ایران کی اعلی ترین سیاسی اور مذہبی شخصیت نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے پسندیدہ فورم ٹوئٹر پر بدھ کے روز انہیں شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔ واشنگٹن اور تہران کے درمیان لفظی جنگ کا یہ دور بغداد میں واقع امریکی سفارت خانے پر مظاہرین کے دھاوے کے بعد جاری ہے۔
ایران کے سپریم لیڈر علی خامنہ ای کے انگریزی ٹوئٹر اکاونٹ سے ٹویٹ جاری ہوئی کہ ’اس شخص نے ٹویٹ کی ہے، وہ بغداد میں ہونے والے واقعات کا ذمہ دار ایران کو سمجھتے ہیں۔ اول تو آپ اس بارے میں کچھ کر نہیں سکتے، دوسرا اگر آپ عقلمند ہوتے جو کہ آپ نہیں ہیں، تو آپ دیکھتے کہ عراق اور افغانستان میں آپ کے جرائم کے باعث اقوام آپ سے نفرت کرتی ہیں۔‘ ان کے اس بیان کا فارسی ترجمہ ان کے فارسی زبان کے اکاؤنٹ پر بھی پوسٹ کیا گیا۔ انہوں نے یہ بیان صدر ٹرمپ کی ٹویٹ کوٹ کرتے ہوئے لکھا۔
That guy has tweeted that we see Iran responsible for the events in Baghdad & we will respond to Iran.
— Khamenei.ir (@khamenei_ir) January 1, 2020
1st: You can’t do anything.
2nd: If you were logical —which you’re not— you’d see that your crimes in Iraq, Afghanistan… have made nations hate you. https://t.co/hMGOEDwHuY
یہ پہلا موقع ہے کہ ایرانی سپریم لیڈر خامنہ ای کے نام سے چلنے والے ٹوئٹر اکاؤنٹس نے صدر ٹرمپ کی کسی ٹویٹ کو براہ راست کوٹ کیا ہو اور پہلی بار انہوں نے صدر ٹرمپ کو براہ راست مخاطب کیا۔
یہ سب ایسے وقت میں ہو رہا ہے جب ایرانی حمایت یافتہ ملیشیا کتائب حزب اللہ کے ارکان اور حامیوں کی جانب سے بغداد میں واقع امریکی سفارت خانے پر دوسرے دن بھی احتجاج جاری ہے۔ یہ احتجاج امریکہ کی جانب سے کیے جانے والی فضائی حملے میں 25 ملیشیا ارکان کی ہلاکت کے ردعمل میں کیا جا رہا ہے۔ اس حملے میں عراق اور مشرقی شمال میں موجود اڈوں پر موجود 50 ملیشیا ارکان زخمی بھی ہوئے۔
اس فضائی حملے کے بعد عراقی حکام اور عوام کی جانب سے بھی اظہار برہمی کیا گیا۔ گو کہ اس ملیشیا کو امریکہ کی جانب سے دہشت گرد قرار دیا جا چکا ہے لیکن عراقی عوام اس گروہ کو دولت اسلامیہ یعنی داعش کے خلاف جنگ لڑنے پر ہیرو کا درجہ دیتے ہیں۔ وہ اس گروہ کا حصہ بننے والے نوجوانوں (جن میں سے زیادہ تر کا تعلق غریب گھرانوں سے ہے)سے ہمدردی رکھتے ہیں۔ امریکہ نے یہ فضائی حملہ جمعے کو شمالی عراق میں موجود امریکی فوجی کنٹریکٹر کی راکٹ حملوں میں ہلاکت کے بعد کیا تھا۔ اس حملے میں کئی امریکی فوجی زخمی بھی ہوئے تھے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
واشنگٹن نے یہ دعوی کیا تھا کہ اس حملے کا ذمہ دار ایران ہے لیکن اس دعوے کا کوئی ثبوت پیش نہیں کیا گیا۔ امریکہ کی جانب سے ابھی یہ شواہد سامنے لانا بھی باقی ہے کہ وہ کیوں کتائب حزب اللہ کو اس حملے کا ذمہ دار سمجھتا ہے۔ کتائب حزب اللہ ان ایرانی حمایت یافتہ گروہوں میں سے ایک ہے جو امریکہ مخالف سمجھے جاتے ہیں۔ غیر جانبدار سیکورٹی ماہرین نے بھی اس خدشے کا اظہار کیا ہے کہ امریکی فوجیوں پر ہونے والے میزائل حملے میں ایرانی حمایتی یافتہ عراقی ملیشیا ملوث ہو سکتی ہیں۔ جس کی وجہ عراق میں موجود امریکی افواج کے اڈوں پر ہونے والے حملوں کا ایک طویل سلسلہ ہے۔
منگل کو امریکی حملے میں ہلاک ہونے والے افراد کا جنازہ اس وقت مظاہرے میں تبدیل ہو گیا جب شرکا نے بغداد میں واقع امریکی سفارت خانے کی جانب مارچ شروع کر دیا اور رکاوٹوں کو ہٹاتے ہوئے سفارت خانے کے داخلی دروازے میں داخل ہو گئے اور کمپاونڈ میں آگ لگا دی۔ بات چیت کے بعد مظاہرین کو سفارت خانے سے باہر نکلنے پر راضی کر لیا گیا لیکن مظاہرین کی جانب سے قلعہ نما عمارت کے باہر احتجاجی کیمپ لگا دیا گیا۔ یہ سفارت خانہ دنیا بھر میں امریکہ کا سب سے بڑا اور مہنگا سفارتی مشن ہے۔
بدھ کی صبح ایک بار پھر ہونے والے تصادم کے دوران کئی مظاہرین آنسو گیس سے زخمی ہو گئے۔
امریکہ کی جانب سے کمپاؤنڈ کی حفاظت کے لیے مزید اقدامات لیے جا رہے ہیں ۔ اطلاعات کے مطابق مزید سینکڑوں فوجیوں کو عراق روانہ کیا گیا ہے جنہیں بدھ کو ہیلی کاپٹرز کے ذریعے سفارت خانے میں اتار دیا گیا ہے۔
ایرانی سپریم لیڈر خامنہ ای کے غصے کے باعث بننے والی ٹویٹ میں صدر ٹرمپ نے کہا تھا کہ ’ ہمارے سفارت خانے میں جان اور مال کے نقصان کا مکمل ذمہ دار ایران کو ٹھہرایا جائے گا۔ وہ بہت بھاری قیمت چکائیں گے۔ یہ تنبیہ نہیں دھمکی ہے۔‘ لیکن عجیب طور پر صدر نے اپنی ٹویٹ کا اختتام ’ نیا سال مبارک‘ ہو کے الفاظ سے کیا۔
ایرانی رہنما خامنہ ای نے بدھ کو اپنی ٹویٹ میں لکھا کہ ’ اگر ایران کسی ملک سے لڑنا چاہتا تو ہم ایسا کھلے طور پر کرتے۔‘ یہ بیان ایران کی چار دہائیوں سے جاری اس سکیورٹی حکمت عملی سے تضاد رکھا ہے جو خفیہ اور بے قاعدہ اقدامات پر زور دیتی ہے۔
انہوں نے مزید لکھا کہ ’ ہم اپنے مفادات اور اپنے عوام کی عزت کے دفاع کے لیے تیار ہیں اور دھمکی دینے والوں کا سامنا کرنے اور بغیر کسے شبہے کے نقصان پہنچانے کے لیے تیار ہیں۔‘