تئیس سالہ نادیہ ویٹوم کہتی ہیں کہ’جہاں مناسب ہو میں ٹوئٹر پر(لوگوں) کو ڈیلیٹ کر دیتی ہوں۔‘
نادیہ کم عمر ترین برطانوی رکن پارلیمنٹ ہیں۔ اسی وجہ سے انہیں پیار سے’ایوان کی بےبی‘کا نام دیا جا رہا ہے۔ وہ ان دنوں یہ سیکھ رہی ہیں کہ نئی حیثیت کا ان کی سلامتی کے معاملے میں کیا مطلب ہو گا۔
وہ کہتی ہیں: ’بلاشبہ یہ بات نہیں ہے کہ میری ساتھی خواتین ارکان پارلیمنٹ کو برسوں سے قتل اور ریپ کی دھمکیاں مل رہی ہیں لیکن میرا پارلیمنٹ میں صرف تیسرا ہفتہ ہی شروع ہوا ہے۔‘
لیبر پارٹی کی نادیہ 12 دسمبر کو رکن پارلیمنٹ منتخب ہوئیں۔ انہیں مشرقی نوٹنگھم کی نمائندگی کے لیے 17393 اکثریتی ووٹ ملے۔ وہ مشرقی نوٹنگھم کے حلقہ انتخاب میں پلی بڑھیں جہاں ان کی والدہ نے اکیلے ان کی پرورش کی۔
خاص طور پر بیڈروم ٹیکس، بچت مہم نے انہیں براہ راست متاثر کیا اور وہ سیاست کے میدان میں قدم رکھنے پر مجبور ہوئیں۔ وہ اس دور کو ’ہوا کا بگولہ‘ قرار دیتی ہیں جس کا انہوں نے مقابلے کا فیصلہ کیا۔
نوٹنگھم سے لندن جاتے ہوئے انہوں نے ٹرین میں فون پر بات کرتے ہوئے کہا کہ ’بہت سی باتیں ہیں جن کی عادت ڈالنے کی ضرورت ہے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
وہ لندن میں اپنے لیے فلیٹس دیکھیں گی جو اس بات کی یاد دہانی ہے کہ انہیں اپنی نئی زندگی میں کن تبدیلیوں کا سامنا ہوگا۔ وہ ہنستے ہوئے کہتی ہیں ’میں ویسٹ منسٹر میں ہمیشہ گم ہو جاتی ہوں۔ گذشتہ روز میں نے ٹوائلٹ تلاش کرنا شروع کیا اور سیڑھیوں کے نیچے جا پہنچی۔‘
مزید برآں دفتر میں کون سی چیز کس جگہ ہے اس حوالے سے جاننے کے بارے میں نادیہ کہتی ہیں کہ سیکھنے کے لیے اس سے زیادہ سنجیدہ نوعیت کے اسباق بھی موجود ہیں جن میں ذاتی سلامتی شامل ہے۔
وہ کہتی ہیں: ’اپنے حلقہ انتخاب کی نمائندگی کرنا بڑے اعزاز کی بات ہے لیکن اس میں تحفظ کے حوالے سے کسی حد تک تشویش کا عنصر موجود ہے۔ ایک نوجوان خاتون کی حیثیت سے ہم تحفظ کے معاملے میں بہرحال فکرمند ہیں۔ جیب میں چابیاں رکھ کر پیدل چل کر گھر جانا یا ٹیکسی میں سفرکی تصویر بنا کر اپنے دوستوں کو بھیجنا بطور ایک رکن پارلیمنٹ اہم بات ہے۔‘
نادیہ اب تک کی آخری رکن پارلیمنٹ پارلیمنٹ ہیں جنہوں نے اپنے کام میں تحفظ پر بات کی۔ جون 2016 میں لیبر رکن پارلیمنٹ جوکوکس کا قتل، 2018 میں خاتون رکن پارلیمنٹ روزی کُوپر کے قتل کے منصوبے میں نازی نواز تنظیم نیشنل ایکشن کے ترجمان جیک رین شا اور سابق رکن پارلیمنٹ لوشیانا برجر کے ساتھ بدسلوکی اور انہیں دھمکیاں دینے پر چھ افراد کو سزا پیش منظر کی ایسی تمام مثالیں ہیں جن کے درمیان نادیہ خود کو اس وقت پاتی ہیں۔
برطانیہ میں عام انتخابات سے پہلے خواتین کی کئی تنظیموں نے انہیں خاتون ارکان پارلیمنٹ کے سیاست چھوڑنے کے’انتہائی پریشان کن‘ رجحان کے بارے میں متنبہ کیا تھا۔ ان خواتین نے بطور ایک انسان آن لائن اپنے ساتھ اکثر ہونے والی بدسلوکی کا ذکر کیا تھا۔
سابق کنزرویٹو رکن پارلیمنٹ ہیڈی ایلن جو الیکشن سے دستبردار گئی تھیں، نے کہا ہے کہ ’بے ہودگی اور ڈرانا دھمکانا‘ عام بات ہو گئی ہے۔
رفاہی تنظیم ’فاسیٹ سوسائیٹی‘ کے سربراہ سام سمیتھرز کہتے ہیں: ’ہم اس حقیقت کا سامنا کرنا ہوگا کہ ہماری زہریلی سیاست خاتون ارکان پارلیمنٹ کو دورہٹا رہی ہے۔ 2019 میں بھی خواتین کے لیے ماحول سازگار نہیں ہے۔‘
نادیہ پنجابی خاندان سے تعلق رکھتی ہیں۔ وہ نوٹنگھم سے منتخب ہونے والی پہلی ایشیائی رکن پارلیمنٹ ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس صورت حال میں ایک نئے عہدے پر پہنچنے کے بعد ذاتی سلامتی کے معاملے میں ان کی تشویش بڑھ گئی ہے۔
’خاتون ہونا کوئی آسان کام نہیں ہے۔ خاص طور پر غیر سفید فام خاتون ہونا۔ مثال کے طور پر جب میں رکن پارلیمنٹ ڈائین ایبٹ سے بدسلوکی کے بارے سنتی ہوں تو بلاشبہ اس سے میں اور میرا خاندان پریشان ہو جاتے ہیں۔‘
وہ کہتی ہیں کہ پارلیمنٹ میں آنے کے بعد ضروری باتوں سے آگاہ کرنے کا عمل مکمل ہونے پر انہیں پریشانی لاحق ہو گئی کہ آیا وہ کرسمس کی رات باہر جا سکیں گی یا نہیں۔
انہوں نے فیصلہ کیا کہ وہ بہرحال باہر نکلیں گی۔ وہ کہتی ہیں کہ ’مجھے معمول کے مطابق اپنا کام کرنا ہو گا۔‘ لیکن بلاشبہ ایسے معاملات ہیں جو اب تبدیل ہو چکے ہیں۔ وہ اپنی شناخت چھپائے بغیر سڑک پر نہیں چل سکتیں۔ خاص طور پرایسی صورت حال میں کہ میڈیا 35 ہزار پاؤنڈ گھر لے جانے کی جگہ 79 ہزاو پاؤنڈ تنخواہ کا بڑا حصہ عطیہ کرنے کے اعلان کو زیادہ بڑے پیمانے پر رپورٹ کرتا ہے۔
تشویش کے باوجود اور یہ جانتے ہوئے کہ ان کا خاندان بھی ان کی تشویش میں شریک ہے، نادیہ کہتی ہیں کہ خواتین کو ڈر کر سیاست نہیں چھوڑنی چاہیے۔ ’بطور خواتین ہمیں وہاں (پارلیمنٹ) موجود ہونے کی ضرورت ہے اور ہمیں اس بات کی ضرورت ہے کہ ایک ایسی تہذیب پروان چڑھائیں جس میں غیرسفید فام خواتین محفوظ ہوں۔‘
’اس وقت ہمیں ایک ایسے وزیراعظم ملے ہیں جو مسلمان خواتین کو لیٹربکس کہتے ہیں۔ اس لیے یہ کوئی حیرت کی بات نہیں ہے کہ ہم اپنے آپ کو محفوظ نہ سمجھیں۔‘
نادیہ رکن پارلیمنٹ منتخب ہونے تک نوٹنگھم میں نفرت کی بنیاد پر ہونے والے جرائم کے خلاف سرگرم کارکن تھیں اور وہ اس قسم کے جملوں کے اثرات حقیقی زندگی میں دیکھ چکی ہیں۔
ان کی اپنی جماعت کی خاتون رہنما ہونے کے حوالے سے وہ کیا کہیں گی۔ کیا اس سے خواتین کو سیاست میں مدد ملے گی؟ نادیہ کہتی ہیں کہ’بلاشبہ میں ایک خاتون کو رہنما کے طور پر دیکھنا چاہوں گی لیکن یہ عمل سیاسی بحث پر حاوی نہیں ہونا چاہیے۔ اسی طرح میں سیاہ فام، ایشیائی اور اقلیتی لسانی رہنما دیکھنا چاہتی ہوں لیکن یہ معاملہ سیاسی بحث پر حاوی نہیں ہونا چاہیے۔
نادیہ کہتی ہیں کہ 2020 کے لیے ان کی ترجیحات میں اپنے حلقہ انتخاب میں غربت سے نمٹنا شامل ہے۔ حلقے کے بچوں میں سے تقریباً آدھے خط غربت سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں۔ ماحولیاتی ہنگامی حالت سے نمٹنا بھی ان کی ترجیح ہے۔
وہ کہتی ہیں: ’میں حکومت کو ان مسائل کا ذمہ دار قرار دینے کے لیے پارلیمنٹ میں اپنا وقت وقف کروں گی۔‘
© The Independent