سابق قبائلی علاقوں میں خواتین کے غیر معمولی اجتماعات

ایک سیمینار میں شامل خاتون کا کہنا تھا کہ اکثر والدین کو ایجوکیشن کی وجہ سے بھی لڑکیوں کو یونیورسٹی نہیں جانے دیتے، قبائلی لڑکیوں کے لیے اگر علیحدہ یونیورسٹی یا تعلیم کا الگ انتظام ہو تو شاید زیادہ تعداد میں خواتین فائدہ اٹھا سکیں۔

قبائلی علاقے کی نوجوان لڑکیاں انگریزی سیکھنے میں بڑی دلچسپی رکھتی ہیں۔ فاٹا یونیورسٹی میں ایک سیمینار کے دوران خواتین طلبہ بھی بڑی تعداد میں موجود تھیں (انڈپینڈنٹ اردو)

سابق قبائلی علاقوں میں ایسے اجتماعات محض غیر معمولی ہی قرار دیئے جاسکتے ہیں۔ بیس پچیس باپردہ خواتین پاڑہ چنار کے مرکز میں واقع پریس کلب کی پہلی منزل پر قائم ہال میں میز کے اردگرد جمع ہیں۔ اس کے چند ماہ بعد قبائلی علاقوں کی پہلی یونیورسٹی کے ہال میں ایک کونے میں تقریبا اتنی ہی تعداد میں نوجوان لڑکیاں برقعوں اور چادروں میں ایک اور سیمینار میں شریک ہیں۔

شرکا کی تعداد کے اعتبار سے تو دونوں اجتماعات کو شاید زیادہ اہمیت نہ دی جائے لیکن اسے یقینا ایک چھوٹا مگر پہلا اہم قدم قرار دیا جا سکتا ہے۔ دونوں مواقع پر دیکھا گیا کہ اگر قبائلی خواتین کو مناسب، باعزت اور محفوظ ماحول فراہم کیا جائے تو وہ بھی آگے بڑھنا چاہتی ہیں۔ وہ اپنے خاندان، علاقے اور ملک کی ترقی میں اتنا ہی اہم کردار ادا کرسکتی ہیں جتنا کہ شاید دیگر حصوں میں خواتین کر رہی ہیں۔

قبائلی علاقے کی نوجوان لڑکیاں انگریزی سیکھنے میں بڑی دلچسپی رکھتی ہیں۔ امریکی سفارت خانہ ان کے لیے ایک خصوصی تدریسی کورس بھی چلا رہا ہے جس میں وہ بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہی ہیں۔ اس بات پر حیرت ہوئی تو فاٹا یونیورسٹی کی بی ایس میں پڑھنے والی ایک طالبہ روحیلہ اسلام سے پوچھا کہ انگریزی میں ایسا کیا ہے؟

ان کا کہنا تھا کہ ’یہ زبان بہت ضروری ہوگئی ہے۔ (ملازمت کے) انٹرویوز اسی زبان میں ہوتے ہیں اور کئی جگہ پر کام آتی ہے۔‘ آپ اس غیرملکی زبان پر جتنی بھی تنقید کر لیں اس کی اہمیت اپنی جگہ برقرار ہے اور قبائلی علاقوں کی خواتین اگر اسے اہم سمجھتی ہیں تو پھر یہ واقعی اہم ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

سال 2004 میں میران شاہ کے پولیٹکل ایجنٹ کے دفتر کے باہر ایک فائل اٹھائے ملاقات کا متمنی ایک والد مجھے آج تک نہیں بھولتا۔ دریافت کیا کیوں ملنا چاہ رہے ہیں تو اس کا کہنا تھا کہ ان کی بیٹی نے پرائمری سکول مکمل کر لیا ہے لیکن سیکنڈری سکول پانچ میل دور ہے اور وہاں اسے بھیجا نہیں جاسکتا، تو پولیٹکل ایجنٹ صاحب کو درخواست کرنے آیا ہوں کہ ہماری لڑکیوں کے پرائمری سکول مزید اپ گریڈ کر دیں تاکہ میری بیٹی تعلیم جاری رکھ سکے۔

یہی بات مجھے 15 سال بعد فاٹا یونیوسٹی میں ایک طالبہ کے منہ سے دوبارہ سننے کو ملی ۔ روحیلہ اسلام نے بتایا کہ اگر درہ آدم خیل میں یہ یونیورسٹی نہ ہوتی تو انہیں پڑھنے کے لیے کوہاٹ یا پشاور جانا پڑتا جس پر کم ہی بچیوں کے والدین رضامند ہوتے ہیں۔

ٹرائبل یوتھ موومنٹ کی سرگرم رکن نائلہ الطاف نے ایک اور بڑے مسئلے کی جانب توجہ مبذول کروائی اور وہ تھا کو ایجوکیشن یعنی مخلوط نظام تعلیم۔ ان کا کہنا تھا کہ اکثر والدین اس وجہ سے بھی لڑکیوں کو یونیورسٹی نہیں جانے دیتے۔ ان کی تجویز تھی کہ قبائلی لڑکیوں کے لیے علیحدہ یونیورسٹی یا اسی ادارے میں تعلیم کا الگ انتظام ہو تو شاید زیادہ تعداد میں خواتین فائدہ اٹھا سکیں۔ انہوں نے ایک اور بڑی زبردست بات کی کہ قبائل کو اکثر ’ایمگرنٹ‘ بننا پڑتا ہے، کبھی تعلیم کے لیے تو کبھی روزگار کے لیے اپنے علاقے چھوڑنے پڑتے ہیں تو بہتر ہوگا اگر حکومت انہیں ان کی دہلیز پر یہ مواقع مہیا کرسکے۔

بشری محسود بھی قبائلی علاقوں سے سماجی سرگرمیوں کی وجہ سے ایک ابھرتا نام ہیں۔ انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ قبائلی لڑکیوں کو اپنے اندر خود اعتمادی بڑھانا ہوگی۔ ’اچھے کاموں کے لیے آگے بڑھیں تو خود لوگ سپورٹ کریں گے۔‘

پریس کلب، پاڑہ چنار میں جمع خواتین اپنے مسائل پر کھل کر بات کرتے ہوئے (انڈپینٹ اردو)

پاڑہ چنار کے پریس کلب میں موجود خواتین اساتذہ اور طالبات کو چائے پیش کی گئی لیکن پردے کی وجہ سے وہ پینے سے قاصر تھیں۔ غیرمردوں کی موجودگی میں نقاب اٹھانا ممکن نہیں تھا تو چائے تو نہ پی لیکن اہم باتیں ضرور کیں۔ پوچھا باقی علاقے کی خواتین کس طرح سوشل میڈیا کے ذریعے آپس میں تبادلہ خیال کرسکتی ہیں؟ کیا کوئی ایسے واٹس ایپ گروپس موجود ہیں؟ تو ان میں سے ایک نے ہنستے ہوئے کہا کہ یہاں تو سارا سارا دن بجلی نہیں ہوتی تو موبائل کیسے چارج کریں اور اگر کر بھی لیں تو انٹرنیٹ ہی اتنا زیادہ دستیاب نہیں۔

ایک استانی نے کہا کہ پڑھانے والوں کے لیے ایک ایک کلاس میں 60 بچیوں کو پڑھانا آسان نہیں۔ دوبارہ تعلیم نسواں کی اہمیت کا قبائلی علاقوں میں احساس ہوا۔ انہوں نے استانیوں کے شیرخوار بچوں کے لیے درس گاہوں میں الگ کمرے کا مطالبہ بھی کیا۔ انہوں نے شکایت کی کہ کھیلوں کے ذریعے وہ سب مل لیا کرتی تھیں لیکن صوبائی حکومت نے ان دنوں کھیلوں کے مقابلوں پر بھی کوئی وجہ بتائے بغیر پابندی عائد کر دی تھی۔ معلوم نہیں وہ اٹھا لی گئی ہے یا برقرار ہے۔

قبائلی علاقوں میں تعلیمی شعبے کے علاوہ کوئی دوسرا شعبہ خواتین کی ملازمت کے لیے موزوں نہیں سمجھا جاتا۔ ایک عام خاتون اگر وہاں سے صحافت کر رہی ہیں تو وہ نام بدل کر، اصلی نام سے نہیں۔

فاٹا یونیورسٹی کی روحیلہ بھی پڑھ کر اسی درس گاہ میں بطور لیکچرار اگلی نسل کی تربیت کرنا چاہتی ہیں۔ فی الحال اس کی ضرورت بہت ہے اور ان کے لیے حالات انتہائی سازگار، لیکن قبائلی خواتین کو اگر ہر میدان میں اپنا اہم کردار ادا کرنا ہے تو انہیں تمام شعبوں میں مہارت حاصل کرنا ہوگی۔  

ہر کوئی جانتا ہے کہ قبائلی علاقوں میں ایف سی آر کے خاتمے کے بعد بہت کچھ کرنا باقی ہے۔ رفتار سست ہے اور لوگوں کی توقعات بہت زیادہ۔ ایسے میں امید کی جاسکتی ہے کہ مردوں کے اکثریت والے سرکاری منصوبہ ساز محض مردانہ ضروریات پر زیادہ توجہ نہیں دی گے۔ اگر آگے بڑھنا ہے تو گاڑی کے دوسرے پہیے کو بھی ساتھ لے کر ان کو سہولتیں دے کر ساتھ لے جانا ہوگا۔  

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی خواتین