شمالی لبنان میں مشتعل ہجوم نے دو بڑی سیاسی جماعتوں کے دفتر نذر آتش کر دیے۔
یہ حملے ایک ایسے وقت پر ہوئے جب دو مہینے پہلے شروع ہونے والے ملک گیر مظاہروں کے بعد دارالحکومت بیروت میں حکومت نے کچھ گھنٹے قبل ہی مظاہرین کے خلاف پرتشدد کریک ڈاؤن کا آغاز کیا۔
لبنانی سکیورٹی فورسز نے شہر کے مرکز اور پارلیمنٹ کے اطراف میں مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے ہفتے کی رات تمام وقت ربڑ کی گولیاں برسائیں، آنسو گیس کے شیل پھینکے اور واٹر کینن کا استعمال کیا۔
لبنانی سول ڈیفنس اور ہلال احمر کے مطابق رات بھر جاری رہنے والی جھڑپوں کے نتیجے میں 130 افراد زخمی ہوئے۔
اتوار کو شمالی ضلعے اکر میں حملہ آوروں نے مستعفی ہونے والے وزیر اعظم سعد حریری کی سیاسی جماعت کے مقامی دفتر کو آگ لگا دی۔
اکر کے ہی ایک اور علاقے میں حملہ آوروں نے پارلیمنٹ میں سب سے بڑی جماعت اور صدر مائیکل آون سے جڑی جماعت کے دفتر پر حملہ کر دیا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
پارٹی کا کہنا ہے کہ جدیدت الجمع علاقے میں واقع اس دفتر کی اشیا کو بھی آگ لگائی گئی۔
لبنان کئی دہائیوں میں سب سے خراب معاشی صورت حال کا سامنا کر رہا ہے اور مظاہرین پچھلی تین دہائیوں سے حکومت کرنے والی اشرافیہ پر بدعنوانی اور بد انتظامی کا الزام عائد کر رہے ہیں۔
حالیہ تشدد ایسے وقت پر ہوا جب صدر نئے وزیر اعظم کے نام پرغور کے لیے مختلف پارلیمانی حلقوں سے پیر کو ملاقاتیں کریں گے۔
وزیر داخلہ رایا الحسن نے اتوار کو جھڑپوں پر ’تشویش، دکھ اور صدمے‘ کا اظہار کرتے ہوئے پرتشدد جھڑپوں کی تحقیقات کا حکم دیا ہے۔
انہوں نے کہ الزام لگایا کہ ’در انداز‘ صورت حال کو مزید خراب کر رہے ہیں اور مظاہرین کو چاہیے کہ وہ سیاسی مقاصد کے لیے ان کے احتجاج کا فائدہ اٹھانے والوں پر نظر رکھیں۔
ملک گیر احتجاج کا آغاز 17 اکتوبر کو ہوا تھا جس کے دو ہفتے بعد سعد رفیق کی حکومت مستعفی ہو گئی تھی۔ اس کے بعد سیاسی جماعتیں نئی کابینہ کی تشکیل اور ڈھانچے کے معاملے پر آمنے سامنے ہیں جبکہ مظاہرین سیاسی جماعتوں سے پاک ٹیکنوکریٹ حکومت کا مطالبہ کر رہے ہیں۔
کئی ہفتے کی تگ و دو کے بعد حریری ایک مرتبہ پھر وزیر اعظم کے عہدے کے لیے مضبوط امیدوار کے طور پر ابھر رہے ہیں۔