نیب ترمیمی آرڈیننس: ’پہلے کے اور اب کے نیب میں کافی فرق ہوگا‘

نیب کے سابق پراسیکیوٹر عمران شفیق کا کہنا ہے کہ یہ تاثر غلط ہے کہ اب نیب کے اختیارات میں اضافہ ہوا ہے بلکہ اب کوئی بھی کاروباری شخصیت ،نجی بزنس یا نجی لین دین نیب کے دائراہ کار سے باہر ہو گئے ہیں۔

صدر ڈاکٹر عارف علوی کے دستخط کے بعد قومی احتساب بیورو(نیب) کا ترمیمی آرڈیننس نافذالعمل ہوچکا ہے لیکن کئی حلقوں میں اس آرڈیننس کے حوالے سے کافی تذبذب پایا جاتا ہے۔ جہاں اسے اپوزیشن  نے مسترد کردیا ہے وہیں یہ بھی کہا جارہا ہے کہ اپوزیشن کے کچھ ممبران جو اس وقت نیب کے شکنجے میں ہیں ان کے لیے یہ ترمیم مستفید ثابت ہوگی۔ لیکن اس بات میں کتنی صداقت ہے؟ اس ترمیم کی اس وقت کیا ضرورت تھی اور اس آرڈیننس کا مقصد کیا ہے؟

ان سوالات کےجوابات کے لیے اور یہ جاننے کے لیے کہ 1999 کے بعد  نیب آرڈیننس میں دوسری ترمیم کے ذریعے نیب کے اختیارات میں کمی آئی ہے یا بہتری؟ اور ملک میں کرپشن کے خاتمے کے لیے اس ترمیم کے کیا اثرات مرتب ہوں گے،  انڈپینڈنٹ اردو نے نیب کے سابق پراسیکیوٹر عمران شفیق سے گفتگو کی جن کا کہنا تھا کہ یہ تاثر بالکل غلط ہے کہ اس ترمیم کے بعد نیب کے اختیارات میں اضافہ ہوا ہے۔

انہوں نے کہا: ’ پہلے کے نیب میں اور اب کے نیب میں کافی فرق ہوگا۔‘

عمران شقیق  نے بتایا: ’ یہ ترمیم اصل میں تین بنیادی مسائل سے منسلک ہے۔ پہلے، خواہ کوئی بھی کاروباری شخصیت ہو،نجی بزنس یا نجی لین دینیہ نیب کے دائراہ کار میں شامل تھے، لیکن اس ترمیم کے بعد نیب صرف ان کیسز میں مداخلت کرسکتا ہے جن میں سرکاری افسران شامل ہوں یا بڑے پیمانے پر سرکاری معاملات میں خرد برد کی گئی ہو۔ اس کے علاوہ نیب کسی بھی نجی کمپنی، نجی قانونی ادارے یا نجی کاروبار میں تب تک کیس نہیں بنا سکتا جب تک یہ ثابت نہ کردے کہ اس نجی ادارے نے عوام کے پیسے میں کرپشن کی ہے۔‘

ان کا کہنا تھا: ’بات یہ نہیں ہے کہ فائدہ کسے پہنچے گا۔ اصل بات یہ ہے کہ کرپشن کو کیسے روکا جائے گا۔ مسئلہ یہ ہے کہ اگر کوئی نجی کمپنی کا مالک کرپشن کررہا ہے تو اس کی تحقیقات کرنا اب نیب کے دائرۂ اختیار میں نہیں ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ اس سے قبل نیب نے اپنے اختیارات کا ناجائز استعمال کرتے ہوئے ممکنہ منی لانڈرنگ میں ملوث کاروباری شخصیات پر کیسز بنائے ہیں جس میں نیب کے ذاتی مفادات بھی تھے لیکن منی لانڈرگ ثابت ہونے کی صورت میں اس کی روک تھام کا یہ ایک ذریعہ تھا، لیکن اب نہیں۔‘

ہم نے جب سابق پراسیکیوٹر نیب عمران شفیق سے یہ پوچھا کہ وہ کیا بنیادی اختیار ہے جو اس ترمیم کے بعد ختم کردیا گیا ہے تو انکا کہنا تھا: ’ایک وقت تھا جب نیب اپنے اختیارات سے تجاوز کرکے ان اداروں کی تحقیقات کرتا تھا جو ٹیکس کے پیسے میں یا سرکاری پیسے میں نجی اداروں کے ساتھ مل کر کرپشن کرتے تھے لیکن اب اختیارات سے تجاوز کرنے کی نوبت نہیں آئے گی کیونکہ نیب سے یہ اختیار ہی لے لیا گیا ہے۔ ان کیسز کی تحقیقات اب متعلقہ اداروں میں جیسے ایف بھی آر، ایف آئی اے یا عام عدالتوں میں کی جائے گی۔‘

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ان محدود اختیارات کے ساتھ نیب اب کرپشن کیسز کی تحقیقات کیسے کرے گا؟  اس سوال کے جواب میں سابق پراسیکیوٹر   نے کہا کہ اس سے قبل نیب آرڈیننس کے آرٹیکل نو۔ اے کی شق پانچ اور چھ کے تحت کاروباری شخصیات اور سرکاری افسران پر کیسز بناتا تھا جس میں آمدن سے زائد اثاثہ جات اور اختیارات کے ناجائز استعمال کی بنیاد پر کئی سیاسی شخصیات کو سزا ہوئی ہے۔ مثال کے طور پر سابق وزیر اعظم نواز شریف کو آرٹیکل نو ۔اے کی شق پانچ کے تحت ایون فیلڈ کیس میں سزا ہوئی تھی۔

انہوں نے کہا: ’ آرٹیکل نو اے کی شق پانچ کے کیسز میں احسن اقبال کا ٹرائل، شائدخاقان عباسی کا ایل این جی کیس، مالم جبہ کیس، بی آرٹی کیس اور آشیانہ ہاؤسنگ سوسائیٹی کیس اور دیگرکیسز شامل ہیں۔ پہلے نیب شک کی بنیاد پر کیسز بنا لیا کرتا تھا لیکن اب نیب کو پہلے یہ ثابت کرنا ہوگا کہ کیا کرپشن ہوئی ہے اور کیسے ہوئی ہے۔‘

عمران شفیق نے مزید بتایا:’ اس ترمیم کے بعد کرپشن ثابت کرنے کا نیا طریقہ بھی نیب آڑڈیننس کے آڑٹیکل نو۔ اے کی شق چھ  میں واضح کردیا گیا ہے کہ کرپشن اس ہی صورت میں ثابت ہوگی اگر ملزم آمدن سے زائد اثاثے بنانے کا جواز پیش نہیں کرسکتا ہے ۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ  اختیارات کے ناجائز استعمال کا ثابت کرنے کے لیے نیب کو آمدن سے زائد اثاثے ثابت کرنے ہوں گے جس کی وجہ سے تحقیقات کا عمل اور پچیدہ اور طویل ہوجائے گا۔‘

سابق پراسیکیوٹر نیب عمران شفیق کے مطابق حکومت اور اپوزیشن سے منسلک کئی سیاسی شخصیات ہیں جو اس تریم سے مستفید ہو سکیں کی جن میں پرویز خٹک، محمود خان، عاطف خان اور اعظم خان شامل ہیں جن کے خلاف نیب میں مالم جبہ اور بی آر ٹی کیس میں تحقیقات اور انکوائری چل رہی ہے۔

تاہم جہاں  اپوزیشن نےنیب ترمیمی آرڈیننس کی مخالفت کی ہے اور کہا ہے کہ وزیراعظم عمران خان نے اپنے آپ کو اور اپنے دوستوں کو بچانے کے لیے اس آرڈیننس کا سہارا لیا ہے وہیں اس نئے قوانین کی روشنی میں سابق وزیر داخلہ احسن اقبال، سابق وزیراعظم پرویز اشرف، سابق وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف، سابق وفاقی وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق اور سابق وزیرخزانہ مفتاح اسماعیل بھی مستفید ہو سکیں گے۔

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی پاکستان