متحدہ عرب امارات میں دیرہ بہت سارے لوگوں خصوصا پشتونوں کے رہنے کی جگہ کو کہتے ہیں، البتہ جو لوگ اس دیرے سے باہر مقیم ہوں، وہ مقامی اصطلاح میں ’جنگلی‘ کہلاتے ہیں۔
اس کی تفصیل کچھ یوں ہے۔ دیرہ صرف پشتونوں کے لیے مخصوص نہیں، بنگالی، انڈین اور دوسرے پاکستانیوں کے بھی دیرے ہوتے ہیں۔ دیرے میں رہنے یا دیرے کے ساتھ خود کو رجسٹرڈ کرانا پڑتا ہے۔ فوتگی، خوشی و غمی کے یا دوسرے واقعات میں سارے انتظامات ان دیروں پر ہوتے ہیں۔
امارات میں پشتون قبیلوں کے الگ الگ رواج ہیں، محسود قوم کے علیحدہ رواج ہیں، اور وزیر قوم کے علیحدہ۔ یہ دیرے بھی ان قبیلوں کی چھوٹی شاخوں کے ناموں سے بنائے جاتے ہیں۔ مثال کے طور پر شابی خیل قوم کا دیرہ، اس میں 99 فیصد محسود شابی خیل اور ایک مخصوص گاؤں کے قریبی رشتہ دار شابی خیل رہتے ہیں۔
خوجل خیل قوم کے دیرے میں 99 فیصد وزیر خوجل خیل ہی ہوں گے اور وہ بھی زیادہ تر قریبی رشتہ دار ہوں گے۔ اس طرح گلیشائی محسود قوم کے دیرے پر گلیشی شمن خیل ہیں۔
ایک دیرے سے بیک وقت 40 سے 50 لوگ جڑے رہتے ہیں، ان میں کچھ وہیں دیرے کے اندر ہی رہتے ہیں، اور کچھ باہر اپنی کمپنیوں کی فراہم کردہ رہائش میں رہتے ہیں، انہی کو جنگلی کہا جاتا ہے۔ یہ جنگلی دیرے کے نفع نقصان، مُردے کے فنڈ، دیرے کے کرائے میں برابر شریک ہوتے ہیں، کیونکہ فوتگی کی صورت میں اگر وہ کسی دیرے کا رکن نہیں تو اس کو مُردوں والا فنڈ نہیں ملتا۔
جنگلی صرف نام کا جنگلی ہوتا ہے باقی یہ بھی نارمل انسان ہی ہوتا ہے، بس باہر رہنے کیوجہ سے اس کو جنگلی کہا جاتا ہے۔ البتہ یہ بات الگ ہے کہ کچھ جنگلی واقعی جنگلوں میں کام کرتے ہیں، لیکن زیادہ تر جنگلی کمپنیوں کی طرف سے دی جانے والی رہائشی کالونیوں یا لیبر کیمپس میں رہتے ہیں، جہاں ان کو دیرے سے زیادہ سہولیات دی گئی ہوتی ہیں۔
بہت سے ایسے بھی ہیں جو کمپنیوں کی طرف سے دی جانے والی سہولیات کو لالچ کی بنا پر منسوخ کروا کر اس سہولت کے عوض پیسے لے کر دیرے میں جا پڑتے ہیں۔
امارات میں رہنے کا سب سے بڑا مسئلہ ہوتا ہے جو ان لوگوں نے دیروں کی شکل میں بہت آسان بنا دیا ہے۔ دیرے میں کھانے پینے کا شیڈول ہوتا ہے، اور سب نے مل جل کر اس میں حصہ ڈالنا ہوتا ہے۔ انٹرنیٹ کی فیس، بجلی کا بل سب شئیر کیا جاتا ہے۔ لیکن جنگلی ان چیزوں میں شراکت داری کا ذمہ دار نہیں ہوتا، اس کا صرف دیرے سے جمعہ کی چھٹی، عیدوں یا امارات کے قومی دن تک یا پھر خوشی غمی کے دنوں میں رشتہ ہوتا ہے، باقی وہ اپنی کمپنی کی رہائش یا دور جنگلوں میں ہی زندگی گزارتا ہے۔
ان چھٹی کے دنوں میں دیرے پر خوب بھیڑ بھاڑ ہوتی ہے۔ دور دراز کے جنگلی اپنے دوستوں اور رشتے داروں کے دیروں کا رخ کرتے ہیں، موج مستی کرتے ہیں، اچھے اچھے کھانے پکائے اور کھائے جاتے ہیں، لطیفوں، دلچسپ قصہ کہانیوں کا تبادلہ ہوتا ہے اور ملک کی صورتِ حال پر گرما گرم بحثیں ہوتی ہیں۔
یہ ساری باتیں اپنی جگہ، لیکن دیرے کے مستقل رہائشیوں کو ان جنگلیوں کی یلغار کے باعث مشکلات کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے کہ وہ آ کر ان کے آرام میں خلل ڈالتے ہیں اور ساری خوراک کھا جاتے ہیں، لیکن لطف اندوز سارے ہوتے ہیں۔
سارا ہفتہ کمر توڑ مشقت میں گزارنے کے بعد جب یہ لوگ مل کر ہنسی مخول کر رہے ہوتے ہیں تو یہ گمان تک نہیں گزرتا کہ ان کی زندگی کس قدر مشکل ہے۔
ان چھوٹی چھوٹی باتوں کے علاوہ مجموعی طور پر دیرے کی زندگی ہوتی بڑے مزے کی ہے جس کا لطف صرف وہی سمجھ سکتا ہے جس نے کبھی اس طرح کے حالات میں زندگی گزاری ہو۔