پشاور کو کبھی پھولوں کا شہر کہا جاتا تھا۔ یہ شاید اُن وقتوں کی بات ہے جب اس شہر میں باغات ہوا کرتے تھے اور جگہ جگہ خود رو پھول دکھائی دیتے تھے۔
اس شہر کا قصہ خوانی بازار جنوبی ایشیا اور وسطی ایشیا کے درمیان کاروبار اور قصوں کے ذریعے پُل کا کردار ادا کرتا تھا اور یہی وجہ تھی کہ شہر پر دونوں تہذیبوں کے اثرات تھے۔ لیکن بڑھتی ہوئی آبادی، بے ہنگم ٹریفک اور منصوبہ بندی کے فقدان کے باعث اس شہر میں اب ڈھونڈنے سے ہی یہ پھول دیکھنے کو ملتے ہیں۔ باغ اور پھول کیا گئے اس شہر کے جگنو بھی ساتھ لے گئے۔
اندرونِ شہر کے علاقے گنج کے رہائشی 88 سالہ نظام الدین کہتے ہیں کہ انہوں نے آخری بار جگنو 25 برس قبل دیکھے تھے- اپنے بچپن میں وہ جگنو کو چھوٹا طوطا کے نام سے پکارتے تھے، لیکن آج اُن کے پوتے پوتیوں کو تو پتہ بھی نہیں کہ جگنو کیا ہیں یا کیسے ہوتے ہیں۔
نظام الدین نے ماضی کو یاد کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے خود شہر میں انار، خوبانی اور انگور کے باغات دیکھے تھے اور رات کے وقت ہوتے ہی سارے شہر میں جگنو چمکنے لگتے تھے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
پشاور کی حالیہ آبادی 20 لاکھ کے لگ بھگ ہے جبکہ عالمی ادارہ صحت کی رپورٹ کے مطابق 2018 میں پشاور دنیا کا بارہواں آلودہ ترین شہر رہا۔ شاید جگنوؤں کے شہر میں ناپید ہونے کی بڑی وجہ بھی یہی ہے۔
جامعہ پشاور میں شعبہ ماحولیات کے پروفیسر ڈاکٹر محمد نفیس کا ماننا ہے کہ بے پناہ آبادی اور آلودگی ہی بڑا مسئلہ ہے، جس کی وجہ سے کئی قسم کے حشرات الارض اور پرندے اب پشاور میں ناپید ہو چکے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ جگنوؤں کو سبزہ چاہیے جو بدقسمتی سے شہر میں اب بہت کم ہو چکا ہے۔ ڈاکٹر نفیس نے بتایا کہ شہر سے باہر جہاں سبز کھیت ہیں وہاں آج بھی جگنو پائے جاتے ہیں لیکن شہر میں آبادی اور آلودگی بڑھنے کے باعث جگنو اب پشاور شہر میں نہیں پَل سکتے۔
پشاور شہر کی ایک نسل ہے کہ جو جگنوکو دیکھتے، مُٹھی میں قید کرکے جوان ہوئی اور آج کی نئی نسل صرف کتابوں اور ویڈیوز میں ہی جگنو کو دیکھ سکتی ہے۔