حکام کے مطابق ایران کے شہر کرمان میں جنرل قاسم سلیمانی کے جنازے میں ہونے والی بھگدڑ سے ہلاک ہونے والے افراد کی تعداد 50 سے تجاوز کر گئی ہے۔
کرمان کے گورنر عباس آمیان اور کرمان ایمرجنسی سروسسز کے سربراہ محمد صابری کا کہنا ہے کہ دو سو بارہ افراد زخمی ہوئے ہیں۔
ایرانی خبر رساں ادارے اسنا کے مطابق زخمیوں میں بچے اور خواتین بھی شامل ہیں۔
اطلاعات کے مطابق منگل کو جنرل قاسم سلیمانی کے آبائی شہر کرمان میں یہ حادثہ اس وقت پیش آیا جب بڑی تعداد میں لوگ قاسم سلیمانی کی آخری رسومات میں شرکت کے لیے جمع تھے۔
ایرانی سرکاری ٹی وی کے مطابق ایران کی ہنگامی طبعی سروسز کے سربراہ پیرحسین قولیوند کا کہنا تھا کہ’بدقسمتی سے جنازے کے دوران بھگدڑ کے نتیجے میں ہمارے کئی ہم وطن ہلاک اور زخمی ہو گئے ہیں۔‘
قاسم سلیمانی جمعہ تین جنوری کوعراق کے دارالحکومت بغداد کے ایئرپورٹ کے قریب امریکی حملے میں ہلاک ہو گئے تھے۔
خبر رساں ادارے اے پی کے مطابق پیر کو تہران میں ہونے والے قاسم سلیمانی کی نماز جنازہ میں ’دس لاکھ‘ سے زیادہ افراد شریک ہوئے تھے۔
ایرانی پاسدارانِ انقلاب کے سربراہ نے کرمان میں جمع ہونے والے ہزاروں افراد سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ وہ قاسم سلیمانی کی ہلاکت کا بدلہ لیتے ہوئے امریکی اتحادیوں کو ’راکھ کے ڈھیر‘ میں تبدیل کر دیں گے۔
حسین سلامی نے نماز جنازہ میں شریک افراد سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ’ہم انتقام لیں گے اور وہ جہاں بھی موجود ہوں گے ان کو جلا کر راکھ کر دیں گے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ان کی تقریر کے دوران شرکا کی جانب سے ’اسرائیل مردہ باد‘ کے نعرے بھی بلند کیے گئے۔
اس سے قبل ایرانی پارلیمان نے ایک بل پاس کرتے ہوئے پینٹاگان میں موجود امریکی فوج کی اعلیٰ کمان اور ان کے حکم پر عمل کرتے ہوئے جنرل سلیمانی پر حملہ کرنے والے افراد کو ’دہشت گرد‘ قرار دیتے ہوئے ان پر پابندیاں عائد کرنے کا اعلان کیا۔
یہ اقدام صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے گذشتہ اپریل میں ایران کے انقلابی گارڈز کو ’دہشت گرد تنطیم‘ قرار دینے کے رد عمل میں کیا گیا۔
ایرانی قانون سازوں نے القدس فورس کے لیے 20 کروڑ یوروز کی اضافی فنڈنگ کی منظوری بھی دی ہے، جبکہ ایرانی وزیر خارجہ جواد ظریف نے منگل کو کہا گیا کہ ’امریکہ نے اقوام متحدہ میں ہونے والی ملاقاتوں کے لیے انہیں ویزہ دینے سے انکار کر دیا ہے۔
نیویارک میں واقع اقوام متحدہ کے دفتر میں ہونے والی ملاقاتوں کے لیے ویزہ امریکہ جاری کرتا ہے۔
جواد ظریف نے مزید کہا کہ ’وہ خوفزدہ ہیں کہ کوئی امریکی عوام کو حقیقت بتا دے گا لیکن دنیا صرف نیویارک تک محدود نہیں ہے آپ ایسا تہران سے بھی کر سکتے ہیں۔‘
امریکی محکمہ خارجہ نے تاحال اس حوالے سے اپنا موقف نہیں دیا ہے۔