کیا پاکستانی معاشرہ غیر ملکی سیاحوں کے لیے تیار ہے؟

بے شک پاکستان ایک خوبصورت ملک ہے اور یہاں کے لوگوں کے دل بھی بہت بڑے ہیں لیکن کیا دل ابھی فرنگیوں کو خوش آمدید کہنے کے لیے تیار ہیں؟

کینیڈا سے تعلق رکھنے والی روزی گیبریئل بلوچستان میں (اے ایف پی)

موجودہ حکومت پاکستان میں سیاحت کو فروغ دینے کے لیے کافی کام کر رہی ہے۔ 2019 میں ای ویزا سکیم کے تحت 175 ممالک کے لیے ای ویزا کی سہولت دی گئی۔ اس کے علاوہ سیاحوں کے لیے گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر کے علاقے بھی کھولے گئے۔

اسی دوران کچھ مشہور سیاحوں نے پاکستان کا دورہ بھی کیا جن میں امریکہ سیاح ڈریو بنسکی اور مارک وینز شامل ہیں۔ دونوں سیاحوں نے اپنے اپنے دورے کی خوب پبلسٹی کی اور پاکستان کو سیاحوں کے لیے محفوظ ترین ملک قرار دیا لیکن کیا پاکستان سیاحوں کے لیے اتنا ہی محفوظ ملک ہے؟

حقیقت میں ڈریو بنسکی اور مارک وینز کے یہ ٹور پہلے سے پلان شدہ تھے، ان کی طرف سے بھی اور ان کے سپانسروں اور میزبان کی طرف سے بھی۔ ان کے ٹور کے دوران انہیں تمام تر سہولیات فراہم کی گئیں تھیں۔ ایسے سیاحوں کے لیے تو پاکستان بہت محفوظ ہے لیکن ان کا کیا جو ہمارے لیے تو 'گورے' ہیں لیکن اپنے ملک میں ایک عام انسان ہیں؟ ایسے سیاح سال بھر پیسے کماتے ہیں اور سال کے آخر میں چھٹی منانے کے لیے کسی نہ کسی ملک کا رُخ کرتے ہیں۔ جب یہ سیاح پاکستان آتے ہیں تو یہاں انہیں خوش آمدید کہنے والا کوئی نہیں ہوتا۔ انہیں اپنا ٹرپ خود ہی پلان کرنا ہوتا ہے جیسے وہ دنیا کے کسی بھی دوسرے ملک میں پلان کرتے ہیں۔ پاکستان میں ٹرپ پلان کرتے ہوئے انہیں محتاط رہنا پڑتا ہے۔ یہ صبح سویرے اٹھ کر انارکلی بازار اور شام میں اچھرہ بازار کی سیر کو نہیں جا سکتے۔ اگر چلے بھی جائیں تو ان کا کیا حال ہو گا، یہ تصور کیا جا سکتا ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

ایسے سیاح پولیس اور خفیہ ایجنسیوں سے بھی نالاں نظر آتے ہیں۔ کئی سیاحوں نے سکیورٹی اداروں کی طرف سے ہراساں کیے جانے کی بھی شکایت کی تھی۔ ایک خاتون سیاح نے کہا کہ انہیں ان کی حفاظت کے لیے ایک پولیس کانسٹیبل دیا گیا تھا۔ تاہم کچھ دیر بعد وہی کانسٹیبل انہیں غیر مناسب انداز میں تنگ کر رہا تھا۔ اس کے علاوہ کچھ سیاحوں نے غیر سرکاری بندشوں کا بھی ذکر کیا۔

پاکستان میں ہوٹلوں کے کرائے بھی بہت زیادہ ہیں۔ فرنگی بجٹ ٹریولر ہوتے ہیں۔ یہ ایک مخصوص بجٹ میں رہتے ہوئے اپنا ٹرپ مکمل کرنا چاہتے ہیں۔ سیاحت میں سب سے بڑا خرچہ رہائش کا ہوتا ہے۔ جو سیاح رہائش پر کم سے کم خرچنا چاہتے ہیں، ان کے لیے پاکستان میں یہی سب سے بڑا خرچہ بن جاتا ہے۔ مشہور سیاحتی مقامات جیسے کہ مری، ناران، کاغان میں لاہور اور کراچی سے آئے لوگوں سے بھی منہ مانگے دام وصول کیے جاتے ہیں۔  ایسی جگہوں پر غیر ملکیوں کو دونوں ہاتھوں سے لوٹا جاتا ہے۔ ان مقامات پر کسی بھی عام درجے کے ہوٹل کا کرایہ فی رات سات ہزار سے 20 ہزار پاکستانی روپے تک ہو سکتا ہے جو سیاحوں کے بجٹ کو ہلانے کے لیے کافی ہے۔

علاوہ ازیں، فرنگی ہمارے لوگوں کے لیے کسی خلائی مخلوق سے کم نہیں ہیں۔ کہیں کوئی فرنگی نظر آ جائے ہم سب کام چھوڑ کر اسے دیکھنے لگ جاتے ہیں۔ چھوٹے شہر تو دور کی بات ہیں، ہمارے بڑے شہروں مثلاً لاہور، کراچی یا اسلام آباد تک میں کوئی فرنگی نظر جائے تو سب کی گردنیں خود بخود اسی کی طرف مڑ جاتی ہیں۔ ہر انسان کا اپنا مزاج ہوتا ہے۔ کچھ کو یہ رویہ پسند آتا ہے تو کچھ اس سے پریشان بھی ہو جاتے ہیں۔ خواتین سیاحوں کو مختلف قسم کی ہراسانی کا سامنا بھی کرنا پڑتا ہے۔ گوریاں تو اس سلوک سے کس قدر بچ جاتی ہیں لیکن ایسی خواتین جو شکل و صورت میں پاکستانی خواتین سے ملتی ہوں انہیں انتہائی ہولناک تجربات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

پاکستان ثقافتی لحاظ سے بھی سیاحوں کو خوش آمدید کہنے کے لیے تیار نہیں ہے۔ ان کے ہاں ہماری نسبت ’کھلا ماحول‘ ہے۔ یہ لوگ گھر کے باہر بھی بیوی کو اتنا ہی اپنا سمجھتے ہیں جتنا گھر کے اندر۔ ان کے ہاں چلتے ہوئے ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑنا، گلے لگانا یا گالوں اور ہونٹوں پر بوسہ دینا معمولی سی باتیں ہیں۔ ان کے محبت کے یہ انداز ہمارے لوگوں کو عجیب لگ سکتے ہیں۔  

ہم لوگ مذہبی لحاظ سے بھی کافی حساس واقع ہوئے ہیں۔ کسی سیاح کے منہ سے اس کے ملحد ہونے کا سن کر ہمارے چہرے سفید پڑ سکتے ہیں۔ پاکستان آنے والے سیاحوں کو نرم انداز میں یہاں کے لوگوں کے مذہبی احساسات اور مذہب کے بارے میں بنیادی معلومات فراہم کرنی چاہیے تاکہ وہ کسی بھی نا خوشگوار صورت‌حال سے بچ سکیں۔

بے شک پاکستان ایک خوبصورت ملک ہے اور یہاں کے لوگوں کے دل بھی بہت بڑے ہیں لیکن یہ دل ابھی فرنگیوں کو خوش آمدید کہنے کے لیے تیار نہیں ہیں۔

حکومت پاکستان میں سیاحت کو فروغ دینے کے حوالے سے سنجیدہ ہے تو اسے ہر سیاح کو محفوظ ماحول فراہم کرنے کی طرف سوچنا چاہیے۔ پاکستان آنے والا ہر سیاح ہمارا سفارت کار ہے۔ اگر یہاں اسے اچھے حالات ملیں گے تو وہ اپنے وطن واپس جا کر اپنے دوستوں کو بھی یہاں آنے کی ترغیب دے گا۔ اگر اس کا تجربہ اچھا نہ رہا تو شاید وہ خود بھی کبھی واپس نہ آئے اور ہم یقیناً ایسا نہیں چاہتے۔

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ