انسانی اعضا کو رنگ دینے والی ڈاکٹر

نیدرلینڈز میں مقیم پاکستانی ڈاکٹر انعم زہرا سائنٹیفک پینٹنگز کے ذریعے انسانی جسم کے اندر ہونے والے مختلف افعال اور اعضا کے بارے میں آگہی فراہم کرتی ہیں۔

کہتے ہیں رنگ باتیں کرتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بہت سے لوگ رنگوں کی مدد سے اپنے خیالات کا اظہار مصوری کے ذریعے کرتے ہیں۔

کچھ مصور زندگیوں کی منظر کشی کرتے ہیں تو کچھ قدرتی مناظر کی، لیکن کچھ مصور ایسے بھی ہیں جو انسانی جسم کے اندر ہونے والی سرگرمیوں کو پینٹ کرنا پسند کرتے ہیں، انہیں سائنٹیفک آرٹسٹ کہا جاتا ہے۔

پاکستان میں ایسے مصوروں اور ان کے کام کے بارے میں تو ہم نہیں جانتے، ہاں مگر نیدرلینڈز میں مقیم ایک پاکستانی ڈاکٹر ایسی ہیں، جو مصوری کا بھی جنون کی حد تک شوق رکھتی ہیں۔

انعم زہرا راولپنڈی میڈیکل کالج کے طالبہ رہی ہیں اور 2014 میں ڈاکٹر شہریار میر سے شادی کے بعد نیدر لینڈز چلی گئیں، جہاں انہوں نے پریکٹس شروع کی۔

انعم نے آرٹ اور پینٹنگ کی باقاعدہ تعلیم تو کہیں سے نہیں لی مگر ان کے خیال میں یہ ہنر انہیں خدا کی طرف سے تحفے کے طور پر ملا۔ انعم اپنے سکول اور کالج کے دنوں سے ہی سائنٹیفک پینٹنگز بنا رہی ہیں، جن میں دکھایا جاتا ہے کہ ہمارے پھیپھڑے کیسے کام کرتے ہیں، ان کے اندر کتنی تہیں ہوتی ہیں، دل کیسے دھڑکتا ہے، دماغ کیسے کام کرتا ہے، ہم سانس کیسے لیتے ہیں، یہ سب کچھ انعم رنگوں کی مدد سے دکھاتی ہیں۔

انعم نے 2015 میں اپنے شوہر کے پی ایچ ڈی تھیسز کا کور (cover) بھی بنایا تھا، جس کا موضوع تھا بچوں کی نیورو انکالوجی، یعنی بچوں کے دماغ میں ٹیومر کیسے بنتے اور پھیلتے ہیں؟ اور پھر انہوں نے یہی کام شروع کر دیا۔ وہ ’آرٹ بائے انعم‘ کے نام سے کام کرتی ہیں اور اپنی پینٹنگز چیریٹی کے لیے فروخت کرتی ہیں۔

ڈاکٹر انعم نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ان کا اور ان کے شوہر کا خواب تھا کہ وہ پاکستان آکر ضرور کچھ کام کریں۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

’ہم ہمیشہ سوچتے تھےکہ کیا کریں؟ جس کے بعد گذشتہ برس ہم نے ’دی عمایا انیشی ایٹیو’ کے نام سے ایک فاؤنڈیشن بنائی۔ عمایا ہماری بیٹی کا نام ہے اور ہماری فاؤنڈیشن کا مقصد یہی ہے کہ پاکستان میں زندگی کے پہلے سال موت کے منہ میں چلے جانے والوں بچوں کو بچایا جائے، کیونکہ پاکستان میں ایسی اموات کی تعداد دنیا میں سب سے زیادہ ہے۔ یہ ہماری فاؤنڈیشن کا بنیادی مقصد ہے اور اسی لیے میں اپنا یہ آرٹ فروخت بھی کرتی ہوں اور ساری فنڈنگ ہم اس پراجیکٹ میں لگا دیتے ہیں۔‘

نیدرلینڈز میں انعم کی پینٹنگز ہسپتالوں، ڈاکٹروں کے دفاتر اور کلینکس وغیرہ میں لگی ہوئی ہیں۔ کچھ پینٹنگز بہت بڑی ہوتی ہیں جبکہ کچھ کا سائز اتنا ہوتا ہے کہ آپ آرام سے انہیں اپنی میز پر رکھ لیں۔

انعم کے خیال میں ان کی پینٹنگز صرف ڈاکٹروں یا میڈیکل کے طلبہ کو نہیں بھاتیں بلکہ دیگر افراد بھی ان کی مصوری کو پسند کرتے ہیں۔ ’ہمارے لیے تو یہ عام سی بات ہے کیونکہ ہم یہ سب روز دیکھتے ہیں مگر ایک عام شخص میرے کام کو کسی اور ہی نظریے سے دیکھتا ہے کیونکہ میں جو کچھ بھی بناتی ہوں، وہ ہم سب کے پاس ہے، یہ ہمارے بارے میں ہے۔‘

انعم کہتی ہیں کہ وہ اپنی تصاویر میں رنگ اپنے خیال یا تصور سے بھرتی ہیں مگر اس میں سائنسی پہلو حقیقت کے قریب ہوتا ہے۔ ’کبھی کبھی میں بناتی ہوں کہ ایک پھیپھڑا باہر ہے اور پھر اس کے اندر کیا ہو رہا ہے اور ایک خلیے کی سطح پر کیا ہو رہا ہے۔ یہ چیز مجھے بہت محظوظ کرتی ہے کہ میں اگر کسی کو یہ دکھا پاؤں کہ ہمارے اندر کا نظام کتنا مکمل اور خوبصورت ہے اور ہم اس کی قدر نہیں کرتے۔‘

ڈاکٹر انعم زہرا نے ایک انسٹا گرام پیج بھی بنا رکھا ہے تاکہ لوگ ان کی مصوری کو دیکھ سکیں۔ ’انسٹا گرام پر مجھے کافی لوگ ملے جو یہی کام کرتے ہیں مگر ان کا تعلق بیرون ملک سے ہے جیسے امریکہ یا کینیڈا وغیرہ۔ پاکستان سے مجھے صرف ایک دو لڑکیاں ہی ملیں جو یہ کام کر رہی ہیں، یہ کام یہاں اتنا عام نہیں۔‘

ان سائنسی پینٹنگز میں کہیں نہ کہیں پاکستانی کلچر بھی جھلکتا ہے۔ ’میں چونکہ پاکستان میں رہی ہوں تو یہاں کے رنگ مجھے متاثر کرتے ہیں، اسی لیے میری پینٹنگز میں بھی رنگ بہت زیادہ ہیں، میں سیاہ پس منظر بناتی ہوں اور بس پھر اس پر شوخ رنگوں سے کام کرتی ہوں اور مجھے لگتا ہے کہ ان رنگوں کا پاکستان سے بہت گہرا تعلق ہے۔‘

دو سالہ عمایا کی ماں ڈاکٹر انعم مصوری کے لیے دن میں دو سے پانچ گھنٹے ضرور نکالتی ہیں، پھر چاہے وہ رات کا پہر ہی کیوں نہ ہو جب ان کی بیٹی سو جاتی ہے۔

’مجھے وقت گزرنے کا پتا نہیں چلتا اور اگر آپ کو کوئی ایسی چیز مل سکے جس میں آپ کو پناہ ملے، ایسا شوق یا ایسا وقت گزارنے کا طریقہ جس سے آپ کو دلی و ذہنی سکون ملے تو ایسی چیز کو پکڑ کر رکھنا چاہیے زندگی کی بھاگ دوڑ میں۔‘

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی صحت