بنگلہ دیش کی عدالت نے ایک کالعدم شدت پسند تنظیم کے سات ارکان کو 2016 میں کیفے میں غیر ملکیوں پر حملہ کرنے کی پاداش میں سزائے موت سنائی ہے۔
ڈھاکہ کے پوش علاقے میں واقع ہولے آرٹزن بیکری کیفے پر ہونے والا حملہ بنگلہ دیش کی تاریخ میں دہشت گردی کا بدترین واقعہ تھا جس میں 22 افراد ہلاک ہوئے تھے۔ ان میں جاپانی، اطالوی اور امریکی سیاحوں کے ساتھ ایک بھارتی شہری بھی شامل تھا۔
حملہ کرنے والے پانچوں شدت پسند بنگلہ دیشی کمانڈوز کی کارروائی میں مارے گئے تھے۔ بارہ گھنٹے کے اس محاصرے کے دوران شدت پسندوں نے ایک ایک کر کے تمام یرغمالیوں کو قتل کر دیا تھا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
سرکاری وکلا کے مطابق بدھ کو سزا سنائے جانے والے ساتوں افراد اس حملے کی منصوبہ بندی، ہتھیار فراہم کرنے اور بم بنانے سمیت قتل کے واقعات میں ملوث تھے۔
آٹھ ملزمان کے خلاف یہ مقدمہ انسداد دہشت گردی کی خصوصی عدالت میں چلایا گیا۔ ان تمام افراد کا تعلق جماعت المجاہدین بنگلہ دیش سے بتایا جاتا ہے۔ یہ تنظیم اکثریتی مسلم ملک بنگلہ دیش میں شرعی قوانین کا نفاذ چاہتی ہے۔
سرکاری وکیل غلام سرور خان کا کہنا تھا کہ آٹھ میں سے ایک شخص کو بری کر دیا گیا ہے جب کہ باقیوں پر ’عائد کیے جانے والے الزامات کسی شک کے بغیر ثابت ہو چکے ہیں اور عدالت انتہائی سزا دے چکی ہے۔‘
گواہوں کا کہنا ہے کہ فیصلے کے بعد کٹہرے میں کھڑے ملزمان نے لوگوں سے بھری عدالت میں اللہ اکبر کے نعرے بلند کیے۔
یکم جولائی 2016 کو ہولے آرٹزن بیکری پر ہونے والے حملے نے بنگلہ دیش کے بطور محفوظ کاروباری ملک کے تاثر کو نقصان پہنچایا تھا۔ ٹیکسٹائل کی صنعت بھی اس حملے سے متاثر ہوئی تھی۔
یہ حملہ رمضان میں اس وقت ہوا تھا جب بنگلہ دیش میں لوگ روزہ افطار کر رہے تھے۔ حملہ آور کیفے میں داخل ہوئے اور انہوں نے تیز دھار ہتھیاروں سے کیفے میں موجود لوگوں کو مارنا شروع کر دیا۔
پولیس کے جائے وقوعہ پر پہنچنے تک کئی لوگوں کو یرغمال بنا لیا گیا۔ محاصرے کے دوران شدت پسندوں نے ان افراد کو تشدد کا نشانہ بنایا جو قرآن کی تلاوت نہیں کر سکتے تھے۔ رات میں صرف بنگالی یرغمالیوں کو کھانا دیا گیا تھا۔
فوج کے متاثرہ کیفے پہنچنے تک 20 یرغمالی ہلاک ہو چکے تھے جن میں نو اطالوی شامل تھے۔ ہلاک ہونے والوں میں اکثریت خواتین کی تھی۔ کارروائی کے دوران دو سیکورٹی اہلکار بھی ہلاک ہوئے ۔ بازیاب ہونے والے 13 افراد میں ایک جاپانی شہری بھی شامل تھا۔
اس واقعے کے بعد بنگلہ دیش میں شدت پسندوں کی جانب سے چھوٹے پیمانے پر کئی حملے کیے گئے جن میں لوگوں کو ’اسلام کا دشمن‘ قرار دے کر ان کے خلاف انفرادی بنیادوں پر حملے کیے گئے۔ ان حملوں کا نشانہ بننے والے افراد میں دانشور، سیکولر، انسانی اور اقلیتی حقوق کے لیے کام کرنے والے شامل تھے۔
حملے کا شکار ہونے والا کیفے بھی واقعے کے بعد نئی جگہ منتقل ہو چکا ہے لیکن بنگلہ دیش کو کئی سفارتی مشنز بشمول حملے کے مقام کے قریب واقع برطانوی مشن کی جانب سے ایک پرخطر مقام کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔
شدت پسند تنظیم دولت اسلامیہ یعنی داعش نے ان حملوں کے پیچھے ہونے کا دعوی کیا تھا لیکن بنگلہ دیشی وزیر اعظم شیخ حسینہ نے اس دعوے کو رد کر دیا تھا۔ ان کا کہنا تھا ان کے ملک میں داعش کی موجودگی نہیں ہے اور اس کی واقعے کی ذمہ داری کسی مقامی گروہ پر عائد ہوتی ہے۔
بدھ تک اس فیصلے کا مکمل متن سامنے نہیں آسکا لیکن جج مجیب الرحمن کے مطابق ان افراد نے ملک کی سالمیت اور آئین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اس بڑے پیمانے کا حملہ کیا جس میں غیر ملکیوں کو نشانہ بنا کر قتل کیا گیا۔
© The Independent