لوئس تھرو کی نئی دستاویزی فلم ’سیلنگ سیکس‘ (بی بی سی 2) کا مرکزی خیال یہ ہے کہ سوشل میڈیا نے سیکس کی آن لائن فروخت آسان کر دی ہے۔ جنسی کارکنوں اور گاہکوں کے اکثر آن لائن پروفائل بنے ہوئے ہیں جن میں درجہ بندی اور جائزے شامل ہوتے ہیں اور محض ایک کلک سے فریق ایک دوسرے کو دیکھ بھال سکتے ہیں۔ ایسی آسانی کے بارے میں ان کے آباؤ اجداد صرف خواب دیکھ سکتے تھے۔
لوئس اس ’نئی جنسی معیشت‘ کی تحقیقات کرنے کا وعدہ کرتے ہیں، ایک ایسے وقت میں جب سمارٹ فون رابطے کا بنیادی طریقہ بن گیا ہے، اس بنیادی کاروبار میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ یہ فلم گذشتہ 15 سالوں میں کسی بھی وقت بنائی جا سکتی تھی۔ انہوں نے نیواڈا میں اس سے قبل بھی جسم فروشی کا احاطہ کیا ہے تاہم یہ مرکزی سوال کہ آیا جنسی فروخت کبھی پیسے بنانے کا ایک صحت مند طریقہ بن سکتا ہے تبدیل نہیں ہوا ہے۔
اس کا مطلب یہ نہیں کہ یہ انسانی اور دلچسپ نہیں ہے۔ ان کے کردار زندگی کے مختلف مراحل میں تین خواتین جنسی کارکن ہیں جو مختلف زاویوں سے کام کو دیکھتی ہیں۔
کیرولین کی شادی ایک چارٹرڈ سرویئر گراہم سے 44 سال قبل ہوئی۔ انہوں نے مغربی سسیکس کے روایتی لائف سٹائل کے تحت زندگی گزاری۔لیکن کیرولین کو حال ہی میں محسوس ہوا کہ جسم فروشی ایک منافع بخش اور بااختیار کام ہے۔ فلم کے افتتاحی منظر میں وہ اپنے شوہر سے اس بات کی اجازت طلب کرتی ہیں کہ وہ انہیں ایک گھنٹے کے لیے ایک گاہک کے پاس جانے دے۔
33 سالہ وکٹوریہ نوٹنگھم سے تعلق رکھتی ہیں، جو اس کاروبار میں اپنے چار بچوں کو ایک بہتر زندگی فراہم کرنے کے لیے آئیں۔ اسی طرح 23 سالہ ایشلے لندن کی طالب علم ہیں جو نو سے پانچ نجے نوکری سے بچنے اور فنکارانہ مشاغل کے لیے وقت نکالنے کے لیے یہ کام کر رہی ہیں۔
لوئس گھر میں اور کام پر ان کے ساتھ وقت گزارتے ہیں۔ ہر کیس میں پہلا پُر اعتماد تاثر بعدازاں کچھ زیادہ پیچیدہ باتیں سامنے لاتا ہے جب کہ وکٹوریہ اور ایشلے کے بچپن کے سانحے بھی سامنے آتے ہیں۔
دستاویزی فلم میں اچھے کردار منتخب کیے گئے ہیں، جنہیں لوئس نے اپنی معمول کی ذہانت اور صبر سے بُنا ہے۔ بظاہر اس سٹائل میں بہت تحقیق کی گئی ہوگی۔ ان کا طریقہ ہے کہ وہ ناظرین کے ذہن میں سوالات کو ابھارتے ہیں اور بعد میں ان کے جواب دیتے ہیں۔ اس کے نتیجے میں ان کی بہترین فلمیں بیانیہ استوار کرنے کی داستان ہیں۔ اس صورت میں کچھ سوالات واضح ہیں: ان خواتین کے بچپن کیسے تھے، یہ کس طرح ان کے دیگر تعلقات کو متاثر کرتا ہے، کیا وہ کبھی اپنے حوالے سے شک و شبہ کا شکار ہوئیں، کیا وہ ہمیشہ ایسا کرتی رہیں گی، ان کے شوہر اس بارے میں کیا سوچتے ہیں، بچوں کا کیا خیال ہے؟ کیا وہ اس سے لطف اندوز ہوتی ہیں۔ گاہکوں کے کیا رائے ہے؟
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
یہ جوابات اس نظریے کو دور کرنے کے لیے ناکافی ہیں کہ سیکس ورک کا نظریہ اس عمل سے مختلف ہے۔بے شک وہ خوش ہیں، مطمئن جنسی کارکن ہیں، لیکن فلم میں یہ ثابت ہوتا ہے کہ ان تین خواتین کے لیے یہ بہت آسان نہیں ہے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ لوئس اپنی دلیل کے مطابق رائے استوار کر رہے ہوں۔ ایشلے اور ان کے فلیٹ میں رہنے والی ساتھی جارجینا نے گذشتہ سال بی بی سی کو ایک کھلا خط لکھا تھا کہ اس دستاویزی فلم میں جنسی کارکنوں کو غلط دکھایا گیا ہے۔جس پر بی بی سی نے جواب دیا کہ ان کے خدشات دور کر دیےگئے ہیں۔
لوئس کے لیے ایک اور مسئلہ یہ ہے کہ ان دنوں وہ اتنے مشہور ہیں کہ وہ جہاں بھی جاتے ہیں اپنا ماحول بنا سکتے ہیں۔ یہ ناممکن ہے کہ آپ ایک لائسنس فیس دینے والے ہوں اور ان کے بارے میں نہ جانتے ہوں، یا ان کے مخصوص الگ تھلگ تجسس سے آگاہ نہ ہوں، جس میں وہ اپنے فیصلے کو روک دیتے ہیں لیکن کبھی کبھار شفقت اور نفسیاتی طور پر حیرت انگیز بصیرت کا شکار ہوجاتے ہیں۔ ان کے کسی پروگرام میں شرکت کرنا خود کو صرف ایک مشکل انٹرویو کے لیے پیش کرنا نہیں ہے بلکہ جان بوجھ کر برٹش ٹیلی ایونٹ میں شرکت کرنا ہے۔
اس کے بعد ، میں نے اپنے آپ کو یہ سوچتے ہوئے دیکھا کہ لوئس اپنے انٹرویو کرنے والوں پر کیا اثر ڈالتے ہیں۔ جب انٹرویو دینے والے اپنے پرتشدد بچپن کو یاد کرکے روتے ہیں تو کسی نہ کسی مقام پر انہیں یہ معلوم ہونا چاہیے کہ وہ مشہور شخصیات کے انٹرویو لینے والے لوئس تھرو کے سامنے رو رہے ہیں۔ یہ پہچان ایشلے کے بارے میں واضح طور پر ہے، جنہوں نے ملاقات کے وقت مصافحے کی بجائے گلے ملنے کا مطالبہ کیا۔ لوئس کی شہرت پہلے ہی عجیب و غریب حالات کو ایک غیر حقیقی معیار فراہم کرتی ہے۔ ہم وہ لمحات نہیں دیکھتے جب لندن میں اپنے کرداروں کے ساتھ چلتے ہوئے مداح انہیں سیلفی لینے کے لیے روک لیتے ہیں، لیکن ایسا ضرور ہونا چاہیے۔
ایک موقع پر ایک سیکس شاپ کے دورے کے بعد لوئس، کیرولین اور گراہم اپنے تعلق کے بارے میں بات کرنے کے لیے بیٹھتے ہیں۔لوئس نے کہا کہ وہ ’ایک مقامی کافی شاپ‘ پر جاتے ہیں ، لیکن گہری نظر سے دیکھنے پر یہ پتہ چل جائے گا کہ وہ ایک نجی ممبروں کا کلب کو واڈس ہے۔ یہ ایک چھوٹا سا دھوکہ ہے جو دستاویزی فلم کو متاثر نہیں کرتا ، لیکن پریشان کیوں ہوں؟ لوئس کا یہ انداز دوستانہ لیکن اجنبی ہے۔ اپنی ساری چمک دمک کے لیے وہ کبھی بھی عوام کے آدمی نہیں رہے۔
© The Independent