سعودی عرب کی وزارت برائے بلدیہ اور دیہی امور نے ریستورانوں میں مردوں اور خاندانوں کے لیے الگ الگ حصوں کی شرط ختم کردی ہے۔
وزیر ڈاکٹر ماجد القصابی نے اتوار کو دیگر شعبوں میں بھی قواعد و ضوابط سے متعلق اپ ڈیٹس کی منظوری دی۔
وزارت بلدیہ اور دیہی امور میں تکنیکی معاملات کے انڈر سیکریٹری ڈاکٹر خالد الجماز نے وضاحت کی کہ یہ اقدام ان متعدد ترامیم کا حصہ ہے جن میں 103 قواعد و ضوابط، کتابچے، نمونے، ماڈلز اور ہر قسم کی سرگرمیوں کے لیے درخواستیں بھی شامل ہیں۔
مکہ کے میئر محمد عبداللہ القیحص نے ’عرب نیوز‘ کو بتایا کہ ان ترامیم کا مقصد سرمایہ کاروں، شہریوں اور انٹرپرینورز کی زندگی آسان بنانا ہے۔
انہوں نے کہا: ’بہت ساری شرائط اور پابندیوں کو آسان کیا جائے گا، لیکن وہ کام کو صحت عامہ اور خوراک کے لحاظ سے متاثر نہیں کریں گے اور اس فیصلے سے سرمایہ کاری کے بہاؤ اور ریستورانوں کی تعداد اور اقسام میں اضافہ ہوگا۔‘
انقریب کھلنے والی ایک کافی شاپ کے مالک ناصر الشلوب نے کہا: ’مردوں اور خاندانوں کے لیے الگ الگ حصے رکھنے کی ضرورت کو ختم کرنا ایک بہترین فیصلہ تھا، کیونکہ ہم دونوں حصوں کے لیے دو کاؤنٹر بنانے کے پابند ہیں لیکن اب اس ترمیم کے ساتھ وزارت نے کام شروع کرنے اور اخراجات کم کرنے میں ہماری مدد کی ہے۔‘
انہوں نے مزید کہا: ’اس سے ہمیں فائدہ ہوگا کیونکہ ہم جگہ کا فائدہ اٹھائیں گے اور ریستوران اچھا لگے گا۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ایک آرکٹیکٹ عبدالرحمٰن الحربی نے بتایا: ’ایک اچھا ڈیزائنر گاہکوں کی پرائیویسی کے حوالے سے مختلف طریقوں سے بہتر حل پیش کرسکتا ہے۔ بڑی بڑی دیواروں کی مدد سے جگہ کو بلاک نہیں کیا جانا چاہیے۔‘
ایک ریسٹورنٹ چلانے والی روبیٰ الحربی، جو ’ٹیسٹ اینڈ ٹیل‘ کے نام سے سنیپ چیٹ استعمال کرتی ہیں، بھی اس ترمیم کے حق میں ہیں۔ ان کا کہنا تھا: ’مردوں اور خاندانوں کے لیے الگ الگ سیکشن بنانا پیسے کا ضیاع ہے، کیونکہ دونوں فریقین ریستوران کے دروازے سے باہر بھی ایک دوسرے سے مل سکتے ہیں۔‘
روبیٰ نے کہا کہ انہوں نے کافی پہلے وزارت کی ویب سائٹ پر اعلان کیے جانے سے قبل ہی یہ تبدیلی نوٹ کرلی تھی۔ انہوں نے کہا: ’میں کئی ریستورانوں میں گئی، جہاں صرف ایک ہی سیکشن تھا اور وہاں بیٹھ کر کھانے کا تجربہ ٹھیک تھا۔‘
انہوں نے مزید بتایا کہ جب ریستورانوں میں تقسیم تھی تو بہت سے مسائل تھے۔ ’فیملی والے حصوں میں رش زیادہ ہوتا تھا۔ آپ کو اکثر بیٹھنے کی جگہ بھی نہیں ملتی تھی جب کہ مردوں والا حصہ زیادہ تر خالی ہوتا تھا کیونکہ وہ خواتین کی طرح زیادہ تر ریستورانوں میں نہیں جاتے۔‘
ایک تجزیہ کار دارین راجیہ کا کہنا ہے کہ ’سعودی عرب میں لوگوں کو الجھن یا تکلیف میں مبتلا ہوئے بغیر ایک ہی جگہ پر دونوں جنسوں کے ساتھ میں بیٹھے کی عادت بنانے کی ضرورت ہے۔ ہمیں اپنی سوچ کو وسیع کرنے اور زیادہ اہم امور پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔‘