پشتون تحفظ موومنٹ کے سربراہ منظور پشتین نے مقامی چینل خیبر نیوز پر پہلے سے ریکارڈ شدہ انٹرویو نہ چلانے پر حکومت کی پالیسیوں کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔
منظور پشتین نے ٹوئٹر پر ایک پیغام میں لکھا ہے کہ ان کا انٹرویو چلانے پر پابندی سے ریاست کی پالیسیاں واضح ہو گئی ہے اور ریاست ان کو پی ٹی ایم پر مختلف الزامات کے جواب بھی نہیں دینے دے رہی۔
منظور پشتین کا انٹرویو پشتو چینل خیبر نیوز نے ریکارڈ کیا تھا او ر وہ بدھ کے روز نشر ہونا تھا۔ انٹرویو کا پرومو پہلے سے چینل نے جاری کیا تھا جس میں منظور سے مخلتف سوالات پوچھے گئے تھے۔
ایک سوال یہ بھی کیا گیا تھا کہ پی ٹی ایم پر الزام ہے کہ وہ وہ نسل پرستی کو ہوا دی رہی ہے جس کے جواب میں منظور نے بتایا ہے کہ پی ٹی ایم کا کسی بھی نسل پرستی کی ترویج میں کردار نہیں ہے اور نہ وہ پنجابی یا کسی دوسرے قوم سے تعصب رکھتے ہیں بلکہ ان کی تنقید ہمیشہ ریاست کی پالیسیوں پر رہی ہے۔
ایک دوسرے سوال میں ان سے پوچھا گیا ہے کہ پی ٹی ایم پر بیرون ملکوں کی پشت پناہی کا الزام ہے تو اس پرومو کے مختصر جواب میں انہوں نے بتایا ہے کہ انہوں نے افغانستان کے صدر اشرف غنی کو پی ٹی ایم کے حق میں ٹویٹ کرنے کے لیے نہیں کہا تھا بلکہ وہ ان کا ذاتی فعل تھا۔
منظور پشتین نے ٹویٹ میں یہ بھی کہا ہے کہ ان پر نسل پرستی اور آزاد ریاست کا مطالبہ جیسے الزامات لگائے جا رہے ہیں لیکن ان کو جوابات دینے نہیں دیا جا رہا ہے تاکہ لوگ انہیں بھی سنیں اور پھر فیصلہ کریں۔
یہی انٹرویو جب بدھ کے روز نشر نہیں کیا گیا تو سوشل میڈیا پر اس رویے کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا گیا۔ بیشتر سوشل میڈیا صارفین نے ریاستی اداروں کو اس کا مورد الزام ٹھہرایا کہ ان کے دباؤ پر انٹرویو چلانے سے روک دیا گیا ہے۔
ایک ٹوئٹر صارف مینا گبینا نے اس بارے میں لکھا ہے کہ انٹرویو کو اس وجہ سے چلانے سے روکا گیا ہے کیونکہ یہ ریاست کی کمزور بیا نیے کے لیے اچھا ثابت نہیں ہو گا۔
بعض سوشل میڈیا صارفین نے اس اقدام کو اظہار رائے پر قدغن لگانے کے مترادف قرار دیا ہے۔ایک صارف خوشحال خان نے لکھا ہے کہ انتہاپسندوں اور دہشت گردوں کی انٹرویو چلانے کی اجازت تو ہے لیکن منظور پشتین کے انٹرویو پر پابندی ہے کیونکہ وہ لوگوں کی حقوق کی بات کرتے ہیں۔
سینیئر سیاست دان افراسیاب خٹک نے اس بارے میں ٹوئٹر پر لکھا ہے کہ ’خیبر نیوز پر منظور پشتین کے ریکارڈ شدہ انٹرویو پر پابندی لگا کر اصلی حکمرانوں نے دھاندلی زدہ جعلی جمہوریت کو مزید بے نقاب کر دیا ہے۔‘
انہوں نے مزید لکھا: ’آئین میں درج بنیادی حقوق کی ایسی پامالی صرف مارشل لا میں ہو سکتی ہے۔ قانونی جدوجہد کو بند کر کے تصادم کی راہ ہموار کی جا رہی ہے۔‘
تاہم کچھ صارفین کی طرف سے پی ٹی ایم اور منظور پشتین کو بھی تنقید کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ ایک صارف ڈاکٹر ایمان افریدی نے لکھا کہ منظور کو ریاست کے خلاف بات کرنے پر شرم آنی چاہیے اور ایک ’غدار‘ کا انٹرویو کسی پاکستانی چینل پر کیسے چل سکتا ہے۔
انٹرویو کیوں نشر نہیں کیا گیا؟
منظور پشتین کا انٹرویو خیبر نیوز کے میزبان سید وقاس شاہ نے کیا تھا۔ اس بارے میں جب وقاص شاہ سے پوچھا گیا تو انہوں نے انڈپینڈنٹ کو بتایا کہ وہ اس معاملے پر تفصیل سے کچھ کہنا نہیں چاہتے۔
ان سے جب انٹرویو نشر نہ ہونے کی وجہ پوچھا گیا تو انہوں نے بتایا کہ انٹرویو کو کچھ ادارتی مسائل کی وجہ سے نشر نہیں کیا گیا۔
پشتون تحفظ موومنٹ کو پہلے سے پاکستانی میڈیا نے بلیک آؤٹ کر رکھا ہے اور تنظیم کے کسی بھی پروگرام کو کوریج نہیں دی جا رہی ہے۔ کچھ ہفتے پہلے منظور پشتین کی امریکی اخبار نیویارک ٹائمز میں لکھا ہوا مضمون بھی پاکستان میں ایکسپریس ٹریبیون نے شائع نہیں کیا تھا۔