اس سے قبل کہ میں جنرل قاسم سلیمانی کی بات کروں، میں آپ کی توجہ کچھ دیر کے لیے کشمیر کی اس پہلی معروف صوفی شاعرہ کی جانب مبذول کروانا چاہتی ہوں جسے ہندو لل دید کہتے ہیں اور مسلمان للہ عارفہ۔
ان کی شاعری حکمت ومعرفت کا خزینہ ہے۔ کہتے ہیں کہ چودھویں صدی کے ایک اور صوفی شاعر شیخ نورالدین ولی، جنھیں علم دار کشمیر کے نام سے پکارا جاتا ہے، جب پیدا ہوئے تو وہ ماں کا دودھ نہیں پی رہے تھے۔ یہ مسئلہ سنگین صورت اختیار کر گیا اور شیرخوار کو للہ عارفہ کے پاس لایا گیا۔
بچے کو دیکھنے کے بعد للہ عارفہ نے بچے کے کان میں کہا، ’پیدا ہونے سے نہیں شرمائے تو دودھ پینے سے کیوں شرماتے ہو؟‘۔ روایت ہے کہ اسی لمحے بچے نے ماں کا دودھ پینا شروع کر دیا۔ علم دار کشمیر لل دید کو اپنا مرشد مانتے تھے۔ بعض مورخ لکھتے ہیں کہ لل دید اپنی دنیا میں مست رہتی تھیں، برہنگی کی حالت میں گھومتی پھرتی تھیں اور بےنیازی کے عالم میں غاروں اور جنگلوں میں اپنا مسکن بنا لیتی تھیں۔
دین اسلام کے بزرگ حضرت امیر کبیر علی ہمدانی ان ہی دنوں کشمیر میں وارد ہوئے تھے اور کہیں جا رہے تھے کہ دور سے لل دید کی نظر ان پر پڑی۔ ہانپ کانپ کر دوڑتے ہوئے نانبائی کے تندور میں کود کر چھپ گئیں۔ دیوانگی کے عالم میں چیخ چیخ کر کہے جا رہی تھیں، ’دیکھو وہ مرد آ رہا ہے، وہ مرد آ رہا ہے مجھے چھپا لو۔‘
یہ پہلا شخص تھا کہ جس کو لل دید نے مرد کہا۔ کشمیر میں شادی بیاہ کے معاملے میں اکثر اس روایت کا ذکر کیا جاتا ہے اور پسند نہ پسند کے وقت کہا جاتا ہے کہ اب کہاں سے لل دید کو لائیں جو صحیح مرد کی پہچان کر سکے۔ حضرت امیر کبیر کی شخصیت اتنی پرکشش اور پروقار تھی کہ لل جیسی فنا فی اللہ شاعرہ بھی ان کے جاہ و جلال سے خود کو بچا نہیں پائیں۔
کشمیر کی ادبی تاریخ کی یہ کہاوت مجھے اس وقت بہت یاد آئی جب میں نے حال ہی میں لندن میں روحینہ سے ملاقات کی، جن کا تعلق برصغیر سے ہے لیکن پیدائش کے فوراً بعد اپنے والدین کے ہمراہ لندن پہنچیں۔ تب سے یعنی 70 سال سے برطانیہ میں رہتی ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
روحینہ اعلیٰ تعلیم یافتہ ہیں، بے سہارا عورتوں کی مددگار ہیں، رشتوں کا لحاظ اور پڑوسیوں کا مان رکھنا ان کا اصول ہے لیکن تنہائی میں زندگی بسر کرنے والی روحینہ نے کبھی ازدواجی زندگی میں بندھ جانے کی خواہش ظاہر نہیں کی۔ انھوں نے کبھی کسی مرد کے ساتھ کوئی واسطہ نہیں رکھا بلکہ جب بھی مردوں کے بارے میں کوئی بحث ہوتی تو وہ اس گفتگو سے ہمیشہ دور بھاگ جاتی تھیں۔ ان کے والدین اکثر کہا کرتے تھے کہ اس کو کوئی پسند ہی نہیں آیا اور نہ ہماری پسند کو اپنایا۔
چند روز پہلے میں روحینہ سے ملنے گئی۔ وہ ٹیلی ویژن کے ساتھ چپکی ہوئی تھیں۔ چہرے پر عجیب مسکراہٹ اور آنکھوں میں عجیب سی چمک جو میں نے پہلے کبھی نہیں دیکھی تھی حالانکہ سکرین پر امریکی ڈرون حملے کی رپورٹ چل رہی تھی جس کی وجہ سے تیسری عالمی جنگ ہونے کا اندیشہ بتایا جا رہا تھا۔
ٹیلی وژن پر ایران کے میجر جنرل قاسم سلیمانی کی تصویر تھی جنھیں امریکہ نے ایک حملے میں عراق میں ہلاک کردیا تھا۔ روحینہ کے سامنے میز پر سلیمانی کی چند تصویریں بھی بکھری پڑی تھیں۔ میں نے ان کی ہلاکت پر افسوس کا اظہار کیا اور ایران امریکہ ٹکراؤ پر بات کرنے ہی والی تھی کہ روحینہ نے مجھے چپ رہنے کا اشارہ کیا۔
وہ سلیمانی کی تصویریں جمع کر کے اپنے پہلو میں چھپانے لگیں۔ کچھ دیر بعد وہ میری طرف دیکھ کر مسکرائی مگر فوراً افسردہ لہجے میں سرگوشی میں کہنے لگی، ’سلیمانی کو کوئی نہیں مار سکتا، وہ میرے دل کے اندر چھپا ہے۔ وہ پہلا اور آخری مرد ہے جس کو دیکھ کر پہلی بار برسوں میں مجھے عورت ہونے کا احساس ہوا۔ میں نے اتنے سال اس خوبصورت لمحے کا انتظار کیا ہے جب میں نے کسی مرد کو دیکھا۔ میں نے سلیمانی کو اس زندگی میں نہیں پایا تو کیا ہوا، موت کے بعد ہم دونوں کا ملن یقینی ہے۔ سلیمانی کے ساتھ میرا جنم جنم کا بندھن لکھا ہے۔‘
یہ کہتے وقت وہ 70 برس کی نہیں بلکہ 17 برس کی شرمیلی الھڑ دوشیزہ لگ رہی تھیں۔
روحینہ کی بھاوج کہتی ہیں کہ جب سے روحینہ نے سلیمانی کو ٹی وی پر دیکھا ہے وہ خود سے باتیں کرتی رہتی ہیں، آئینے کے سامنے بیٹھ کر خود کو سنوارتی رہتی ہیں اور کہتی ہیں، ’میرا شہزادہ آ گیا، اب تم صرف میرے ہو۔‘
روحینہ کی اس ذہنی کیفیت کو ماہر نفسیات کیا نام دیں گے مجھے نہیں معلوم لیکن ان کی بھاوج کے بقول روحینہ کو شاید اسی ایک لمحے کا انتظار تھا جب کوئی مرد اس کو پسند آئے بھلے وہ زندہ نہ ہو۔ نہ جانے سلیمانی میں کیا کشش ہے۔
سلیمانی ٹرمپ کا دشمن سہی لیکن وہ روحینہ کا سپر ہیرو ہے اور ساتھ ہی ان لاکھوں ایرانیوں کا جن کی آنکھیں ان کی ہلاکت پر اب بھی اشک بار ہیں۔ روحینہ کی اس جنونی کیفیت کو میں کیا نام دوں یا پھر یہ شاید پہلی داستان عشق ہے جس کا آغاز ہیرو کے مرنے کے بعد ہوا ہے!