اسلام آباد میں پاکستان اور سعودی عرب کے وزرائے خارجہ کی مشترکہ پریس کانفرنس میں مہمان وزیر مملکت برائے خارجہ امور عادل الجبیر نے ایران کے خلاف کافی سخت بیان دیا اور اس پر دہشت گردی کی سرپرستی کا الزام کھل کر عائد کر دیا۔ میزبان ان کو پریشانی سے دیکھتے رہے لیکن بظاہر سفارتی آداب کے تحت روک نہیں سکے۔
سعودی عرب کے ایک صحافی نے اخباری کانفرنس میں سوال کیا کہ ایران میں ہونے والے حالیہ دہشت گردی کے واقعے میں ایران نے پاکستان کو مورد الزام ٹھہرایا ہے۔ مفصل جواب میں عادل الجبیر نے کہا کہ ’ایران کے وزیر خارجہ کا جو خود دہشت گردی کے پھیلاؤ بڑا ذریعہ ہیں کا الزام لگانا حیران کن ہے۔ لبنان اور یمن میں دہشت گرد جماعت حزب اللہ کے پیچھے بھی ایران ہے۔ جنوبی امریکہ، یورپ اور سعودی عرب پر ہونے والے دہشت گرد واقعات میں بھی ایران کا ہاتھ ہے۔ ایران کی جانب سے دہشت گرد گروہوں کو اسلحہ فراہمی بھی کی جاتی رہی ہے۔ ایران نے بہت سے دہشت گردوں کو مخفوظ راستے فراہم کیے ہیں۔ ایران دہشت گردی پھیلانے کا موجب اور القاعدہ کو پناہ دینے والا ہے۔ سعودی عرب، ایران کی دہشت گردی کا نشانہ ہے۔‘
سعودی وزیر کے ایران مخالف بیان پر ردعمل
سعودی وزیر مملکت برائے خارجہ کے بیان نے پاکستان کے صحافتی حلقوں اور سوشل میڈیا پر بیان بازی کا ایک نیا سلسلہ شروع کر دیا۔ بہت سے لوگوں کا سوال یہ ہے کہ کیا ایسے موقع پر جب پاکستان کی مشرقی سرحد پر حالات کشیدہ ہیں، مغربی سرحد افغانستان کے ساتھ معاملات بھی ملے جلے ہیں۔ ایسے میں ایک ہمسایہ ملک کے بارے میں مخالف بیان کے لیے پلیٹ فارم بظاہر فراہم کرنا پاکستان کو سفارتی سطح پر مشکل میں ڈال سکتا ہے۔ وزیر اعظم عمران خان اور سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کی جب مشترکہ ایسی ہی کانفرنس ایجنڈے پر تھی تو وزراء کی کانفرنس کی کیا ضرورت تھی؟
معروف سینئر صحافی نسیم زہرہ نے سوشل میڈیا پر بیان دیا کیا کہ پاکستان کو سعودی عرب اور ایران کے درمیان توازن رکھنے کی ضرورت ہے۔ سعودی عرب پاکستان کا خاص دوست جبکہ ایران پاکستان کا ہمسایہ ہے۔
Major Takeaway Challenge from #CrownPrincePakistanVisit :Pakistan must continue its efforts to end logjam in Saudi-Iran relations.While Pak,with KSA as a special friend & Iran as an imp neighbour, maintains cordial relations, end of KSA-Iran antagonism is needed 4 regional peace
— Nasim Zehra (@NasimZehra) February 18, 2019
جبکہ ناقد صحافی مرتضی سولنگی نے اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹ پر کہا ہے کہ تحریک انصاف کی حکومت نے سعودی وزیر مملکت کو ایران کے بارے میں مخالف بیان دینے کے لیے اپنی سرزمین کا استعمال کیوں کرنے دیا؟
This is a dangerous escalation. Why did #PTI govt allow Saudi foreign minister to address such a toxic press conference against Iran on our soil and allow to be broadcast LIVE on all networks? For what? https://t.co/Nf8KkdiAEP
— Murtaza Solangi (@murtazasolangi) February 18, 2019
تجزیہ کار خادم حسین نے اپنی ٹویٹ میں کہا کہ سعودی عرب نے پاکستان کے ساتھ تمام یاداشتیں منظور اس لیے کیں کہ پاکستان کی سرزمین پر ایران پر الزامات لگا سکیں۔ ’ایسے بیانات ملک میں فرقہ واریت شدت پسندی کو ہوا دے سکتے ہیں۔’
This is perhaps what the Saudis wanted from all the pageant of MoUs. Hurling accusation at #Iran while Pakistani foreign minister looking on helplessly. Is it going to be two pronged process of importing sectarianism and exporting violent extremists? https://t.co/56AP1jcqYD
— Khadim Hussain (@Khadimhussain4) February 18, 2019
ملک کے اندر کیا باہر بھی اس بیان پر رائے زنی ہونے لگی۔ ایک امریکی ریٹائرڈ فوجی کرنل لارنس سیلنگ نے اپنی ٹویٹ میں کہا کہ سعودی عرب نے اپنے ایران اور یمن کے تنازعے میں اسلام آباد کا تعاون خرید لیا ہے۔
Saudis are buying Islamabad's support in its conflict with Iran & war in Yemen. Pakistani Punjabi generals desperately need the money, but will engage in duplicity as it does with all donors. Punjabis are double-selling Balochistan to both Saudis & Chinesehttps://t.co/EwwpXUtbOD
— Lawrence Sellin (@LawrenceSellin) February 17, 2019
پاکستانی صحافی انس ملک نے سوشل میڈیا میں سعودی وزیر کے بیان پر کہا کہ پاکستانی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کو ایران اور سعودی عرب مابین معاملات میں اپنا نقطہ نظر واضح کرنا چاہیے اور وزیر خارجہ کو اس ضمن میں جلد ایران کا دورہ کرنے کی ضرورت ہے۔
ایک روز قبل ہی پاکستانی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے ایران کو ایک وفد کے تہران بھیجے جانے کی اطلاع دی تھی۔ اکثر ماہرین کے خیال میں پاکستانی وزارت خارجہ کو ایران سے تازہ رابطے میں وضاحت کرنی چاہیے کہ پاکستان کا اس بیان سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
سوشل میڈیا پر عوامی رائے میں یہ کہا گیا ہے کہ ایران ہمسایہ ملک اور سٹریٹیجک پارٹنر ہے۔ ایران سے معاملات بہتر بنانے کی ضرورت ہے اور اس معاملے میں پاکستان کو سعودی عرب کی نہیں سنی چاہیے۔