ہماری روایات و دستور کا دائرہ کار صرف عورتوں کے گرد ہی کیوں تنگ کیا جاتا ہے؟ قبائلی روایات کی پاسداری کرنا ہم پختون قبائلی خواتین اپنا ایمان سمجھتی ہے لیکن کچھ رسم و رواج ایسے ہیں جن میں خواتین کے ساتھ بہت زیادہ حق تلفی کی جاتی ہے۔ ان میں سےایک بچپن کے رشتے جس کو سوارہ کہا جاتا ہے شامل ہے۔
پیدا ہوتے ہی یا کم عمری میں ہی گھر والے بچوں کے رشتے کر دیتے ہیں جس میں 85 فیصد گھر کے اندر ہی طے کر دیے جاتے ہیں۔ ان میں اکثریت چچازاد، ماموں ذاد وغیرہ کے ساتھ ہوتے ہیں۔ جیسے جیسے وقت گزرتا ہے اور ان بچوں کو سمجھ آنے لگتی ہے تو ان کو بتایا جاتا ہے کہ آپ کا رشتہ تو بچپن ہی میں طے ہو چکا ہے۔ یہ خبر دونوں لڑکے اور لڑکی کے لیے تکلیف دہ ہوتی ہے۔
شادی سے انکار گویا روایت اور دستور سے بغاوت سمجھا جاتا ہے۔ یہ قبائلی رسم و رواج میں ناممکن کے برابر ہے اور اس کا تصور بھی نہیں کیا جاتا اور نہ خاندان والے ان کو اس بات کی اجازت دیتے ہیں کہ وہ اس رشتے سے انکار کر کے بغاوت کریں۔ لہذا نہ چاہتے ہوئے بھی خاندانی روایات اور عزت و وقار کی خاطر یہ شادی کر لی جاتی ہے۔
سمجھوتے کا یہ رشتہ بہت کم ہی کامیاب ہوا ہے۔ مشاہدہ ہے کہ اکثر ایسے شادیوں میں ازدواجی زندگی مسائل کا شکار رہتی ہے۔ مجبوراً ایک دوسرے کے ساتھ زندگی گزارنی پڑتی ہے۔ شادی تو ایک ہم خیال خوشگوار زندگی کا نام ہے لیکن اسں زبردستی کی شادی میں معاملہ ہی کچھ اور ہوتا ہے۔ چھوٹی چھوٹی بات پر اعتراضات شروع ہوتے ہیں۔ آئے روز کے ان مسائل سے چھٹکارا پانے کے لیے مردوں کے پاس دوسری، تیسری اور چوتھی شادی کا آپشن تو موجود ہوتا ہے جس سے وہ اپنی زندگی کو خوشگوار بنا سکتے ہیں لیکن عورت کے لیے سارے راستے بند ہو جاتے ہیں۔ اگر وہ طلاق لے تو بھی دنیا کیا کہے گی؟ یہ سوچ اسے اس بات سے روکتی ہے اور خاندان والے بھی اس سے روکنے کی کوشش کرتے ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
دوسری شادی کی اجازت دینا بھی کوئی معمولی بات نہیں وہ بھی ایک کربناک مرحلہ ہوتا ہے جہاں عورتیں اپنے حق سے محروم رہ جاتی ہیں۔ آخر کب تک ہم رسم و رواج روایات کی چکی میں پستے رہیں گے اور سزا صرف عورتوں کے حصے میں ہی کیوں آتی ہے؟
کیا ہم صرف روایات و دستور کے علاوہ اسلام کے تعلیمات کو بھی بروئے کار لائیں گے اور شادی میں دونوں کی رضامندی لینا پر جو کہ بہت ضروری ہے مکمل عمل کریں گے؟
ان تمام معاشرتی مسائل سے چھٹکارا حاصل کیا جا سکتا ہے۔ اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے لہذا ہم اپنی روایت و دستور کے ساتھ اسلامی قوانین کی پاسداری کر کے ایک خوشگوار زندگی گزار سکتے ہیں۔
قبائلی خواتین شادی کے فیصلے کے حق سے محروم ہیں۔ آخر کیوں؟ ہمارے اسلامی تعلیمات پر مکمل عمل پیرا ہونے سے ہم اپنی زندگی کے مسائل کو کم کر سکتے ہیں۔ آخر ہم لوگ رسم ورواج کی اتنی پابندی کیوں کرتے ہیں کہ اسلامی تعلیمات کو بھول جاتے ہیں... اور عورتوں کو جو حق اسلام نے دیا ہے اس کی خلاف ورزی کرتے ہیں....اسلام سے دوری ہی تمام مسائل کا سبب ہے۔