خیبر پختونخوا کے وزیر اطلاعات شوکت یوسفزئی اکثر اپنے بیانات کی وجہ سے لطیفوں اور میمز کا مرکز بنے رہتے ہیں۔
صوبائی حکومت کے ترجمان نے ماضی میں کئی ایسے بیانات دیے مثلاً عوام ٹماٹر کی جگہ دہی استعمال کریں، وزیر تعلیم کو انگریزی آتی ہے، تحریک انصاف کی حکومت سے پہلے ڈاکٹر پکوڑے بیچا کرتے تھے اور موجودہ حکومت نہ ہوتی تو ڈالر 400 روپے پر پہنچ جاتا وغیرہ وغیرہ۔
انڈپینڈنٹ اردو نے صوبائی وزیر اطلاعات سے ایک خصوصی گفتگو میں پوچھا کہ کیا وجہ ہے بعض اوقات ان کے بیانات اتنے غیر ذمہ دارانہ ہوتے ہیں؟
یوسف زئی نے جواب دیا: ’مجھے خود حیرت ہوتی ہے جب میں کسی ایک خاص پس منظر میں بات کر رہا ہوتا ہوں اور میڈیا اس کا سیاق و سباق ہٹا کر اپنی مرضی کی بات اٹھا لیتا ہے۔
’میں خود زراعت کا طالب علم رہا ہوں تو مجھے معلوم ہے کہ ٹماٹر کی جگہ دہی استعمال کی جا سکتی ہے۔ یہ ایک مستند بات ہے کوئی مذاق والی بات نہیں۔‘
لیکن اُس وقت دہی تو ٹماٹر سے بھی مہنگا تھا؟
’نہیں، جب ٹماٹر کی قیمت بہت زیادہ بڑھ گئی تھی اُس وقت دہی سستا تھا۔ اس کی تھوڑی مقدار سے ہی کام چل جاتا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
’آپ نے ڈالر کی بات کی تو یہ ایک حقیقت ہے کہ اگر موجودہ حکومت نہ آتی تو ملک دیوالیہ ہو جاتا اور پھر ڈالر کسی بھی حد تک جا سکتا تھا کیونکہ ن لیگ کی حکومت نے مصنوعی طور پر ڈالر کی قدر کو کنٹرول کیا تھا۔
انھوں نے ڈاکٹروں کے پکوڑے بیچنے سے متعلق بیان کی وضاحت کچھ ہوں دی: ’ایک وقت ایسا بھی تھا جب ماضی میں کچھ ڈاکٹروں نے بطور احتجاج پکوڑے بیچے تھے۔ اس جملے کو بھی سیاق و سباق سے ہٹ کر پیش کیا گیا۔‘
آپ پچھلی حکومت میں وزیر صحت بھی رہ چکے ہیں دونوں میں سے کون سی وزارت اچھی لگی، صحت یا انفارمیشن؟
’میرے خیال میں وزارت وہ ہونی چاہیے جس میں آپ ڈیلیور کر سکیں اور عوام کو فائدہ پہنچے۔ میری موجودہ وزارت سے براہ راست عوام کو کوئی فائدہ نہیں ہو رہا۔
’میں اس وزارت سے بڑا تنگ ہوں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس میں صرف تنقید کا جواب دینا پڑتا ہے لیکن اگر آپ کے پاس ایسا کوئی محکمہ ہو جس سے عوام کے ساتھ رابطہ رہتا ہو تو اس سے عوام کو بھی فائدہ ہوتا ہے اور ایک وزیر کی کارگردگی بھی سامنے آتی ہے۔‘
انھوں نے میڈیا اور عوام سے دور رہنے والے وزیراعلیٰ محمود خان کے بارے میں بتایا کہ وہ روزانہ کی بنیاد پر ملاقاتیں کر رہے ہوتے ہیں، اس کے علاوہ ان کے پاس جتنے بھی محکمے ہیں ان کی نگرانی اور کارکردگی دیکھ رہے ہوتے ہیں۔
’یہ بات درست ہے کہ وہ میڈیا پر کم آتے ہیں لیکن وہ بہت کام کر رہے ہیں۔ ان کے بارے میں جو تاثر پھیلایا جارہا ہے کہ وہ میڈیا کے سامنے بات نہیں کر سکتے یہ درست نہیں، بس وہ سکرین پر اپنی پروموشن نہیں کرنا چاہتے ہیں۔‘
کہیں ایسا تو نہیں کہ وفاق نے انھیں میڈیا سے بات کرنے سے منع کیا ہو؟
’نہیں، وزیر اعظم خود میڈیا پر رہتے ہیں۔ سوشل میڈیا کا ٹرینڈ بھی انھوں نے شروع کیا، لہٰذا ایسی کوئی بات نہیں کہ ان کو منع کیا جا رہا ہے۔ بس محمود خان صاحب کم گو شخص ہیں۔‘
وفاق نے صوبائی حکومت کو پی ٹی ایم سے بات چیت کرنے کے لیے احکامات جاری کیے تھے، وہ مذاکرات کیوں کامیاب نہ ہوسکے؟
’پی ٹی ایم سے مذاکرات ہوئے تھے۔ گورنر اور سپیکر صاحب نے بھی ان سے مذاکرات کیے تھے لیکن اس وقت پی ٹی ایم نامعلوم ایجنڈے پر کام کر رہی تھی۔
’ان کا کہنا تھا کہ پختونوں کے ساتھ زیادتی ہورہی ہے تو ہم نے کہا ہم بھی تو پختون ہیں۔عوام نے ہمیں منتخب کیا ہے۔ اس وقت حکومت میں سب سے زیادہ پختون بیٹھے ہوئے ہیں۔ تو ہم نے ان سے پوچھا کہ آپ کون سے پختونوں کی بات کر رہے ہیں۔
’پھر دیکھیں یہاں دہشت گردی کی بہت بڑی جنگ چلی ہے جس سے اپنے پرائے سب متاثر ہوئے۔ یہ جنگ ہم نے فوج کی بدولت جیتی۔ فوج نے بڑا تاریخی کردار ادا کیا۔ وہ اس ادارے کا استحصال چاہتے تھے۔‘
بی آرٹی کب مکمل ہوگی؟ کب ہم اس کو پشاور کی سڑکوں پر دوڑتا دیکھیں گے؟
’اس منصوبے میں کوئی تاخیر نہیں ہوئی۔ ایشین ڈیولپمنٹ بینک کا ہمارے ساتھ جو معاہدہ ہوا ہے اس کے مطابق اس منصوبے کو 2021 میں مکمل ہونا ہے۔
’دوسری بات جو لوگ کہہ رہے ہیں کہ اس کی لاگت بڑھ گئی ہے، یہ بھی غلط ہے۔ بی آر ٹی کا منصوبہ 29 ارب روپے کا منصوبہ ہے۔ اسے دو سال میں مکمل کرنا بہت بڑی بات ہے۔ صرف ایک پرائمری سکول کو بھی مکمل ہونے میں تین سال لگ جاتے ہیں۔‘
سوال یہ ہے کہ جب اس منصوبے کو 2021 میں مکمل ہونا تھا تو 2018 کے عام انتخابات سے قبل اس وقت کے وزیر اعلیٰ پرویز خٹک نے کیوں اسے چھ مہینے میں مکمل کرنے کا کہا تھا؟
’دراصل اس وقت وفاق میں مسلم لیگ ن کی حکومت تھی اور وہ ہمیں متبادل سڑک کی اجازت نہیں دے رہے تھے۔ مجبوراً ہمیں جی ٹی روڈ پر آنا پڑا اور جب ہم جی ٹی روڈ پر آئے تو تاجروں کو اکسایا جانے لگا کہ یہ تو دو، تین سال کا منصوبہ ہے اور ان کا کاروبار تباہ ہو جائے گا۔
’جب تاجر احتجاج پر نکل آئے تو ان کو مطمئن کرنے کے لیے پرویز خٹک نے ان سے کہا تھا کہ وہ فکر نہ کریں، بی آرٹی کو جلد از جلد یعنی چھ مہینے میں مکمل کر دیا جائے گا۔‘