آج سے تقریباً 18 سال قبل بلوچستان کے دارالحکومت کوئٹہ کے ایک شہری اپنے ساتھی کے ہمراہ لاپتہ ہوئے جن کے بارے میں مانا جاتا ہے کہ وہ سابق صدر جنرل پرویز مشرف کے دور میں بلوچستان میں لاپتہ ہونے والے پہلے شخص تھے۔
درزی کا کام کرنے والے 44 سالہ علی اصغر بنگلزئی 18 اکتوبر 2001 کو سریاب روڈ پر واقع ڈگری کالج کے قریب سے لاپتہ ہوئے۔ ان کے ساتھی تو 20 دن واپس گھر پہنچ گئے تاہم وہ آج تک لاپتہ ہیں۔
ان کی گمشدگی پر ان کے بھتیجے نصراللہ بلوچ کا کہنا تھا کہ یہ ایک قسم کی بڑی مصیبت تھی جس نے نہ صرف بچوں بلکہ پورے گھر کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔
نصر اللہ نے یہ باتیں انڈپینڈنٹ اردو کے ساتھ آج دنیا بھر میں حقوق انسانی کے منائے جانے والے عالمی دن کی مناسبت سے کیں۔
نصراللہ بلوچ کے مطابق علی اصغر کی گمشدگی نے گھر والوں کو معاشی مسائل کا حل ڈھونڈنے کی بجائے احتجاج کرنے پر مجبور کر دیا جس نے ان کی زندگی کو بری طرح متاثر کردیا جس کے اثرات آج بھی قائم ہیں۔
نصراللہ کے بقول: ’جہاں چچا کے گھر کو ایک طرف مالی مشکلات کاسامنا رہا وہاں تلاش کا کام بھی ہمارے کندھوں پر آ گیا ہے جس کے لیے ہم نے ہر فورم سے رجوع کیا۔‘
علی اصغر بنگلزئی کے چھ بیٹے اور دو بیٹیاں ہیں۔ ان کی اہلیہ بھی 18 سالوں سے شوہر کی راہ تکتے تکتے دل کے مرض میں مبتلا ہوگئی ہیں۔
نصراللہ نے بتایا: ’میں نے چچا کے گھر والوں کے ہمراہ ان کی بازیابی کے لیے جدوجہد شروع کی اور اس کے لیے مظاہرے کیے، عدالت سے بھی رجوع کیا اور 2006-2005 میں بھوک ہڑتالی کیمپ بھی قائم کیا۔
نصراللہ کے مطابق علی اصغر کی بازیابی کا کیس ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ تک پہنچا جو 2015 تک چلتا رہا پھر التوا کا شکار ہوتا گیا۔
نصراللہ بلوچ نے بتایا کہ علی اصغر گھر کے واحد کفیل تھے۔ ان کی گمشدگی نے جہاں ایک طرف گھر کے باشندوں کو مالی مشکلات سے دوچار کر دیا بلکہ بچے نفسیاتی مسائل کا بھی شکار ہوگئے اور اسی غم کے باعث وہ توجہ اور تعلیم بھی حاصل نہ کر سکے۔
نصر اللہ بلوچ نے کہا کہ وہ اور علی اصغر بنگلزئی کے گھر والے پرامید ہیں کہ وہ زندہ ہیں اور بازیاب ہو کر واپس آئیں گے کیونکہ بلوچستان میں 10 سے 16سال تک لاپتہ رہنے والے افراد بھی بازیاب ہو کر گھر پہنچے ہیں۔
نصراللہ کے مطابق: ’اس جدوجہد کے دوران مجھے اندازہ ہوا کہ اگر کسی گھر کا فرد غائب ہوجائے تو اس کی حالت کیا ہو جاتی ہے۔
ان کے چچا کی گمشدگی ہی ان کی تنظیم وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کی بنیاد بنی۔ 2009 میں قائم ہونے والی اس تنطیم نے دیگر لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے بھی جدوجہد شروع کی۔
نصراللہ وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے چیئرمین ہیں جو بلوچستان میں لاپتہ ہونےوالے افراد کے لواحقین کی مدد کرتی ہے اور ان کی تفصیلات بھی جمع کرتی ہے۔
تنظیم کے وائس چیئرمین ماما قدیر بلوچ بھی اس جدوجہد میں نصر اللہ کے ساتھ شامل ہیں اور وہ لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے کوئٹہ میں 2009 سے کیمپ بھی لگائے ہوئے ہیں۔
وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے اعداد وشمار کے مطابق بلوچستان سے اب تک چھ ہزار کے قریب افراد لاپتہ ہوئے ہیں۔ تاہم حکومت کا کہنا ہے کہ یہ اعدادوشمار بڑھا چڑھا کر پیش کیے جاتے ہیں اور دراصل لاپتہ افراد کی تعداد بہت کم ہے۔
البتہ نصراللہ بلوچ کے مطابق بلوچستان نیشنل پارٹی کی طرف سے قومی اسمبلی میں جمع پانچ ہزار سے زائد لاپتہ افراد کی رپورٹ بھی ان کی فراہم کردہ ہے۔
انہوں نے کہا: ’ہم نے لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے جدوجہد جاری رکھی ہوئی ہے جس کے لیے ہم ان کی معاونت اور کیسز میں مدد کے علاوہ ان کا ڈیٹا بھی جمع کرتے ہیں۔‘
نصراللہ بلوچ سمجھتے ہیں کہ اگرچہ اب تک کوئی دو سو کے قریب لاپتہ افراد بازیاب ہوچکے ہیں لیکن ان میں سے طویل عرصے سے لاپتہ افراد میں سے صرف ایک شخص بازیاب ہوا ہے۔
نصراللہ بلوچ نے بتایا کہ ’موجودہ حکومت کے قیام کے بعد ہم سے مذاکرات کیے گئے اور لاپتہ افراد کی فہرست طلب کی گئی اور ہم نے اب تک انہیں 400 لاپتہ افراد کی لسٹ فراہم کر دی ہے۔‘
لاپتہ افراد ایک سنگین مسئلہ
انسانی حقوق کمیشن بلوچستان چیپٹر کے مطابق بلوچستان میں جہاں بہت سے انسانی حقوق کے مسائل ہیں وہاں لاپتہ افراد کا مسئلہ ایک اہم سنجیدہ مسئلہ ہے کیونکہ آج بھی لوگ لاپتہ ہو رہے ہیں۔
کمیشن کے بلوچستان چیپٹر کے چیئرمین حبیب طاہر ایڈووکیٹ نے کہا کہ ’بلوچستان کافی عرصے سے تکلیف میں ہے۔ یہاں کے باشندوں کو انسانی حقوق کے بہت سے سنجیدہ مسائل کا سامنا ہے۔‘
حبیب طاہر کے بقول ’لاپتہ افراد کی تعداد حقیقی طور پر کسی کے پاس نہیں کیونکہ بہت سے واقعات انسانی حقوق کمیشن کے پاس نہیں آتے۔ ہم صرف میڈیا کے پاس آنے والے معلومات پر اکتفا کرتے ہیں۔‘
حبیب طاہر ایڈووکیٹ سمجھتے ہیں بلوچستان میں حالیہ دنوں میں چند خواتین کو جس طرح میڈیا میں پیش کیا گیا وہ انتہائی قابل مذمت عمل ہے۔ ان کا اشارہ گزشتہ دنوں چار بلوچ خواتین کی گرفتاری کی خبر کی جانب ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ خواتین پسماندہ علاقے کی ہیں اور بلوچستان کے قبائلی معاشرے میں خواتین کو اس طرح پیش کرنے کو اچھی نظر سے نہیں دیکھا جاتا۔
انہوں نے مزید کہا کہ انسانی حقوق کمیشن نے ایک فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ بھی بلوچستان کے حوالے سے جاری کی ہے جس میں لاپتہ افراد کے علاوہ بلوچستان یونیورسٹی میں طلبہ کی ہراسانی کے واقعات کی نشاندہی اور دیگر انسانی حقوق کے مسائل کو سامنے لایا گیا ہے۔
انہوں نے بتایا: ’ہماری اطلاعات کے مطابق بلوچ ہیومن رائٹس کا دعویٰ کہ آواران سے گرفتار کردہ خواتین کو پہلے لاپتہ کیا گیا بعد میں گرفتاری ظاہر کر کے مقدمہ درج کیا گیا۔‘
حبیب طاہر نے کہا کہ یہاں کے حالات کی بہتری کے لیے اس طرح کے اقدامات سے گریز کرنا ہوگا اور یہاں کے عوام سے بات کرنا ہوگی اور اصل مسائل کو ترجیح دینا ہوگی جس کے بغیر امن کی بحالی مشکل ہے۔
حکومتی موقف
دوسری جانب بلوچستان حکومت کے اختیاردار سمجھتے ہیں کہ یہ حکومت لاپتہ افراد سمیت دیگر مسائل کے حل کے حوالے سے سنجیدگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ان کے حل کے لیے ترجیحی بنیادوں پر اقدامات کر رہی ہے۔
وزیر اعلیٰ بلوچستان کے فوکل پرسن عظیم کاکڑ کا کہنا ہے کہ ’صوبے کے حالات خراب کرنے میں غیرملکی عناصر کا بہت بڑا ہاتھ ہے جبکہ بدقسمتی سے ہم داخلی طور پر بھی انتشار کا شکار رہے ہیں اور لاپتہ افراد کے مسئلے کا فائدہ دشمن قوتوں نے زیادہ اٹھایا۔‘
عظیم کاکڑ کے مطابق حکومت کے قائم ہونے کےساتھ جب جام کمال نے وزارت اعلیٰ کا حلف اٹھایا تو انہوں نے کہا کہ لاپتہ افراد کی بازیابی ان کی ترجیحات کا حصہ ہے۔
ان کے بقول نہ صرف صوبائی حکومت نے اس مسئلے کے حل کے لیے اقدامات شروع کر دیے بلکہ لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے قائم کمیشن نے بھی یہاں آ کر سماعت شروع کی۔
عظیم کاکڑ نے بتایا کہ حکومت چونکہ قبائلی روایات کی پابند ہے اس لیے وہ نہیں چاہتی کہ لاپتہ افراد کے لواحقین، خواتین اور بچے سڑکوں پر بیٹھے رہیں جس کے لیے انہوں نے حکومت کے چھ ماہ پورے ہونے کے بعد لاپتہ افراد کی تنظیم کےساتھ بات کی اور مشترکہ پریس کانفرنس میں لائحہ عمل کا اعلان بھی کیا۔
عظیم کاکڑ کے مطابق ’ہم نے لاپتہ افراد کی تنظیم کو یقین دلایا کہ ہم ثابت کریں گے کہ حکومت لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے کس حد تک سنجیدہ ہے جس کے نتائج کی گواہی وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے سوشل میڈیا اکاؤنٹس بھی دیتے ہیں۔‘
عظیم کاکڑ کے مطابق بلوچستان حکومت کی کوششوں سے اب تک چار سو لاپتہ افراد بازیاب ہو کر اپنے گھروں کو لوٹ چکے ہیں۔
لاپتہ افراد کی تعداد کے حوالے سے عظیم کاکڑ نے بتایا کہ ہمارے اعداد وشمار کے مطابق لاپتہ افراد کی تعداد آٹھ سے نو سو کے قریب ہے جبکہ بعض سیاسی جماعتیں اپنے مفادات کے لیےاسے زیادہ ظاہر کرتی ہیں۔
گوکہ حکومت کا دعویٰ ہے کہ وہ لاپتہ افراد کی بازیابی کے حوالے سے سنجیدہ ہے تاہم انسانی حقوق کمیشن سمجھتی ہے کہ اس مسئلہ کو مزید سنجیدگی سے دیکھنا ہو گا کیونکہ اب بھی اطلاعات مل رہی ہیں کہ لوگوں کو لاپتہ کرنے کا سلسلہ جاری ہے۔