خیبر پختونخوا کی مختلف سیاسی جماعتوں نے اپنے اپنے دور حکومت میں پشاور کی آرائش و زیبائش پر کسی نہ کسی طور توجہ دی ہےجس کے نتیجے میں مختلف منصوبے عمل میں لائے گئے۔ لیکن حال یہ ہے کہ ان میں سے آدھے سے زیادہ منصوبے یا تو غیر حقیقی ہونے کی وجہ سے دیرپا ثابت نہ ہو سکے یا پھر خیال نہ رکھنے کی وجہ سے ناکارہ ہو گئے۔
جب بھی حکمرانوں کی جانب سے پشاور کی خوبصورتی کی بات ہوتی ہے تو اکثر تاریخی مقامات کو بھی کسی نہ کسی منصوبے کا حصہ بنا کر سوچا جاتا ہے۔ ان ہی مقامات میں ایک جناح باغ یا جناح پارک بھی ہے جو کہ نہ صرف تاریخی لحاظ سے اہمیت کا حامل ہے بلکہ محل وقوع کے اعتبار سے بھی کافی کشش رکھتا ہے۔
تقریباً پچھلی تین دہائیوں سے اس باغ میں پودوں اور درختوں سے لے کر ایشیا کا سب سے بڑا جھنڈا آویزاں کرنے، ڈیجیٹل فوارہ لگانے اور درختوں میں برقی قمقمے لگانے تک سارے جتن کیے گئے ۔ لیکن ان تمام منصوبوں کے باوجود اس باغ کی حالت زار زیادہ ترقابل افسوس ہی رہی ہے اور یہ دوبارہ وہ مقام کبھی حاصل نہ کر سکا جو کبھی مغلوں اور افغان بادشاہوں کے دور میں تھا۔
زمانہ قدیم میں یہ جگہ شالیمار باغ کہلاتی تھی جو تاریخ دانوں کے مطابق قلعہ بالا حصار سے شروع ہو کر میلوں تک پھیلی ہوئی تھی۔ یہاں صاف شفاف پانی کی ایک نہر بھی بہتی تھی جس سے ان باغات کو پانی دیا جاتا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ یہاں ہریالی کے ساتھ ساتھ پھل ، پھول اور پرندے بھی پائے جاتے تھے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
برطانوی راج کے دور میں اس باغ کو اس صوبے کے انگریز گورنر سر جورج کننگھم کے نام سے یاد کیا جانے لگا۔ بلکہ آج بھی پشاور کے اکثر لوگ اس کو کننگھم پارک کے نام سے ہی یاد کرتے ہیں۔ یہ پارک اس لیے بھی تاریخی لحاظ سے اہمیت رکھتا ہے کہ جولائی 1947 میں انگریزوں نے اس باغ میں ایک ریفرینڈم کروایا تھا کہ آیا خیبر پختونخوا (اس وقت کا شمال مغربی سرحدی صوبہ ) ہندوستان یا پاکستان کے ساتھ شامل ہوگا۔
زمانہ قریب میں یعنی بی آر ٹی منصوبے سے پہلے دوردراز سے لوگ آکر اس پارک میں بیٹھ کر قلعہ بالا حصار کا نظارہ کیا کرتے تھے۔ تاہم یہ نظارہ فلائی اوور کی تعمیر کی وجہ سے ہمیشہ کے لیے آ نکھوں سے اوجھل ہو گیا ہے۔ یہی نہیں بلکہ اس باغ کا کچھ حصہ سڑک میں ضم کرنے کے لیے جب اس کی باونڈری وال کو گرا دیا گیا تو لوگوں نے اس میں ہر طرف سے اپنی مرضی کے رستے بنا لیے جس سے اس کے پودوں اور لان کو مزید نقصان پہنچا۔
جناح پارک کے موجودہ ٹھیکدار نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ باغ کی دیواریں نہ ہونے کی وجہ سے انہیں ہر ماہ تقریباً 80 ہزار کا نقصان ہو جاتا ہے۔
انہوں نے کہا: ’جس کا جہاں سے جی چاہتا ہے اندر داخل ہوجاتا ہے۔ ہم نے تقریباً ڈیڑھ لاکھ روپے میں باغ کے اطراف میں کانٹا تار بھی بچھا دی لیکن اس سے بھی کچھ فائدہ نہ ہوا۔ ‘
2011 میں خیبر پختونخوا کی حکومت نے دبئی کے ڈانسنگ فواروں کی دیکھا دیکھی اس باغ میں ایک کروڑ پچاسی لاکھ کی لاگت سے ایک فوارہ بھی نصب کیا تھا جو شام ہوتے ہی رنگا رنگ روشنیوں اور موسیقی کے مختلف دھنوں پر ناچ ناچ کر تفریح کو ترستی عوام کو رات گئے تک محظوظ رکھتا تھا۔ تاہم دو دن کی چاندنی اور پھر اندھیری رات کے مصداق یہ خوشی زیادہ وقت برقرار نہ رہ سکی۔ یہی وجہ ہے کہ اکثریت کو اس بات کا علم ہی نہ ہو سکا کہ ان کے شہر میں تفریح کا ایسا کوئی سامان بھی تھا۔
ٹاؤن ون عملے کے مطابق، وقت گزرنے کے ساتھ سب سے پہلے فوارے کا ساؤنڈ سسٹم خراب ہوا اور پھر اس میں مزید مسائل پیدا ہوتے گئے۔ان کا مزید کہنا تھا کہ چونکہ پارک کی بیرونی دیواریں نہیں رہی ہیں لہذا اس قیمتی فوارے کا سارا سامان نشا کرنے والے چوری کرکے لے گئے ہیں۔
ٹاؤن میونسپل آفیسر کے دفتر نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ چونکہ موجودہ وقت میں جناح پارک کی دیکھ بھال پشاور ڈیویلپمنٹ اتھارٹی (پی ڈی اے) کے ذمے ہے لہذا انہوں نے تین بار پی ڈی اے کے ڈائریکٹر جنرل کو خط کے ذریعے مطلع کیا کہ ریپڈ بس ٹرانزٹ منصوبے کی وجہ سے پارک کے باونڈری وال، پیدل چلنےکے راستے، قیمتی پودے، درخت، فوارے اور دیگر اشیا کو نقصان پہنچاہے لہذا متعلقہ محکمے کے ذریعے اس کی فوراً دوبارہ بحالی کروا دی جائے۔
انہوں نے مزید بتایا کہ ان خطوط کے جواب میں کچھ دن پہلے پی ڈی اے کی جانب سے کچھ انجینئرز نے پارک کی رکھوالی کرنے والے ملازموں کے پاس جاکر بتایا کہ وہ دوبارہ اس باغ کو اتنا خوبصورت بنائیں گے کہ پاکستان کے دوسرے شہروں کے لوگ بھی اس کا نظارہ دیکھنے آئیں گے۔
اس حوالے سے جب بی آر ٹی منصوبے کے متعلقہ افسران سے پوچھا گیا تو انہوں نے بتایا کہ تاحال وہ اس پر کچھ تبصرہ نہیں کرنا چاہتے تاہم بی آر ٹی مکمل ہونے کے بعد وہ جناح پارک کی تعمیر کو بھی دیکھ لیں گے۔