آج سے ٹھیک دو برس قبل چار جنوری، 2018 کو قصور کی معصوم زینب اغوا ہوئی تھی۔ غیر انسانی سلوک کے بعد اپنے بہیمانہ قتل سے قبل اس نے اپنے سکول کا ہوم ورک مکمل کر لیا تھا، اس نے اپنے ننھے منے ہاتھوں سے کاپی پر لکھا:
میں ایک لڑکی ہوں۔
میرا نام زینب ہے۔
میرے والد کا نام امین ہے۔
میری عمر سات سال ہے۔
میں قصور میں رہتی ہوں۔
میں اول جماعت میں پڑھتی ہوں۔
مجھے آم پسند ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
البتہ آج زینب کے درندگی کا نشانہ بننے کے ایک سال بعد بھی اس کے ہم وطنوں نے زندگی کے سکول کا اپنا ہوم ورک شروع نہیں کیا۔
ہم نے اپنے آہنی ہاتھوں سے پتھر پر انمٹ الفاظ میں لکھنا ہے:
ہم ایک علم دوست، تعلیم یافتہ اور معتد ل مزاج قوم ہیں۔
ہمارے ملک کی عمر72 سال ہے۔
یہاں جہالت، تنگ نظری اور بنیاد پرستی کی کوئی گنجائش نہیں۔
ہمارے بابا کا نام محمدعلی جناح ہے۔
انہوں نے ہمارے لیے سماجی انصاف کے اصولوں پر مبنی خالصتاً جمہوری ریاست قائم کی۔
ہم پر بلا تفریق رنگ و نسل اورمذہب و ملت تحقیق اور سوچ کے دَر وا ہیں اور سب کو برابر کے حقوق حاصل ہیں۔
یہاں پر آئین اور قا نون کی حکمرانی ہے۔
ہم ہر پانچ سال بعد مکمل غیرجانبدرانہ، آزادانہ اور منصفانہ انتخابات کے ذریعے اپنے نمائندے منتخب کرتے ہیں۔
ہمیں ریاست کی طرف سے ہر طرح کا جانی اور مالی تحفظ حاصل ہے۔
ہمیں صحت اور تعلیم کی بہترین سہولتیں حاصل ہیں۔
ہر سرکاری دفتر میں ہماری عزت نفس کا پورا پورا خیال رکھا جاتا ہے۔
یہاں کوئی شعبدہ باز بنامِ وطن یا بہ حیلہ مذہب ہمارا جذبا تی استحصال کر کے اپنی دکان نہیں چمکا سکتا۔
ہمارے ملک میں یتیموں اور بیواؤں کے علاوہ بے کسوں کا ہر طرح سے خیال رکھا جاتاہے۔
ہمیں انسان پسند ہیں۔
خدا معلوم ہم اپنی اورکتنی زینبوں کو درندگی کی بھینٹ چڑھا کر اپنا ہوم ورک شروع کریں گے؟ فی الوقت تو ہم وہیں پر ہیں کہ:
گالیوں سے ٹھنسا ہوا بستہ
اورٹفن بھوک سے بھرا ہوا
زندگی ہم تیرے امتحان میں ہیں۔
زینب کو درندگی کا نشانہ بنانے والا اکیلا نہیں تھا، اس کے پیچھے ہوم ورک نہ کرنے والا پورایرغمال اور جامد ی سماج ہے۔
آبادی کا بے ہنگم پھیلاؤ، گھٹن، سوچ پر پہرے، علم دشمنی، جعلی اخلاقیات، کھوکھلی اقدار، دیمک زدہ افکار، غیر فطری ترجیحات، مقفل اذہان کا اجارہ اور جہالت کا راج جیسے بے شمار فطرت سے متصادم رویے اوراس پر مستزاد قانون کے نفاذ کی جنگل سے مشابہت۔
انتظامیہ کا مکروہ کردار، غلیظ تفتیشی نظام اور انصاف کا بوسیدہ اور زنگ آلود سسٹم۔ یہ سارے عوامل باہم مل کر ایک ایسا ابنارمل سماج تشکیل دیتے ہیں کہ جہاں باؤلے حیوان گھروں، مد رسوں اور کام کی جگہوں پر معصوم بچوں پر جنسی مظالم کی رونگٹے کھڑے کر نے والی داستانیں رقم کرتے ہیں۔
ان جگہوں پر مظالم کی بھینٹ چڑھنے والے زینب جیسے کتنے ہی بچے ہر روزان گھڑ سماج کے کوڑھ زدہ چہرے پر طمانچے رسید کر کے دنیا سے جاتے ہیں۔
یاد رہے کہ زندگی کے سکول کا ہوم ورک نہ کرنے والی جن قوموں کے بچوں کی مسخ شدہ لاشیں کُوڑے کے ڈھیروں سے ملتی ہیں، بے رحم تاریخ بھی ان قوموں کے چہرے مسخ کر کے انہیں اپنے کُوڑے دان میں پھینک دیتی ہے۔