’میں نویں جماعت میں تھی، جب پہلی مرتبہ مجھے پیریڈز ہوئے۔ میں نے چند دن قبل ہی کینسر سے متعلق ایک آرٹیکل پڑھا تھا تو مجھے ایسا لگا کہ شاید مجھے بھی کینسر ہوگیا ہے اور اب بس میں مرنے والی ہوں۔ جب میں نے امی کو اس بارے میں بتایا تو انہوں نے کہا کہ اپنی بڑی بہن کے پاس چلی جاؤ، وہ تمہیں ایک کپڑا دیں گی، اسے استعمال کرو۔‘
’میں نے 5 سال تک کپڑے کا استعمال کیا، لیکن جب میں 2008 میں فارمیسی کی تعلیم حاصل کرنے کے لیے اوکاڑہ سے فیصل آباد گئی تو وہاں ہاسٹل میں مجھے پہلی مرتبہ معلوم ہوا کہ سینیٹری پیڈز نام کی بھی کوئی چیز ہوتی ہے۔‘
’چھٹیوں میں گھر آکر جب میں نے امی کو بتایا اور ان سے کہا کہ وہ میرے لیے بھی یہ پیڈز خرید کر لائیں تو انہوں نے مجھ سے کہا کہ میں ایک ٹیچر ہوں، پورا اوکاڑہ مجھے جانتا ہے، میں دکان پر جاکر تمہارے لیے پیڈز نہیں خرید سکتی۔‘
’مجھے اس بات پر بہت غصہ آیا اور پھر میں نے خود فیصل آباد والس جاکر اپنے لیے پیڈز خریدے لیکن دکانداروں کی نظریں اور مختلف تبصرے برداشت کرنا واقعی بہت مشکل تھا۔‘
یہ کہانی ہے اوکاڑہ سے تعلق رکھنے والی صدف ناز کی، جو ہر گراؤنڈ کے نام سے ایک ویب پورٹل چلا رہی ہیں، جو خواتین کو ان کے گھر کی دہلیز پر سینیٹری پیڈز پہنچانے کے لیے سرگرم عمل ہے۔
ہمارے معاشرے میں حیض یا پیریڈ کے بارے میں بات کرنا اچھا نہیں سمجھا جاتا، خصوصاً شرم و حیا کے تصور کی وجہ سے اکثر خواتین کو پیڈز خریدنے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ لیکن جدید ٹیکنالوجی نے اس مشکل کو بھی حل کردیا ہے اور ہر گراؤںڈ ڈاٹ کام اس سلسلے میں ایک اہم نام کی حیثیت اختیار کرتا جارہا ہے۔
صدف نے انڈیپنڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے مزید بتایا، فیصل آباد میں 5 سال فارمیسی کی تعلیم مکمل کرنے کے بعد میں لاہور آگئی اور یہاں ملازمت شروع کردی، اگرچہ یہاں کا ماحول تھوڑا ایڈوانسڈ تھا لیکن پھر بھی پیڈز خریدنے کے لیے دکان جانے پر اُسی طرح کی صورتحال کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔ اکثر دکاندار کہتے، ’ٹھہر جا کاکی، پہلے میں ان مردوں کو فارغ کردوں، پھر آپ کو آپ کی چیز دیتا ہوں۔‘
صدف کے مطابق جب انھوں نے اپنی دیگر کولیگز سے پوچھا کہ کیا انہیں بھی اسی طرح کی صورتحال کا سامنا کرنا پڑتا ہے تو ان کا کہنا تھا کہ ’ہاں، ہمارے ساتھ بھی یہی ہوتا ہے، تم انوکھی نہیں ہو۔‘
بقول صدف جب انھوں نے ان سے کہا کہ آپ دکانداروں کو سنا کیوں نہیں دیتیں، تو ’میری کولیگز نے کہا کہ تم معاشرے کو تبدیل کرنے کی کوشش کر رہی ہو، ایسا کرو ہمارے لیے بھی پیڈز خرید کر لے آیا کرو‘۔
’اور پھر اگلے روز میں نے ایک ساتھ 14 پیکس خریدے، جس پر دکاندار بھی بہت حیران ہوا، لیکن مجھے کوئی فرق نہیں پڑا۔‘
صدف کہتی ہیں کہ اس سب کے بعد انھوں نے سوچا کہ یہ حل نہیں ہے، ہمارے معاشرے میں کتنی لڑکیاں ہیں، جنہیں پتہ ہی نہیں ہے کہ پیڈز بھی کوئی چیز ہوتے ہیں۔ جب میں نے ریسرچ کی تو مجھے پتا چلا کہ پاکستان میں اس حوالے سے کوئی اعدادوشمار ہی نہیں اور صرف 21 فیصد خواتین کو ہی حفظان صحت کی پروڈکٹس مثلاً پیڈز وغیرہ تک رسائی حاصل ہے۔
ویب سائٹ کیسے بنی؟
صدف نے بتایا: ’اُس وقت تک بھی مجھے ویب سائٹ یا کوئی پورٹل بنانے کا خیال نہیں آیا تھا، پھر ارفع کریم ٹیکنالوجی پارک میں ایک کانفرنس کے دوران بہت سی ماہر خواتین سے ملاقات ہوئی تو میں نے سوچا کہ کیوں نہ صحت اور ٹیکنالوجی کو ایک ساتھ جوڑ دیا جائے اور ایک ویب سائٹ بنائی جائے۔‘
’آئیڈیا تو بہت شاندار تھا، لیکن مسئلہ یہ تھا کہ میرے پاس پیسے نہیں تھے۔ پیسے جمع کرنے کے لیے میں نے چار سال تک اپنی فارمیسی کی ملازمت جاری رکھی۔ ایک ویب سائٹ بنانے والے نے ڈیڑھ لاکھ روپے درکار تھے، لیکن میں نے سوچا کہ بجائے پیسے دینے کے، کیوں نہ میں خود ہی اس فیلڈ میں طبع آزمائی کروں۔‘
فروری 2017 میں صدف نے ملازمت چھوڑ کر فوٹوگرافی، کنٹینٹ رائٹنگ اور ویب سائٹ کے لیے ضروری تکنیک سیکھیں اور پھر ایک ڈومین خرید کر ’ہر گراؤنڈ ڈاٹ کام‘ کے نام سے اپنی ویب سائٹ کا آغاز کر دیا۔
مصنوعات کی ڈیلیوری کیسے ہوتی ہے؟
صدف بتاتی ہیں کہ ’ہم تین ماہ کی سپلائی ایک ساتھ کرتے ہیں۔ پہلے پہل تو پیڈز کے باکسز ڈیلیور کرنے کے لیے ہمارے پاس صرف ایک ہی بندہ تھا، لیکن پھر ہم نے ایک کمپنی کے ساتھ پارٹنرشپ شروع کردی۔‘
انھوں نے بتایا کہ فی الوقت ان کی سروسز صرف لاہور اور اوکاڑہ ہی تک محدود ہیں، لیکن رواں سال مارچ سے وہ پورے پاکستان میں اپنی سروس کا آغاز کرنے جا رہے ہیں۔
اس بارے میں وہ کہتی ہیں: ’سروس کے آغاز میں ہم نے مختلف کالجوں اور یونیورسٹیوں میں سروے کیا اور صرف ایک ہی برانڈ کی ڈیلیوری شروع کی، لیکن اب ہمارے پاس دیگر برانڈز کے پیڈز بھی موجود ہیں۔ اس کے علاوہ ہم مانع حمل ادویات اور پریگنینسی کٹس وغیرہ بھی رکھ رہے ہیں، جنہیں خواتین باآسانی آن لائن منگوا سکتی ہیں۔‘
آگہی کی اشد ضرورت ہے
صدف خواتین کو آسانی فراہم کرنے کے ساتھ ساتھ بچیوں میں اس حوالے سے آگہی بیدار کرنے کے لیے بھی کوشاں ہیں۔ انھوں نے بتایا کہ ’ہمارے ملک میں خواتین کی صحت و صفائی کے حوالے سے آگہی کی بہت ضرورت ہے، یہی وجہ ہے کہ ہم ہر ماہ ملنے والے تمام آرڈرز کے منافع کا پانچ فیصد مختلف سرکاری سکولوں میں جاکر بچیوں میں صحت و صفائی اور پیریڈز کے حوالے سے شعور بیدار کرنے کی کوشش پر صرف کرتے ہیں جبکہ وہاں سستی پروڈکٹس بھی رکھوائی جاتی ہیں تاکہ بچیاں اُن سے فائدہ اٹھا سکیں۔‘
تاہم انھوں نے شکوہ کیا کہ اکثر سرکاری سکولوں کی خواتین اساتذہ کی جانب سے بھی انہیں اچھا رسپانس نہیں ملتا اور سمجھا جاتا ہے کہ شاید وہ فحاشی پھیلانے کی کوشش کر رہے ہیں یا بچیوں کے ذہنوں کو خراب کر رہے ہیں، جبکہ انہیں یہ سمجھنا چاہیے کہ اس طرح بچیوں میں ان کے بنیادی حقوق سے متعلق آگاہی اور اعتماد پیدا ہوگا۔
صدف کے مطابق، ’حیض یا پیریڈ ایک نارمل چیز ہے، اسے بیماری نہ سمجھیں، لیکن اسے آسان بنانے کے لیے دستیاب چیزوں سے فائدہ ضرور اٹھائیں۔‘
اگرچہ ہر گراؤنڈ ڈاٹ کام اس طرح کا واحد اسٹارٹ اپ نہیں ہے، دراز ڈاٹ پی کے اور دوائی ڈاٹ پی کے بھی خواتین کے لیے سینیٹری پروڈکٹس فراہم کرنے والی بڑی ویب سائٹس ہیں، لیکن ہر گراؤنڈ کی خاص بات یہ ہے کہ یہ صرف خواتین کی مخصوص مصنوعات کو ہی ڈیل کرتی ہے۔
ملک کی 48 فیصد آبادی پر مشتمل خواتین کی بنیادی ضروریات کو احسن طریقے سے پورا کرنے کے لیے صدف ناز نےتو قدم اٹھایا ہے، اب دیکھنا یہ ہے کہ خواتین کس طرح اس سے استفادہ کرتی ہیں اور یہ پروجیکٹ مزید کتنا پھلتا پھولتا ہے۔