برطانیہ میں نیشنل ہیلتھ سروسز کے ایک سابق نیورو سرجن نے دعویٰ کیا ہے کہ اگلی دہائی کے دوران پہلی بار انسانی سر کی پیوندکاری میں کامیابی حاصل کرلی جائے گی۔ ڈاکٹر کے خیال میں وہ جانتے ہیں کہ کسی شخص کا شعور کسی دوسرے شخص کے جسم میں منتقل کرنے اور اس کے کام کرنے کا کارنامہ کس طرح سرانجام دیا جا سکتا ہے۔
بروس میتھیو این ایچ ایس ٹرسٹ کے ہل یونیورسٹی ٹیچنگ ہسپتالوں کے شعبہ نیور سرجری کے سربراہ رہ چکے ہیں۔ وہ انسٹی ٹیوٹ آف فیوچرولوجی کے بانی مائیکل لی کے ساتھ مل کر ایک سائنس فکشن ناول پر کام کر رہے تھے جس دوران انہیں اس ممکنہ طریقے کے بارے میں احساس ہوا جس کی مدد سے اس غیرمعمولی سرجری کو کامیاب بنایا جا سکتا ہے۔
بروس میتھیو کے خیال میں سرجنوں کو نہ صرف کسی شخص کے سر کی پیوند کاری کرنی ہو گی بلکہ اس کی ریڑھ کی پوری ہڈی بھی دوسرے جسم میں منتقل کرنی ہو گی۔
وہ چند متنازع سائنس دان جو سر کی پیوندکاری کو حقیقت میں بدلنے کی کوششوں میں مصروف ہیں، ان کی توجہ زیادہ تر ان طریقوں پر مرکوز رہی ہے جس میں ریڑھ کی ہڈی کاٹ دی جاتی ہے۔ یہ ایک ایسا آئیڈیا ہے جسے 10 ہزار سے زیادہ آپریشن کرنے والے میتھیو ’انتہائی مضحکہ خیز‘ قرار دیتے ہیں۔
لیکن 63 سالہ میتھیو کہتے ہیں کہ اعصابی سرجری، روبوٹکس اور سٹیم سیلز کی پیوندکاری میں ہونے والی پیش رفت کا مطلب ہے کہ ریڑھ کی ہڈی کو دوبارہ جوڑ دینا ممکن ہے، اور اس کے ساتھ جڑا سر بھی دوسری جسم کو لگا دینا 2030 سے پہلے ممکن ہو جائے گا۔
انہوں نے اخبار ’دا ٹیلی گراف‘ کو بتایا: ’ابتدا میں ہمارا ارادہ تھا کہ صرف ایک طریقہ تلاش کرنے کے بارے میں سوچا جائے اور یہ کسی قدر احمقانہ لگا لیکن تب مجھے احساس ہوا کہ حقیقت میں ایسا نہیں ہے۔ اگر آپ دماغ کی پیوند کاری کرتے ہیں اور دماغ اور ریڑھ کی ہڈی کو اکٹھا رکھتے ہیں تو واقعی یہ ناممکن نہیں ہے۔‘
میتھیو نے بتایا: ’ریڑھ کی ہڈی سب سے پیچیدہ چیز خیال کی جاتی ہے۔ آپ کو دماغ کو ریڑھ کی ہڈی سے جوڑے رکھنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہ خیال کہ آپ ریڑھ کی ہڈی کاٹ دیں انتہائی مضحکہ خیز ہے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
سر کی پیوند کاری کے غیرمعمولی میدان میں کام کرنے والے زیادہ بدنام سائنس دانوں میں ایک سرجیو کیناویرو ہیں، جنہوں نے 2017 میں ریڑھ کی ہڈی گُدی سے کاٹ کر ایک انسانی لاش پر سر کی کامیاب پیوند کاری کا دعویٰ کیا تھا۔
انہوں نے دعویٰ کیا تھا کہ پیوند کاری کامیاب رہی۔ لیکن دوسرے سائنس دانوں نے ان کے دعوے پر تنقید کرتے ہوئے ان کے سابقہ دعووں کی طرف اشارہ کیا تھا جس میں انہوں نے بندر پر تجربے کی کامیابی کا ذکر کیا تھا حالانکہ یہ بندر دوبارہ کبھی ہوش میں نہیں آیا تھا اور اگر ہوش میں آ بھی جاتا تو مفلوج رہتا۔
کیناویرو، جن کے پاس تجربے کے لیے رضاکار موجود ہیں، نے کہا ہے کہ ان کا کام ہمیشہ کی زندگی کی راہ ہموار کر سکتا ہے۔ ’ہمیشہ کی زندگی‘ کی اصطلاح میتھیو اور لی کی کتاب ’کرسالِس: ابدی زندگی کے امکانات کے بارے میں سرجیکل سائنس فکشن کہانی‘، میں بھی استعمال کیا گیا ہے۔
میتھیو نے مزید کہا: ’(ریڑھ کی ہڈی) کو ایک ہی ٹکڑے کی شکل میں رکھنا ہمیشہ سے بڑا مشکل رہا ہے لیکن اب جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے آپ بہت سے کام کر سکتے ہیں۔
’اس وقت آپ ایک یا دو عصبی ریشوں کو آپس میں جوڑ سکتے ہیں لیکن روبوٹس کے استعمال اور مصنوعی ذہانت کی مدد سے ہم جلد ہی دو سو ریشوں کو ایک دوسرے کے ساتھ جوڑ سکیں گے۔ آپ ریڑھ کا پورا حصہ نکال سکیں گے تاکہ آپ پورا دماغ اور ریڑھ کی ہڈی اور اس کے اردگرد کا حصہ ایک نئے جسم میں رکھ سکیں۔‘
انہوں نے مزید کہا: ’ظاہر ہے جھلی (ریڑھ کی ہڈی کی حفاظتی جھلی) کو اس میں سوراخ بنائے بغیر صحیح و سالمت نکالنا بہت مشکل ہے۔ اس کام کے لیے ٹیکنالوجی اور آلات کے استعمال کے مراحل کو مزید جدید بنانے کی ضرورت ہے لیکن آئندہ 10 برس میں ایسا کرنا ممکن ہو گا۔‘
یہ درست ہے کہ اس طریقے سے ریڑھ کی ہڈی کو پہنچنے والے نقصان کے علاج میں کوئی مدد نہیں ملے گی تاہم ان لوگوں کا علاج کیا جا سکے گا جو پٹھوں کو نقصان پہنچنے کی بیماریوں میں مبتلا ہوں۔ میتھیو نے کہا ہے کہ اس طرح لوگوں کو روبوٹک جسم دیا جا سکے گا۔
میتھیو نے ’دا ٹیلی گراف‘ کو بتایا ہے کہ اب بھی شکوک و شبہات موجود ہیں کہ آیا سر اور ریڑھ کی ہڈی کو کسی دوسرے شخص کے ڈی این اے کے ساتھ کامیابی سے ہم آہنگ بنایا جا سکتا ہے یا نہیں۔ انتڑیوں میں پائے جانے والے بیکٹریا کو بھی تبدیل کرنے کی ضرورت ہو گی۔
لیکن میتھیو کا خیال ہے کہ سٹیم سیل پیوند کاری کی مدد سے ٹرانسپلانٹ کو مسترد کیے جانے کا عمل روکا جا سکتا ہے۔
انہوں نے کہا: ’آپ ایک شخص کے دماغ اور ریڑھ کی ہڈی سے ڈی این اے لیں گے تاکہ کسی حد تک ہڈی کے گودے کا عطیہ دینے والے شخص کی طرح عطیہ کرنے والے کے ڈی این اے سے نجات پا لیں اور اس کے بعد اسے دوسرے شخص کے جسم میں منتقل کر دیں گے جسے دونوں اعضا لگائے جانے ہیں۔‘
میتھیو کے بقول: ’میرا مطلب ہے کہ بہت بڑے مسائل موجود ہیں لیکن یہ ممکن ہے۔ اور آپ کو یاد رکھنا ہو گا کہ آپ نے ہزاروں افراد کو ڈیپ فریز کر رکھا ہے، اکثر صرف سر ہی۔ اور ایسی بہت سی کمپنیاں ہیں جو مانتی ہیں کہ ایک دن آپ انہیں مردہ سے زندہ کرنے کے قابل ہو جائیں گے، ان کی بیماریوں کا علاج کرنے اور انہیں نیا جسم دینے کے قابل ہو جائیں گے۔ تقابل کیا جائے تو جو میں کہہ رہا ہوں وہ خاصا محتاط ہے۔‘
© The Independent