لاہور میں پنجاب انسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجی میں گذشتہ روز پیش آنے والے واقعے کے بعد شادمان پولیس نے تعزیراتِ پاکستان اور انسدادِ دہشت گردی ایکٹ کی مختلف دفعات کے تحت ہنگامہ آرائی کرنے والے وکلا کے خلاف رات گئے دو مقدمات درج کرلیے۔
درج کیے جانے والے دو الگ الگ مقدمات میں پہلا مقدمہ ہسپتال کے عملے کے ایک رکن کی مدعیت میں 250 سے زائد وکلا کے خلاف قتلِ خطا، کارِ سرکار میں مداخلت، دہشت پھیلانے، ہوائی فائرنگ کرنے، زخمی اور بلوہ کرنے، لوٹ مار، عورتوں پر حملہ کرنے اور سرکاری مشینری اور نجی و سرکاری املاک کو نقصان پہچانے کی دفعات کے تحت درج کیا گیا ہے۔
دوسرا مقدمہ پولیس کی مدعیت میں درج کیا گیا ہے جس میں پولیس وین کو جلانے اور پولیس پر حملہ آور ہونے جیسے الزامات کے تحت دفعات لگائی گئی ہیں۔
ایف آئی آر میں لاہور بار کے جنرل سیکرٹری اور نائب صدر سمیت 21 وکلا کو نامزد کیا گیا ہے۔
ایف آئی آر کے مطابق: ’وکلا نے نرسز ہاسٹل میں موجود خواتین کو ہراساں اور زدوکوب کیا۔‘
دوسری جانب پنجاب انسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجی (پی آئی سی) میں گذشتہ روز وکلا کے ہنگامے کے دوران کی گئی توڑ پھوڑ، ڈاکٹروں سے جھگڑے اور ہنگامہ آرائی کے بعد وکلا کی گرفتاریوں کے خلاف پنجاب بار کونسل نے آج ہڑتال اور احتجاج کی کال دے رکھی ہے جب کہ ڈاکٹروں نے بھی احتجاج کا اعلان کیا ہوا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اس صورت حال سے نمٹنے کے لیے صوبائی محکمہ داخلہ نے وزیراعلیٰ سیکرٹریٹ، سول سیکرٹریٹ اور پی آئی سی کے باہر رینجرز کی نفری تعینات کرنے کا حکم دے دیا۔ دل کے امراض کا علاج کرنے والے پنجاب کے سب سے بڑے ہسپتال میں ہنگامہ آرائی پر وزیر اعظم اور وزیر اعلیٰ پنجاب بھی معاملہ حل کرنے کے لیے کوشاں ہیں۔
وزرا اور پولیس کے درمیان کھینچاتانی اور ہاتھا پائی پر لاہور بار کے صدر عاصم چیمہ سمیت 30 سے زائد وکلا کو پولیس نے حراست میں لیا تھا، جنہیں عدالت میں پیش کرنا بھی ایک چیلنج کی صورت اختیار کر گیا ہے۔
وزرا اور ڈاکٹروں کا موقف
پی آئی سی میں ہونے والے واقعے کے بعد صوبائی وزرا راجہ بشارت، یاسمین راشد اور فیاض الحسن چوہان نے مشترکہ پریس کانفرنس میں کہا کہ ’وکلا اور ڈاکٹر، حکومت کے لیے دونوں طبقات قابل احترام ہیں لیکن جنہوں نے قانون ہاتھ میں لیا، دہشت پھیلائی اور توڑ پھوڑ کی، ان کے خلاف قانون کے مطابق کارروائی ضرور ہوگی۔‘
وزرا نے کہا کہ ’حکومت کسی سے زیادتی کے حق میں نہیں لیکن قانون ہاتھ میں لینے کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔ انکوائری کی جارہی ہے، جس کے بعد قانون حرکت میں ضرور آئے گا۔‘
دوسری جانب چیئرمین گرینڈ ہیلتھ الائنس ڈاکٹر سلمان حسیب نے دیگر عہدیداروں کے ہمراہ پریس کانفرنس میں کہا کہ ’یہ واقعہ حکومت کی ناکامی ہے۔ ہمیں پولیس پر بھروسہ نہیں، لہذا رینجرز سکیورٹی پر تعینات کی جائے۔‘
انہوں نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ’جنگوں میں بھی ہسپتالوں پر حملہ نہیں کیا جاتا، اس واقعے کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے۔‘
ان کا مزید کہنا تھا: ’وکلا ابھی بھی باز نہیں آئیں گے، انہوں نے دوبارہ حملے کا منصوبہ بنا رکھا ہے۔‘
ڈاکٹرز کے مطابق: ’حملے کے وقت پولیس اور وزرا کو کال کی گئی لیکن کوئی وقت پر مدد کو نہیں آیا۔ آپریشن تھیٹرز اور وارڈز میں ڈاکٹروں، نرسنگ سٹاف اور گارڈز پر بیہمانہ تشدد کیا گیا۔‘
انہوں نے مطالبہ کیا کہ حملے میں ملوث وکلا کے خلاف دہشت گردی ایکٹ کے تحت مقدمہ درج کر کے فوجی عدالتوں میں مقدمہ چلایاجائے۔
انہوں نے یہ مطالبہ بھی کیا کہ پنجاب کے وزیر صحت، وزیر قانون اور وزیر اعلیٰ پنجاب ہسپتالوں کو سکیورٹی دینے میں ناکام رہے، لہذا وہ عہدوں سے مستعفی ہوں۔
ڈاکٹروں نے تین روز تک ہسپتالوں میں یوم سیاہ منانے اور ہڑتال کے دوران صرف ایمرجنسی کھلی رکھنے کا بھی اعلان کیا۔
وکلا کی حکمت عملی
پی آئی سی واقعے میں وکلا کی گرفتاریوں کے خلاف وکلا کا احتجاج مال روڑ پر جاری رہا جب کہ پنجاب بار کونسل نے ہڑتال اور احتجاج کی کال بھی دے دی۔
سپریم کورٹ بار کے سابق سیکرٹری جنرل آفتاب باجوہ نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ ’وکلا کے خلاف کارروائی پر تمام وکلا قانونی چارہ جوئی کریں گے۔ وکلا کی گرفتاریوں کی مذمت کرتے ہیں، تاہم پی آئی سی میں پیش آنے والے واقعے پر بھی افسوس ہے۔‘
ان کا مزید کہنا تھا: ’یہ بدقسمتی ہے کہ ہم پڑھے لکھے ہوکر قانون ہاتھ میں لیں۔ اگر کوئی زیادتی ہو تو عدالتیں موجود ہیں، لیکن ڈاکٹروں اور پولیس کو بھی اپنے رویے پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔ وہ خود لڑائی جھگڑے کو ہوا دیتے رہے، اگر وکلا کے ایک گروپ کی جانب سے احتجاج کیا جا رہا تھا تو اسے احسن انداز میں نمٹایا جا سکتا تھا۔‘
ذرائع کے مطابق وکلا نے جمعرات کے روز بھی احتجاج کی حکمت عملی بنا رکھی ہے۔ ہائی کورٹ سے ریلی کی صورت میں وکلا احتجاج کے لیے پی آئی سی کے سامنے آئیں گے۔
اس کے علاوہ پولیس کی جانب سے حراست میں لیے گئے وکلا کو ریمانڈ کے لیے عدالت میں پیش کرنا بھی کسی امتحان سے کم نہیں ہوگا کیوں کہ اس موقعے پر بھی وکلا موجود ہوں گے، جن کا اکٹھا ہونا کسی بھی تصادم کا باعث بن سکتا ہے۔ اس بارے میں پولیس حکام کی جانب سے جامع حکمت عملی بنائی جا رہی ہے۔
پی آئی سی انتظامیہ کی ابتدائی رپورٹ
ایڈیشنل میڈیکل سپرنٹنڈنٹ پی آئی سی کی جانب سے چیف سیکرٹری پنجاب کو بھجوائی گئی واقعے کی ابتدائی رپورٹ میں کہا گیا کہ وکلا کے ہجوم نے ایمرجنسی کے بعد پی آئی سی کی مرکزی بلڈنگ کا رخ کیا، شیشے توڑے گئے اور پارکنگ میں کھڑی 30 سے زائد گاڑیوں کو نقصان پہنچایا گیا۔ وکلا کے تشدد سے ہسپتال کا ایک سیکیورٹی گارڈ بھی زخمی ہوگیا۔
رپورٹ کے مطابق وکلا نے اسپتال کی ایمرجنسی میں داخل مریضوں کے ورثا سے بھی مارپیٹ کی۔ علی سرجیکل آئی سی یومیں داخل مریض وکلا کی طرف سے پھینکے جانے والے پتھروں کا نشانہ بھی بنے۔ اس صورت حال میں مریض جانیں بچانے کے لیے بھاگ دوڑکرتے رہے اور اسی دوران ایک خاتون مریضہ گلشن بی بی کے جاں بحق ہونے کی بھی اطلاع ملی۔
وکلا نے ہسپتال میں موجود میڈیا کے نمائندوں کو بھی تشدد کا نشانہ بنایا۔ وکلا کے ہسپتال میں داخل ہونے سے قبل دو خواتین اورایک مرد وکیل ہسپتال کی ویڈیو بناتے رہے۔
رپورٹ کے مندرجات کے مطابق پی آئی سی کے ایمرجنسی گیٹ پر پولیس پہلے ہی تعینات کردی گئی تھی، وکلا کے ہجوم نے گیٹ سے اند رداخل ہونے کی کوشش کی اور اسلحہ لہراتے رہے۔ وکلا نے ایمرجنسی پر پتھراؤ کیا، ہسپتال کے عملے کو زدوکوب بھی کیا گیا۔
رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا کہ وکلا نے ڈاکٹر صدف، ڈاکٹر فضہ اورڈاکٹر ریحان پر تشدد کیا اور ان سے موبائل فون بھی چھین لیے۔ ڈیوٹی پرموجود چند دیگر ڈاکٹروں کو بھی تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔