فن لینڈ کی ایک کمپنی نے دعویٰ کیا ہے کہ اس نے ہوا سے خوراک بنانے میں کامیابی حاصل کرلی ہے، جس سے نہ صرف دنیا بھر میں خوراک کا مسئلہ حل ہو سکتا ہے بلکہ اسی تیر کے دوسرے شکار سے ماحولیاتی تبدیلی کا بھی خاتمہ کیا جا سکتا ہے۔
بظاہر تو یہ کوئی معجزہ ہی لگتا ہے اور ماضی میں ایسے کئی سبز باغ دکھائے گئے جن پر کبھی بہار نہیں آئی، لیکن اب کی بار معاملہ اور لگتا ہے۔ ماہرین کہتے ہیں کہ سولر فوڈز نامی اس کمپنی کے دعوے میں وزن ہے اور واقعی یہ دنیا کو درپیش بڑے مسائل حل کرنے کی صلاحیت رکھتی ہے۔
مگر ہوا سے خوراک کیسے تیار ہوگی؟
انسان پچھلی دو صدیوں سے ہوا میں لگاتار ڈھیروں ڈھیر کاربن ڈائی آکسائیڈ پھینک رہا ہے، اسی گیس کی بتدریج بڑھتی ہوئی مقدار سے دنیا گرم ہوتی جا رہی ہے اور خدشہ ہے کہ آئندہ چند عشروں کے اندر موسم مکمل طور پر تبدیل ہو جائیں گے، سمندر کی سطح اوپر اٹھ کر ساحلی علاقوں کو غرق کر دے گی اور بارشوں اور طوفانوں کی شدت میں بے پناہ اضافہ ہو جائے گا۔ یہ تمام چیزیں انسانی تہذیب کے لیے زبردست خطرہ ہیں۔
لیکن اسی کاربن ڈائی آکسائیڈ میں دو ایسے عناصر موجود ہیں جو ہر جانور اور پودے کے لیے لازمی ہیں، یعنی کاربن اور آکسیجن ۔ سولر فوڈ کی مشین ہوا سے کاربن ڈائی آکسائیڈ کھینچ کر اسے بجلی کی مدد سے پانی کے ساتھ ملاتی ہے اور پھر مشین کے اندر موجود جراثیم خمیر کے عمل سے اس آمیزے کو پروٹین میں تبدیل کرلیتے ہیں۔
اس طرح تیار ہونے والی پروٹین سولین کہلاتی ہے جو دیکھنے میں عام آٹے کی طرح دکھائی دیتی ہے اور کمپنی کے مطابق اس کا کوئی ذائقہ اور بُو نہیں ہے، اس لیے اسے کسی بھی دوسری خوراک کے ساتھ ملا کر کھایا جا سکتا ہے۔
اس آٹے میں نمک، مصالحے اور گھی ڈال کر برگر بنائے جا سکتے ہیں، میٹھا شامل کر کے مزیدار پکوان پکائے جا سکتے ہیں اور اس کی مدد سے کیک، پیسٹریاں اور دوسری سینکڑوں قسم کی خوراکیں تیار کی جا سکتی ہیں۔
اس عمل میں بجلی ضرور استعمال ہوتی ہے، لیکن سولر فوڈز کمپنی کا کہنا ہے کہ بجلی ماحول دوست ذرائع سے حاصل کی جائے تو یہ تمام عمل بے حد ’سرسبز‘ ہو جاتا ہے۔
جن لوگوں کو یہ بات ناقابلِ یقین لگے کہ ہوا سے خوراک کیسے تیار ہو سکتی ہے، ان کی خدمت میں عرض ہے کہ پودے سارا دن یہی کام کرتے ہیں اور فوٹو سنتھیسس کے ذریعے کاربن ڈائی آکسائیڈ اور پانی کو آپس میں ملا کر اپنے لیے خوراک تیار کرتے ہیں۔ فرق صرف اتنا ہے کہ پودے اس مقصد کی لیے سورج کی روشنی سے توانائی حاصل کرتے ہیں، جب کہ سولر فوڈز کی تکنیک بجلی سے چلتی ہے۔ کمپنی کا دعویٰ ہے کہ یہ عمل فوٹو سنتھیسس کے قدرتی طریقے سے دس گنا زیادہ موثر ہے۔
اس کا فائدہ کیا ہو گا؟
سب سے پہلی بات یہ ہے کہ سولین کی تیاری پر عام خوراک کی نسبت بہت کم پانی خرچ ہوتا ہے۔
سولر فوڈز کا کہنا ہے کہ اس کی خوراک پر فصلوں کے مقابلے میں ایک سو گنا کم پانی خرچ ہوتا ہے، جب کہ گوشت کے مقابلے میں پانی کا خرچ 500 گنا کم ہے۔
کمپنی نے اپنی ویب سائٹ پر یہ بھی کہا ہے کہ ایک ہیکٹیئر (12 ہزار مربع گز) اراضی سے صرف 60 کلوگرام پروٹین حاصل کی جا سکتی ہے، جب کہ اسی زمین پر فصل اگانے سے ایک ٹن پروٹین ملتی ہے، لیکن سولر فوڈز کے ذریعے اسی قدر زمین 60 ٹن خوراک کشید کی جا سکتی ہے۔
اس کے علاوہ ماحولیاتی آلودگی کے لحاظ سے بھی سولر فوڈز بے حد موثر ٹیکنالوجی ہے۔ جہاں فی کلو گوشت کی پیداوار سے 45 کلوگرام اور فی کلو فصل سے دو کلوگرام کاربن ڈائی آکسائیڈ خارج ہوتی ہے، سولر فوڈز فی کلو صرف 400 گرام کاربن ڈائی آکسائیڈ پیدا کرتا ہے۔
اس کے علاوہ اس ٹیکنالوجی کا یہ فائدہ بھی ہے کہ اسے دنیا کے کسی بھی علاقے میں قائم کیا جا سکتا ہے، اس کے لیے زرخیز زمین، آب پاشی کی سہولت اور مناسب آب و ہوا کی ضرورت نہیں ہے۔ بس تھوڑا سا پانی اور شمسی توانائی کے پینل سارا کام کر سکتے ہیں اور ہوا تو ظاہر ہے کہ ہر جگہ ہوتی ہی ہے۔
ایک اور زرعی انقلاب؟
انسان کی تاریخ میں ایک بڑا انقلاب اس وقت آیا تھا جس آج سے تقریباً دس ہزار سال قبل اس نے خانہ بدوشی کی زندگی چھوڑ کر کھیتی باڑی اپنا لی تھی۔ ماہرین کہتے ہیں کہ سولر فوڈز کا یہ تجربہ اس کے بعد سے دوسرا بڑا انقلاب بن سکتا ہے اور اگر یہ اپنے دعووں پر پورا اترا تو اس سے نہ صرف کروڑوں لوگوں کو خوراک فراہم کی جا سکتی ہے (یاد رہے کہ اس وقت دنیا کے تقریباً ایک ارب انسانوں کو پیٹ بھر کھانا نہیں ملتا)، بلکہ ساتھ ہی ساتھ ماحولیاتی آلودگی اور پانی کی بڑھتی ہوئی قلت جیسے فوری مسائل کی روک تھام بھی ہوسکے گی۔
مزید یہ کہ دنیا کا بہت بڑا رقبہ جو اس وقت کھیتی باڑی اور گلہ بانی میں خرچ ہو رہا ہے، اس کا بہت چھوٹا سا حصہ سولین بنانے کی تیاری میں لگا کر بقیہ پر عالمگیر پیمانے پر جنگلات اگائے جاسکتے ہیں، جس سے ماحول مزید سرسبز و شاداب بنایا جا سکتا ہے۔
نئے جنگل اُگ آئے تو اس سے ان جانوروں، پرندوں اور پودوں کو دوبارہ پھلنے پھولنے کا موقع ملے گا جو اس وقت زراعتی تجاوزات کے ہاتھوں معدومی کے دہانے پر پہنچ چکے ہیں۔
لیکن یہ یاد رہے کہ فی الحال یہ تمام باتیں تجربے کی سطح پر ہیں۔ انگریزی محاورے کے مطابق: There is many a slip between the cup and the lip
سولر فوڈز کو تجارتی بنیادوں پر کام شروع کرنے اور سولین کو مارکیٹ تک پہنچانے میں ابھی دو سال باقی ہیں۔ پھر ایک اور امتحان یہ بھی ہے کہ اسے گوشت آٹے دال وغیرہ کے ساتھ بھاؤ میں بھی مقابلہ کرنا پڑے گا، ورنہ اگر اس کی قیمت ہی جیب کی برداشت سے باہر ہو تو کیا فائدہ۔
لیکن اس وقت تک ہم اس ’معجزے‘ کے عمل میں آنے کے انتظار میں ہیں۔