پاکستان میں گاڑیوں کی قیمتیں آسمان سے باتیں کر رہی ہیں۔ چند ہفتے قبل میں اپنی گاڑی سروس کرانے گیا تو وہاں ایک نوجوان اپنی چین کی بنی ہوئی ایس یو وی بھی لایا ہوا تھا۔
میں نے اس گاڑی کا نام نہیں سنا تھا، تو میں نے اس سے نام پوچھا اور اس کے حوالے سے دیگر معلومات دریافت کیں۔ گاڑی میں تقریباً سب کچھ ہی تھا۔ میں نے سوچا کہ اس گاڑی کا نام نہیں سنا ہوا، تو ہو سکتا ہے کہ یہ سستی ہو۔ میں نے اس سے قیمت پوچھی تو جواب کچھ یوں ملا: ’بہت سستی ہے سر، صرف 84 لاکھ کی ہے۔‘
صرف؟
جس گاڑی کو دیکھو، تو 70 لاکھ سے اس کے بیسک ویریئنٹ کا آغاز ہوتا ہے۔ میں پھر سوچ میں پڑ گیا اور میں نے سوچا کہ پاکستان میں گاڑیوں کی قیمتیں کیسے کم کی جا سکتی ہیں؟ پاکستان میں لوگ جس طرح گاڑیاں چلاتے ہیں اور ان کی عادات کو مدنظر رکھتے ہوئے میرے پاس ایک فارمولا ہے۔
پاکستان میں نئی گاڑی خریدنے جائیں، تو اس میں کار میٹ کے علیحدہ پیسے ہوتے ہیں۔ وہ فیچرز، جو بیرون ملک ہر گاڑی میں بیسک ویریئنٹ میں ہوتے ہی ہوتے ہیں، ان کے لیے ہم لوگ اضافی رقم دیتے ہیں۔ چلیں دیکھتے ہیں کہ قیمتیں کم کرنے کا کیا فارمولا ہے۔
پاکستان میں لوگ مڑتے وقت انڈیکیٹر نہیں دیتے اور ایسا لگتا ہے کہ اس کو استعمال نہ کرنے کی وجہ یہ ہے کہ کہیں یہ گھس نہ جائیں۔ چھوٹی سے چھوٹی گاڑی سے لے کر بڑی سے بڑی گاڑی ہو، انڈیکیٹر دینا ضروری نہیں سمجھا جاتا۔ اور اگر دیا بھی جاتا ہے، تو اس وقت جب سامنے سے آنے والا ڈرائیور اشارہ کرتا ہے کہ بھائی، گاڑی میں ایک انڈیکیٹر نام کا فیچر بھی ہے، جسے استعمال کر لو۔
پھر بہت غصے سے انڈیکیٹر دیا جاتا ہے۔ کیوں نہ پاکستانی اور امپورٹڈ گاڑیوں میں سے انڈیکیٹر ہٹا دیے جائیں؟ میرے خیال میں کم از کم دو سے ڈھائی لاکھ کی بچت ہو جائے گی، کیونکہ اگر پاکستان میں نئی گاڑی خریدو اور اس کے کار میٹ ہی 25 ہزار کے دیے جاتے ہیں، تو یہ تو پھر انڈیکیٹر کا نظام ہے!
گاڑیوں میں صرف ہائی بیم ہونی چاہیے، کیونکہ اب ہمارے ملک میں بڑی بڑی گاڑیوں والے فل لائٹس جلا کر چلانے کو اپنا حق سمجھتے ہیں۔ ایک سال قبل کی بات ہے کہ میں مارگلہ ہلز پر گاڑی میں جا رہا تھا اور پیچھے ایک گاڑی والا فل بیم پر لائٹس جلا کر آ رہا تھا۔
میں نے گاڑی روکی اور پیسنجر سیٹ پر بیٹھے شخص سے کہا کہ اپنے ڈرائیور سے کہیں کہ فل بیم نہ کرے کیونکہ نہ تو اس کی اجازت ہے اور مجھے ڈرائیو کرنے میں مشکل ہو رہی ہے۔ تو وہ آگے سے بولا: ’آپ راستہ دے دیں، دقت ختم ہو جائے گی۔‘ میں نے اس سے کہا کہ آپ آگے نکل جائیں۔ کچھ آگے جا کر دیکھا، تو اس سے بھی بڑی گاڑی والے نے اسے روکا ہوا تھا اور دبا کر سنا رہا تھا۔ وہی شخص اس سے کہہ رہا تھا کہ ’اب ڈرائیور فل لائٹس نہیں کرے گا۔‘ خیر، مختصراً یہ کہ اگر گاڑی میں سے فل بیم ہی ہٹا دی جائے، تو اس سے بھی خاطر خواہ کمی ہو سکے گی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
پاکستان میں آنے والی گاڑیوں میں پیٹرول بچانے والی ٹیکنالوجی پر اتنا زور نہیں دینا چاہیے۔ یہاں پر ہائبرڈ گاڑی بھی ہو، تو لوگ راؤنڈ اباؤٹ کا پورا چکر نہیں کاٹیں گے بلکہ پہلے ہی غلط سائیڈ سے گزریں گے۔
ارے بھائی، راؤنڈ اباؤٹ کا چکر کاٹنے میں کتنا ہی وقت لگ جائے اور کتنا ہی پیٹرول خرچ ہو جائے گا، لیکن نہیں جناب! انھوں نے یہ تو کرنا ہی نہیں ہے۔ اسی طرح، اگر سڑک پر دو کٹ ہیں دوسری جانب جانے کے لیے—ایک صحیح طریقے سے جانے کا راستہ ہے اور ایک جس میں آپ غلط سائیڈ پر ڈرائیو کرتے ہوئے جا سکتے ہیں—تو ہم لوگ غلط سائیڈ پر ہی جائیں گے۔
جب ہم نے اپنی عادت ہی بنا لی ہے کہ ٹریفک قوانین کی پاسداری نہیں کرنی اور غلط سائیڈ پر ہی جانا ہے، تو پیٹرول بچانے کی جدید سے جدید ٹیکنالوجی کی کیا ضرورت ہے؟ اندازہ کریں کہ اس ٹیکنالوجی کے نہ ہونے سے گاڑی کی قیمت میں کتنی کمی آ سکتی ہے۔
یہ چند چیزیں ہیں، جن کے گاڑی میں نہ ہونے کی وجہ سے پاکستانیوں کو گاڑیاں سستی ملیں گی، لیکن یہ مکمل فہرست نہیں ہے۔ اس میں پیچھے دیکھنے والا گاڑی کے اندر اور سائیڈوں پر لگے ہوئے شیشے بھی شامل ہیں، جن کو ہم استعمال نہیں کرتے۔ اور مجھے پورا یقین ہے کہ آپ لوگ بھی گاڑیاں سستی کرنے کے اس فارمولے کو مزید بہتر بنا سکتے ہیں۔
نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔