سے کھلینے کا تقاضا کرتی ہے۔
کیا بابر اعظم اس کے لیے تیار ہیں؟
جواب جو بھی ہو مگر بابر اعظم کے تیور بتا رہے ہیں کہ اب وہ پاکستان ٹیم کے ایک اور انضمام الحق بننے جا رہے ہیں جن کے پاس حملہ کرنے کو تمام شاٹ ہیں اور دفاع کے لیے صبر و تحمل کی طاقت بھی۔ شاید بابر اعظم ایڈیلیڈ ٹیسٹ میں چوتھے نمبر پر کھیلنے کے لیے آئیں اور اسد شفیق پانچویں نمبر پر۔ اگر ایسا ہوا تو پھر کہہ سکتے ہیں کہ کوچ مصباح الحق نہیں بلکہ وسیم اکرم اور عمران خان ہیں۔