ہانگ کانگ میں چھ ماہ سے جاری جمہوریت پسندوں کے احتجاج کے دوران نیا رنگ اس وقت دیکھنے کو ملا جب اتوار کو سینکڑوں افراد نے جنوب مغربی چینی خطے سنکیانگ میں ریاستی جبر کا سامنا کرنے والے اویغور مسلمانوں کی حمایت میں مظاہرہ کیا۔
برطانوی خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق ایک ہزار سے زیادہ مظاہرین نے شہر کے کاروباری مرکز کے نزدیک اویغور پرچم اٹھا کر اس نسلی اقلیت کے خلاف ہونے والے مظالم کے خلاف پرامن احتجاج کیا۔
مظاہرین میں نوجوان اور بڑی عمر کے افراد شامل تھے، جنہوں نے اپنی شناخت چھپانے کے لیے چہروں پر ماسک چڑھا رکھے تھے۔
انہوں نے ہاتھوں میں پلے کارڈ اٹھا رکھے تھے جن پر ’اویغور کو آزادی دو‘، ہانگ کانگ کو آزادی دو‘ اور ’چین میں جعلی خودمختاری کے ذریعے نسل کشی کی جا رہی ہے‘ جیسے نعرے تحریر تھے۔
ہانگ کانگ میں اویغور مسلمانوں کے حق میں یہ مظاہرے ایک ایسے وقت کیے جا رہے ہیں جب اس نسلی گروپ پر حکومتی جبر کے خلاف عالمی سطح پر آوازیں اٹھنا شروع ہو گئی ہیں۔
حال ہی میں جرمنی کے ترک نژاد فٹبال سٹار مسعود اوزل نے اویغور مسلمانوں کے خلاف روا رکھے جانے بدترین سلوک پر چین کی حکومت پر کڑی تنقید کی تھی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ترک نژاد مسلم کھلاڑی اوزل نے سوشل میڈیا پر جاری اپنے بیان میں اویغور برادری کو ’جنگی سپاہی‘ قرار دیتے ہوئے کہا تھا کہ وہ بہادری سے ’ظلم و ستم‘ کا مقابلہ کر رہے ہیں۔
انہوں نے اویغور مسلمانوں کے خلاف چین کے ’کریک ڈاؤن‘ اور اس پر مسلم ممالک کی ’خاموشی‘ پر بھی شدید تنقید کی تھی۔
انسانی حقوق کی تنظیموں کا دعویٰ ہے کہ چین نے اویغور نسل کے دس لاکھ افراد کو مقدمے قائم کیے بغیر ہائی سکیورٹی کیمپس میں قید کیا ہوا ہے تاہم بیجنگ ان افراد کے ساتھ بدسلوکی کے دعوؤں کو مسترد کرتا ہے۔
چین کا کہنا ہے کہ وہ پرتشدد مذہبی انتہا پسندی کا مقابلہ کرنے کے لیے لوگوں کو ’ووکیشنل ٹریننگ سینٹرز‘ میں تعلیم دے رہا ہے۔
دوسری جانب ہانگ کانگ میں جمہوریت پسندوں کے مظاہرے اب ساتویں مہینے میں داخل ہو گئے ہیں۔
مظاہرین ہانگ کانگ میں جمہوری آزادیوں میں چینی مداخلت کے خلاف اور نیم خود مختاری کا مطالبہ کر رہے ہیں جس کا ان سے 1997 میں برطانوی استعمار کے خاتمے اور چین کے حوالگی کے وقت وعدہ کیا گیا تھا۔
چین جمہوری آزادیوں میں مداخلت کی تردید کرتے ہوئے کہتا ہے کہ وہ اس وقت ’ایک ملک، دو نظام‘ کے فارمولے کے وعدے پر قائم ہے۔
تاہم بیجنگ نے ہانگ کانگ میں بدامنی کو بڑھاوا دینے کے لیے غیر ملکی طاقتوں کو مورد الزام قرار دیا ہے۔
ہفتے کو ہانگ کانگ کی انسداد بدامنی پولیس نے کئی شاپنگ مالز میں داخل ہوکر مظاہرین کا تعاقب کیا جہاں لوگ کرسمس سے قبل اختتامی شاپنگ میں مصروف تھے۔ اس دوران پولیس نے درجنوں مظاہرین کو گرفتار کیا۔
پولیس کی جانب سے مظاہروں کے دوران آنسو گیس کے متواتر استعمال سے مظاہرین مشتعل ہوگئے جنہوں نے اپنے مطالبات میں جمہوریت کی بحالی کے ساتھ اب پولیس کی بربریت کی آزادانہ تحقیقات کا مطالبہ بھی شامل کر لیا ہے۔
جون میں شروع ہونے والے مظاہروں نے ہانگ کانگ کی معیشت کو کساد بازاری کی طرف دھکیل دیا ہے اور سیاحوں کی آمدورفت میں خلل پڑنے سے کاروبار کو شدید نقصان پہنچا ہے۔
اتوار کو مالیاتی وزیر پال چن نے اپنے بلاگ میں لکھا کہ اگر مارکیٹ کے حالات بہتر نہ ہوئے تو نئے سال میں کاروبار بند ہونے کا خطرہ موجود ہے۔
’اب بہت سی کمپنیاں نقصان کا سامنا کر رہی ہیں اور اپنے کاروبار کو برقرار رکھنے کے لیے جدوجہد کر رہی ہیں۔‘ انہوں نے امید کا اظہار کیا کہ اب تشدد بند ہو جانا چاہیے۔