سپریم کورٹ نے پاکستان فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدت ملازمت میں وزیر اعظم کی جانب سے کی جانے والی تین سال کی حالیہ توسیع کو حتمی فیصلے تک معطل کرتے ہوئے اٹارنی جنرل سے جواب طلب کرلیا ہے۔
یہ درخواست جیورسٹ فاؤنڈیشن نے اپنے وکیل ریاض حنیف راہی کے ذریعے دائر کی تھی۔
سماعت سے ایک روز قبل سپریم کورٹ کے چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے اس درخواست کو کارروائی کے لیے منظور کرتے ہوئے اپنی سربراہی میں تین رکنی بینچ تشکیل دیا تھا، جب کہ اس مقدمے میں وفاقی حکومت، سیکریٹری دفاع اور آرمی چیف کو فریق بنایا گیا ہے۔
بینچ کے دیگر دو ججوں میں جسٹس منصور علی شاہ اور جسٹس مظہر عالم شامل ہیں۔
منگل کو سماعت کے آغاز سے قبل درخواست گزار کی جانب سے عدالت کو ہاتھ سے لکھی ہوئی درخواست موصول ہوئی جس میں موقف اپنایا گیا تھا کہ ’آرمی چیف کی توسیع سے متعلق درخواست میں کچھ قانونی غلطیاں تھیں، جن کو درست کرنا ضروری ہے، اس لیے درخواست واپس لیتا ہوں۔‘ تاہم درخواست گزار خود عدالت کے سامنے پیش نہ ہوئے۔ جس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ’اس درخواست پر نہ کوئی تاریخ ہے اور نہ بیان حلفی ہے تو کیسے مان لیں کہ یہ درخواست آزادانہ دی گئی ہے یا دباؤ میں آ کر دی گئی ہے؟‘
چیف جسٹس نے معاملے پر ازخود نوٹس لیتے ہوئے مزید ریمارکس دیے: ’چونکہ درخواست میں مفاد عامہ کی دلچسپی کا سوال ہے، اس لیے ہم اس کو 184/3 کے دائرہ کار میں سُنیں گے۔‘
سماعت کے دوران اٹارنی جنرل پاکستان انور منصور خان نے عدالت میں آرمی چیف کی توسیع سے متعلق تمام دستاویزات کی نقول پیش کیں۔ انہوں نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ ’ملکی اور خطے کے ناگزیر حالات کی وجہ آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع کا فیصلہ کیا گیا۔‘ انہوں نے سمری عدالت میں پڑھ کر سُنائی۔
تاہم چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ اٹارنی جنرل کی جانب سے دی گئی دستاویزات اور دلائل سے غیرمطمئن نظر آئے، جب کہ جسٹس منصور علی شاہ نے اٹارنی جنرل سے تابڑ توڑ سوالات کیے۔
سماعت کے دوران چیف جسٹس نے استفسار کیا: ’یہ کیسے ہوگیا کہ 19اگست کو پہلے وزیراعظم نے اپنے تئیں آرمی چیف کو توسیع دے دی لیکن پھر اُن کو بتایا گیا کہ یہ طریقہ نہیں ہے تو انہوں نے صدر کو خط لکھ دیا؟‘ اٹارنی جنرل نے جواب دیا کہ ’آرمی چیف کی ملازمت میں توسیع وزیراعظم کی خواہش تھی جو انہوں نے پہلے بیان کی اور پھر سمری صدر کو بھجوائی گئی۔'
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ ’صدر کی جانب سے سمری منظور کرنے کے بعد انہیں بتایا گیا کہ یہ طریقہ کار نہیں تو کابینہ کا اجلاس بلایا گیا جس میں کابینہ کے 25 میں سے 11 اراکین نے توسیع کی تائید کی جبکہ باقی اراکین کچھ غیر حاضر تھے اور کچھ خاموش رہے۔ اس سے تو یہ ثابت ہوتا ہے کہ آرمی چیف کی مدت ملازمت میں توسیع میں کابینہ کی اکثریت کی رائے شامل ہی نہیں ہے۔‘
19 اگست کو وزیراعظم آفس سے جاری کردہ نوٹیفکیشن کے مطابق وزیراعظم عمران خان نے موجودہ مدت مکمل ہونے کے بعد سے جنرل قمر جاوید باجوہ کو مزید تین سال کے لیے اپنے عہدے پر برقرار رکھا تھا۔ نوٹیفکیشن میں اس فیصلے کی وجہ علاقائی سکیورٹی کی صورت حال کو بتایا گیا تھا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
دوسری جانب 12 ستمبر کو صحافی عاصمہ شیرازی کو دیے گئے انٹرویو میں جب صدر عارف علوی سے آرمی چیف کی توسیع کے نوٹیفیکیشن جاری کرنے سے متعلق سوال پوچھا گیا تھا تو صدر پاکستان کا کہنا تھا کہ ’جیسے وزیراعظم صاحب سے ایڈوائس آئی گی تو میں کروں گا۔‘
دوران سماعت جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ریمارکس دیے: ’کابینہ کی نام نہاد منظوری کے بعد سمری دوبارہ وزیراعظم اور صدر کو ازسرنو تعیناتی کے لیے کیوں نہیں بھجوائی گئی؟‘
چیف جسٹس نے مزید کہا کہ ’حکومت کو طریقہ کار کا بھی علم نہیں کہ توسیع یا نئی تعیناتی کیسے کی جاتی ہے؟‘
جسٹس منصور علی شاہ نے سوال اُٹھایا کہ ’ابھی ریٹائرمنٹ ہی نہیں ہوئی تو مدت ملازمت میں توسیع کیسے ہو سکتی ہے؟ پہلے ریٹائر ہوں اُس کے بعد حکومت اُن کو باقاعدہ طریقہ کار کے تحت دوبارہ تعینات کر سکتی ہے۔ لیکن ایک سروس پر موجود شخص کو دوبارہ کیسے تعینات کیا جا سکتا ہے؟‘
جسٹس منصور نے مزید کہا کہ ’یہ عجیب نہیں کہ اگلے تین سال کے لیے ریٹائرمنٹ کو معطل کیا جا رہا ہے۔‘ انہوں نے مزید ریمارکس دیے کہ ’خطے کی سکیورٹی ہمیشہ ہی نازک رہتی ہے لیکن حکومت عدالت کو بتائے کہ کون سی ایسی نازک صورت حال تھی جس کی وجہ سے توسیع کی ضرورت پیش آئی؟‘
چیف جسٹس نے اٹارنی جنرل سے استفسار کیا کہ ’اگر اگلے تین سال تعینات کرنا ہی ہے تو اُس کے قانونی نکات کیا ہیں؟ عدالت میں ان قانونی نکات کو ثابت کریں بدھ کو اس کیس کا فیصلہ کریں گے اور حتمی فیصلہ آنے تک حکومت کی جانب سے آرمی چیف کی توسیع کا نوٹفیکیشن معطل کرتے ہیں۔‘