میز کے ساتھ کھڑے بچے نے ایڑیاں اُٹھا اُٹھا کر سفارشی رقعہ پڑھ تو لیا تھا مگر مفہوم اسے برسوں بعد سمجھ آیا تھا۔ لکھنے والے خوش نویس نے بےتکلفی اور قدرے تحکمانہ انداز میں فقط چار سطریں لکھیں:
’ڈیئر چوہدری،
’یہاں کون رشوت نہیں لیتا؟
’کیا آپ نہیں لیتے؟
اپنے کیے کی سزا بھگت چکا، بحال فرمائیں۔‘
ماضی میں ایڑیاں اٹھا کر مختصر سا سفارشی خط پڑھنے والے آج کے اِس ادنیٰ قلم کار کے ذہن پر ابھی تک یہ رقعہ ثبت ہے۔ طالب علم کو برسوں بعد خط کا مفہوم ہی نہیں، سفارشی رقعہ لکھوانے اور لکھنے والی کی گفتگو بھی سمجھ آ گئی تھی۔
سائل لائل پور میں کلرک تھا، جسے پانچ سو روپے رشوت لینے کی پاداش میں ڈپٹی کمشنر نے ملازمت سے برطرف کر دیا تھا۔ قصبے کے ڈاک خانے کا انچارج محمد اکرم آج بھی زندہ ہے اور چٹخارے لے کر سفارشی خط کا قصہ سناتا ہے۔
برطرف شدہ اہلکار محمد اکرم کا رشتہ دار تھا، جو یہ سن کر اس کے پاس آیا تھا کہ ڈی سی صاحب اس کے علاقے کے ہیں، لہٰذا وہ ان کی کوئی تگڑی سی سفارش ڈھونڈ دے۔ محمد اکرم اسے لے کر پٹواری قصبہ کے پاس آیا اور درخواست کی کہ کسی سے کہہ کر ڈپٹی کمشنر کو کوئی مضبوط سی سفارش کرا دیں تاکہ غریب نوکری پر بحال ہو سکے۔
بارعب اور دبنگ سے نوجوان پٹواری نے کرسی پر بیٹھے بیٹھے بے نیازی سے قلم اٹھایا اور میز پر پڑے کاغذ پر مختصر سا خط لکھا، ’تمہارے ڈی سی صاحب میرے دوست ہیں، میں خود ہی رقعہ لکھ دیتا ہوں۔‘
کلرک کے چہرے پر مایوسی چھا گئی مگر مروتاً کہہ نہ سکا کہ میں نے بڑی سی سفارش کروانی ہے، کوئی جھک نہیں مارنی۔ البتہ خط پڑھتے ہی اس کی قوت برداشت جواب دے گئی۔ کہنے لگا، ’چوہدری صاحب، پہلے صاحب نے مجھے برطرف کیا، اب آپ مجھے پھانسی بھی لگائیں گے۔‘
اسے سخت لہجے میں جواب ملا، ’اگر ملازمت پر بحال ہونا ہے تو یہی خط کام آئے گا۔‘ ملازم بتاتا تھا جب اس نے ڈرتے ڈرتے صاحب کو خط پیش کیا تو پڑھ کر مسکرا دیے اور ملازم بحال ہو گیا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
خود اعتمادی کی دولت سے مالا مال یہ عجیب وغریب پٹواری ایسا ہی تھا۔ انڈپینڈنٹ اردو کے انہی صفحات پر گذشتہ برس 24 اور 26 جولائی کی دو اقساط میں کھلی کچہری کے دوران آپ اس پٹواری کا بم مکالمہ پڑھ چکے ہیں کہ پٹواری چھوٹا چور ہے اور ملک کا صدر ایوب خان بڑا چور ہے۔
پٹواری ادنیٰ درجے کا سرکاری ملازم تھا مگر دوستی اور دشمنی میں انتہا پسند۔ ثبوت زیر نظرہے کہ وفاقی سیکریٹری اسٹیلشمنٹ افضل کہوٹ نے گاؤں آ کر اپنے ہاتھوں سے اس کی قبر مٹی ڈالی۔ اکثر یوں ہوتا کہ رات کو پی ٹی سی ایل کے فون کی گھنٹی بجتی اور چیف سیکریٹری پنجاب کامران رسول کا آپریٹر کہتا، ’چیف سیکریٹری چوہدری صاحب (پٹواری) سے بات کریں گے۔‘
وہ قانون گو تعینات تھا توبرسر اقتدار ایک ریٹائرڈ جنرل سیاست دان نے اسے ووٹ نہ دینے کی پاداش میں نشانے پر رکھ لیا۔ آئے روز تبادلے، انکوائریاں اور جھوٹے پرچے۔
ایک مرتبہ ایسے ہی ایک جعلی مقدمے میں پٹواری جیل میں تھا۔ اس کا پریشان حال بیٹا اسے ملنے گیا تو اس کا والد جیل کے لان میں ٹہل رہا تھا۔ وہ بیٹے کو دیکھتے ہی آگ بگولا ہو گیا اور سختی سے کہا، ’کوئی قیامت نہیں آ گئی۔ پہلے گھر جا کر شیو کر کے صاف ستھرے کپڑے پہنو اور پھر با عزت طریقے سے آؤ۔‘
بیٹے نے سیاسی پردھانوں کا پیغام دیا کہ وہ کہتے ہیں کہ اگر بیٹا ان کے ڈیرے پر آ کر معافی مانگ لے تو ضمانت ہو سکتی ہے۔ پٹواری نے سختی سے منع کرتے ہوئے تاریخی جملہ کہا، ’نوکری حکومت نے دی ہے اور رزق خدا کے ہاتھ میں ہے، یہ لوگ میرا کچھ نہیں بگاڑ سکتے۔‘
پھر وہ وقت بھی آیا جب ایک تقریب میں اسی سیاسی رہنما اور پٹواری کا آمنا سامنا ہو گیا، ہم بھی وہیں موجود تھے۔ سیاستدان نے اس سے مصافحے کے لیے ہاتھ بڑھایا تو پٹواری نے سگریٹ بائیں ہاتھ میں پکڑتے ہوئے احترام سے کہا، ’سر، آپ وفاقی وزیر ہیں اور میں معمولی سرکاری ملازم، ہمارا کوئی جوڑ نہیں، جب ہم ایک دوسرے کو ایک آنکھ نہیں بھاتے تو پھر سلام دعا کی منافقت بھی کیا کرنی۔‘
بہت پہلے جب وہ کلرکہار میں پٹواری تعینات تھا تو دراز ریش دپٹی کمشنر ضلع، دوستوں اور فیملی کے نو رکنی وفد کے ساتھ وہاں غیر سرکاری دورے پر تشریف لائے۔ ریسٹ ہاؤس پہنچتے ہی انہوں نے ہرممبر کے لیے سالم دیسی روسٹ مرغ، دو بکروں کی بھنی ہوئی کلیجی، بریانی، پلاسٹک کے تاش کے دوپیکٹ کے علاوہ وسیع و عریض مینیو کی لسٹ پٹواری کو فراہم کر دی۔ صبح کے پرتکلف ناشتے کی فہرست بھی عنایت کر دی گئی۔ پٹواری نے رات گئے شرفائے دیہہ کے دروازے کھٹکھٹا کر بھاری بھرکم پیٹوں کے یہ جہنم بھرے۔ دوسرے دن لنچ کے بعد سرکاری پروٹوکول کے ساتھ یہ قافلہ گاڑیوں میں روانہ ہونے لگا تو ڈپٹی کمشنر نے چونک کر کہا، ’ٹھہرو میں نماز پڑھ لوں ورنہ ظہر کا وقت نکل جائے گا۔‘
عجلت میں پوچھا، ’قبلہ کس طرف ہے؟‘
پٹواری نے بے ساختہ کہا، ’کچن کی طرف۔‘
ڈپٹی کمشنر بپھر گئے۔ غصے سے دھاڑے، ’بدتمیز پٹواری، میں تمہارا طنز سمجھ گیا ہوں۔ تمہیں سیدھا کر دیا جائے گا۔‘
اسسٹنٹ کمشنر اور دیگر افسران نے اس گستاخی پر پٹواری کو خوب مطعون کیا۔ جب لعن طعن حد سے بڑھا اور معافی مانگنے سے بھی بات نہ بنی تو دفعتاً پٹواری نے پینترا بدلا اور سب کے سامنے بم پھوڑ دیا، ’ہاں ہاں صاحب میں نے جان بوجھ کر تمہارا قبلہ کچن کی طرف بتایا تھا، کل سے حرام کھا رہے ہو، اب جاتے ہوئے خدا کو دھوکہ دے رہے ہو یا خود کو؟‘
پٹواری نمازی اور روزہ دار ہونے کے باوجود پارسائی کا دعوے دار نہ تھا۔ البتہ اسے کربلا والوں سے بے پناہ محبت تھی، اپنی جان و مال اور اولاد سے بھی زیادہ۔ اس نے تو اپنا کفن بھی کربلا سے منگوا یا تھا۔ یہ محبت اس کی گفتار تک محدود نہ تھی، اس کے کردار سے بھی جھلکتی تھی۔ اس نے 82 سال کی عمر تک بے شمار مرتبہ کلمہ حق بلند کیا۔ وہ اس کار خیر سے قبل جابر کا قد کاٹھ ماپنے کا قائل نہ تھا۔ دو چیزیں اس کی زندگی کا لازمی حصہ تھیں۔ ایک تسبیح اور دوسرا اس کا پستول۔ آخری وقت بھی یہ دونوں چیزیں اس کے پاس تھیں۔ وہ ایک بارعب، نفیس المزاج، کثیر المطالعہ، کم خوراک، خوش لباس، خوش نفیس، خود دار اور خود اعتمادی جیسی خصوصیات کا مالک تھا۔ اس نے پسماندہ سے گائوں کے ایک سفید پوش زمیندار گھرانے میں آنکھ کھولی اور وہیں بند کی۔ جس دن وہ قانون گو کی حیثیت سے ریٹائرڈ ہوا، اس دن اس کے پاس باپ داد کی چھوڑی محدود سی بارانی زمین اور اطمینان کے سوا کچھ نہ تھا۔
اسے مریض کہلانے یا اٹھنے بیٹھنے کے لیے دووسروں کی مدد حاصل کرنے سے نفرت تھی۔ آخری لمحوں میں جب اس کی سانسیں اکھڑ رہی تھیں، وہ بڑے سے تکیے سے ٹیک لگائے نیم دراز ہر کسی کی بات کا بقائمی ہوش و حواس، باوقار انداز می جواب دینے کی کوشش کر رہا تھا۔ آخری چند منٹوں میں اس کی بہن نے اس کا ڈھلکا ہوا تکیہ سیدھا کر نے کی کوشش کی تو پٹواری نے اس کا ہاتھ سختی سے جھٹک کر تکیہ خود سیدھا کیا۔ دوسری بہن نے ان کی پیشانی کا پسینہ صاف کرنا چاہا تو اس نے بہن کے ہاتھ سے رومال چھین کر خود پسینہ صاف کیا۔ وہ آخری لمحات میں بھی وہ اپنی تسبیح اور پستول سنبھالتا رہا۔
وہ اپنے بچوں کو چار نصیحتیں کر کے گیا تھا۔ اول یہ کہ کسی کا حق نہیں مارنا اورمصیبت کے وقت بلا خوف غریب کے ساتھ کھڑے ہو جانا۔ دوم یہ کہ یاد رکھو، یہ بڑے بڑے بدمعاش، چور، ظالم، بد کردار اور کرپٹ لوگب اندر سے بڑے کمزور ہوتے ہیں، سو ان سے ڈرنا نہیں چاہیے۔ سوم یہ کہ ان سب کا قبلہ ہمیشہ کچن کی طرف ہوتا ہے۔ پھر اس بیمارنحیف بوڑھے نے کڑک دار لہجے میں کہا، ’سنو، فرعون جتنا بھی بڑا ہو، کوس بھر کے فاصلے سے گولی چلائی جائے تو منہ کے بل گرتا ہے۔‘
اس کے بچوں نے ایسی حالت میں انہیں اسلام آباد ڈاکٹر کے پاس جانے کے لیے گاڑی میں بیٹھنے کے لیے ضد کی تو نحیف بوڑھے نے زندگی میں پہلی دفعہ کمزور بات کی مگر وہ بھی اپنے روایتی مضبوط لہجے میں، ’میں اسلام آباد نہیں پہنچ سکوں گا۔‘
انہوں نے مرتے وقت بھی اپنی رویتی خوش لباسی کا خیال رکھا اوربستر مرگ پر بھی کلف زدہ کاٹن کے بے داغ سوٹ میں باوقار انداز میں جان جان آفریں کے سپرد کی۔
ہمارے والد چوہدری شاہ نوازخان سات جنوری 2016 کو زینہ ہستی سے اُتر گئے مگر ہمارے دلوں سے کبھی نہیں اتریں گے:
تم ہو اک زندہ و جاوید روایت کے چراغ
تم کوئی شام کا سورج ہو کہ ڈھل جاؤ گے