کرکٹ کی آفیشل سکورنگ: ہر بلے باز کے لیے مختلف رنگ کا قلم کیوں؟

آئی سی سی چیمپیئنز ٹرافی 2025 سمیت 32 سال سے کرکٹ میچوں کی سکورنگ کرنے والے نجم السعید نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ہر بلے باز کے سکور کا حساب رکھنے کے لیے کیا طریقہ اختیار کیا جاتا ہے۔

کرکٹ میچ میں کھلاڑیوں کے چوکوں، چھکوں، سنگل، ڈبل سکور یا آؤٹ ہونے، نہ ہونے اور نو بال کا حساب کتاب رکھنا سکوررز کا کام ہے، جن کی بدولت سکور بورڈ اپ ڈیٹ ہوتا ہے، اس لیے ہر میچ کے دوران چار آفیشل سکوررز مختلف مقامات پر فرائض انجام دیتے ہیں۔

لیکن یہ بات بہت کم لوگوں کو معلوم ہے کہ یہ سکوررز ہر بلے باز کے سکور کا حساب رکھنے کے لیے کیا طریقہ اختیار کرتے ہیں۔

پاکستان کرکٹ بورڈ (پی سی بی) کے سینیئر سکورر نجم السعید گذشتہ 32 سال سے قومی و بین الاقوامی مقابلوں میں سکورنگ کر رہے ہیں اور آئی سی سی چیمپیئنز ٹرافی 2025 میں بھی وہ میچوں کی سکورنگ کر رہے ہیں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

نجم السعید نے انڈپینڈنٹ اردو سے خصوصی گفتگو میں بتایا: ’کرکٹ کے میچوں کے دوران سکوررز کا بہت اہم کردار ہوتا ہے۔ پی سی بی کے آٹھ آفیشل سکورر ہیں، جن میں سے ایک میں ہوں۔ جب بھی پی سی بی کی میزبانی میں کوئی غیر ملکی میچ ہوتا ہے تو ہم ہی سکورنگ کے فرائض ادا کرتے ہیں۔‘

ٹیکنالوجی کے اس دور میں بھی نجم ہاتھ سے یعنی مینول طریقے سے سکور نوٹ کرنے کے حامی ہیں۔

انہوں نے بتایا: ’مینول سکورنگ ایک آرٹ ہے۔ اب اس میں جدت آگئی ہے، ویب سائٹس بن گئی ہیں، ون ٹچ سے سکور ہر طرف چلا جاتا ہے، لیکن مینول کی اہمیت پہلے دن سے آج تک موجود ہے، کیونکہ کمپیوٹر سے سکورنگ کے دوران کمپیوٹر ہینگ ہو جائے، بجلی چلی جائے یا کوئی خرابی آجائے تو کچھ بھی ہو سکتا ہے۔‘

ساتھ ہی انہوں نے بتایا کہ میچ کے دوران ہر بلے باز کے سکور کے لیے الگ رنگ کی سیاہی والا قلم استعمال کیا جاتا ہے اور اس طرح ہر کھلاڑی کی کارکردگی کو الگ سے جانچا جاتا ہے۔

بقول نجم السعید: ’مینول سکورنگ کی اہمیت کبھی ختم نہیں ہو سکتی۔ سکورنگ کا طریقہ ایک جیسا ہی ہوتا ہے، اس میں بہتر یہ ہوتا ہے کہ ہم ہر بلے باز کو ایک مخصوص رنگ دے دیتے ہیں اور اس کی ہر گیند کا ریکارڈ اسی سے رکھتے ہیں۔ وہ چوکا لگاتا ہے یا سنگل، ڈبل سکور بناتا ہے، اس کا سکور اسی کے رنگ سے درج کرتے ہیں۔

’کٹنگ بھی کرنا ہو تو اسی کے رنگ سے کرتے ہیں۔ اس سے غلطی کا چانس کم ہوتا ہے۔ فرض کریں کہ اگر ایک رنگ سے سکورنگ کر رہے ہوں اور بابر اعظم نے چوکا لگایا اور پھر ایک رن کسی دوسرے کھلاڑی نے کیا اور رنگ مخصوص نہ ہو تو غلطی سے وہ کسی اور کے ساتھ بھی لکھا جا سکتا ہے۔‘

نجم کے مطابق: ’میں نے میڈیا میں بہت سکورنگ کی تو وہ ایک سوال کرتے تھے کہ اگر کسی کھلاڑی نے دس چوکے مارے ہیں تو کس کس بولر کو کتنے چوکے یا چھکے پڑے ہیں۔ اگر ہم ایک ہی پین سے لکھیں تو یہ نہیں جان سکتے، لیکن کلر پین سے معلوم ہو جاتا کہ کس بلے باز نے کس بولر کو کتنے چوکے مارے۔‘

ساتھ ہی انہوں نے بتایا: ’میچ کے دوران امپائر سکورر کو سگنل دے رہا ہوتا ہے۔ ہمارا سکورنگ کا بورڈ ہوتا ہے، ہم اسے ہلاتے ہیں تو امپائر کو معلوم ہوجاتا ہے کہ سکورر نے سگنل لے لیا۔ یہ کام ایسا ہے کہ اس میں غلطی کا بہت احتمال ہوتا ہے، اس لیے ہمیں الرٹ ہو کر سکورنگ کرنا پڑتی ہے۔ جب عالمی میچ ہوتے ہیں تو ہم چار سکورر ہوتے ہیں۔ ایک پریس گیلری، دوسرا پویلین میں، ایک الیکٹرک بورڈ کنٹرول روم اور ایک سینٹرل روم میں تھرڈ امپائر کے ساتھ ہوتا ہے۔

’ہم واکی ٹاکی سے رابطے میں ہوتے ہیں، مثلاً کوئی بلے باز آؤٹ ہوتا ہے تو نیچے سکورر واکی ٹاکی پر بتاتا ہے کہ بابر اعظم یا کوئی اور کھلاڑی کٹ بی ہائینڈ یا کسی اور طرح آؤٹ ہو گیا۔ اس نے اتنی گیندیں کھیلیں، اتنے رنز بنائے، جس پر چاروں اپنا ریکارڈ ٹیلی (میچ) کر لیتے ہیں۔‘

انہوں نے مزید بتایا کہ سکور بورڈ آپریٹر بھی ان سے واکی ٹاکی پر رابطے میں ہوتے ہیں اور وہی نتائج ٹی وی پر دیے جاتے ہیں۔ اگر کوئی غلطی ہوتی ہے یا کوئی سکور مِس یا زیادہ ہو جاتا ہے تو اسے واکی ٹاکی کے ذریعے درست کروا دیا جاتا ہے۔

ایک واقعہ سناتے ہوئے نجم السعید نے کہا: ’ایک بار ایسا ہوا کہ گیری کرسٹن فیصل آباد میں ایک ٹیسٹ میچ کھیل رہے تھے تو ان کی لیگ بائی کا سگنل ایک سکورر نے نہیں دیکھا تو انہوں نے جب ہم سے ٹیلی کیا تو ہمارے پاس وہ لیگ بائی کا سکور تھا۔ آخر میں یہی ہوا کہ چائے کے وقفے میں ہمارے پاس وہ 98 رنز پر چل رہے تھے جبکہ پہلے سکورر کے پاس وہ 99 تھے لیکن جب ٹیلی ہوا تو سکور 98 کر دیا گیا۔ وہ ایک فرق آیا تھا، پھر جو آفیشل سکوررز نے ٹیلی کیا وہی فیصلہ ہوا، لہذا اس طرح کے فرق آتے رہتے ہیں، جنہیں پھر ٹھیک کر لیا جاتا ہے۔‘

انہوں نے بتایا کہ ’کسی بھی میچ میں سکورر کا کردار اہم ہوتا ہے۔ اگر کوئی امپائر نہ ہو تو دوسرا کھڑا کیا جاسکتا ہے، لیکن سکورنگ ہر ایک نہیں کر سکتا۔ سکورنگ کے لیے ضروری ہے کہ اسے تمام قواعد وضوابط معلوم ہوں۔ یہ سکور کہاں جائے گا، کس طرح جائے گا، بائی لیگ بائی یا پنیلٹی رنز کہاں جانے ہیں، امپائرز کے سگنلز کی معلومات ہوں کہ یہ رنز کہاں لکھنے ہیں۔‘

پی سی بی کے ریکارڈ کے مطابق نجم السعید اب تک 25 انٹرنیشنل ٹیسٹ میچوں، 63 ون ڈے انٹرنیشنل، 17 ٹی ٹوئنٹی اور پاکستان سپر لیگ کے میچوں میں سکورنگ کر چکے ہیں اور انہیں پی سی پی کا ماہر ترین سکورر سمجھا جاتا ہے۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی کرکٹ