سابق وزیر خزانہ اور پاکستان مسلم لیگ ن کے سینیئر رہنما اسحٰق ڈار کا لاہور میں مکان ’ہجویری ہاؤس‘ 28 جنوری کو نیلام کیا جا رہا ہے جس کے لیے ضلعی حکومت نے اشتہار بھی شائع کر دیا ہے۔
لاہور کے پوش علاقے گلبرگ کے بلاک ایچ میں واقع اس مکان کی نیلامی کے لیے کم از کم 18 کروڑ 50 لاکھ روپے کی قیمت مقرر کی گئی ہے۔
تاہم کیا یہ مکان واقعی اتنی مالیت کا ہے اور کوئی اسے خریدنا بھی چاہے گا؟ یہی جاننے کے لیے ہم پراپرٹی ڈیلر عامر بھٹہ کے ہمراہ ہجویری ہاؤس پہنچے۔
عامر بھٹہ نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’پراپرٹی مارکیٹ چونکہ دباؤ میں ہے، لہذا اس حوالے سے ٹھیک قیمت لگی ہے۔ اس سے اوپر جانے کی کوئی امید نہیں۔‘
انھوں نے مزید بتایا: ’اگر ہم ذاتی طور پر اس علاقے میں کوئی مکان فروخت کرتے ہیں تو اس کی قیمت اتنی ہی ہوگی۔ اس مکان کے اندر جانے کی اجازت نہیں ہے کہ اسے اندر سے جا کر دیکھا جاسکے۔ یہاں زمین کی زیادہ سے زیادہ قیمت تقریباً چار کروڑ روپے فی کنال ہے۔ اس حساب سے زمین کی قیمت ٹھیک ہے۔‘
عامر بھٹہ کے مطابق: ’اب تک اس مکان میں صرف دو سے تین لوگوں سے دلچسپی دکھائی ہے۔ کئی لوگوں نے ہم سے فون پر یہ بھی پوچھا کہ اگر وہ اس مکان کو خرید بھی لیتے ہیں تو کیا ضمانت ہوگی کہ کل اسے عدالت میں چیلنج نہیں کیا جائے گا؟ اس حوالے سے لوگوں کو بہت تشویش ہے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
عامر کے خیال میں یہ مکان ساڑھے 18 کروڑ روپے میں فروخت نہیں ہو سکے گا۔ ’ماضی میں یہ بھی ہوا کہ لوگ اپنی غیر موجودگی میں کوئی اور شخص کھڑا کر کے اپنے مکان کو خود ہی خرید لیتے ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ اسحٰق ڈار صاحب بھی ایسا ہی کریں۔‘
’یہ ایسے ہی ہے کہ یہ میرا مکان ہے، میرے بچے یہاں رہتے رہے ہیں، میری یادیں ہیں اور اگر مجھے موقع ملے گا تو میں جیسے تیسے کرکے اسے خریدنے کی کوشش کروں گا۔ اگر میری اس مکان سے کوئی وابستگی نہیں ہوگی تو میں اسے نہیں خریدوں گا۔
’پچھلے دنوں سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف کے کیس میں بھی عدالت کی طرف سے ان کی جائیدادیں نیلامی کے لیے سامنے آئی تھیں مگر وہ فروخت نہیں ہوئیں۔ اسی طرح مشرف دور میں نواز شریف کے تمام مکان نیلام ہوئے تھے تاہم جب وہ وطن واپس آئے تو وہ سارے مکان انھوں نے واپس لے لیے۔
’اس لیے اس مکان کے حوالے سے لوگوں کے خدشات ہیں۔ حکومت کو لوگوں کو کوئی ضمانت دینی چاہیے، تبھی لوگ اس میں دلچسپی دکھائیں گے ورنہ یہ مکان نہیں بکے گا۔ یہ ایک لاحاصل مشق ہوگی جس میں نہ حکومت کو کچھ ملے گا اور نہ کسی اور کو۔
’اسحٰق ڈار کی اپنی فیملی میں سے کوئی خرید لے یا اس کے ساتھ جو مکان واقع ہیں، ان کے مالکان شاید 50 لاکھ یا کروڑ روپے زیادہ دے کر اسے خرید سکتے ہیں ورنہ میں یا میرا کوئی گاہک یہ نہیں کہے گا کہ میں اس مکان کو 20 کروڑ روپے میں خرید لوں، اسے کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔‘
انھوں نے مزید بتایا: ’اگلے چند برسوں میں جیسے جیسے آبادی بڑھ رہی ہے، ویسے ہی پراپرٹی کی قیمت بڑھے گی۔ پورا لاہور بک رہا ہے ضروری نہیں کہ اس کو ہی کوئی خریدے گا۔ ساتھ والا مکان خریدا جاسکتا ہے، اس کے پیچھے ایک پراپرٹی بک رہی ہے۔‘
’اسحٰق ڈار کا مکان کوئی ملکی یادگار تو نہیں کہ کوئی اتنے پیسے دے کر اسے گلے میں ڈال لے۔ پھر بلیک اینڈ وائٹ کا چکر بھی ہے۔ اگر کسی نے سرمایہ کاری کرنے کے لیے خریدنا ہے تو یہاں پر ڈپٹی کمشنر کی جانب سے مختص کیے گئے ریٹس بھی کم ہیں۔‘
عامر بھٹہ کے مطابق: ’جب ہم یہ نیلامی میں خریدیں گے تو ہمیں اتنے پیسے وائٹ میں شو کرنے پڑیں گے۔ ہمارے پراپرٹی اور رئیل سٹیٹ کے کاروبار میں یہ گرے ایریاز ہیں جنھیں حکومت نے ابھی تک حل نہیں کیا۔‘
فی الحال اس مکان کا چارج اسسٹنٹ کمشنر ماڈل ٹاؤن کے پاس ہے اور مکان کی دیکھ بھال کے لیے انفورسمنٹ انسپکٹر فرحان بٹ یہاں موجود رہتے ہیں۔ فرحان نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں بتایا کہ ان کے ساتھ یہاں سول ڈیفنس، ریونیو سٹاف اور ایم سی ایل کے لوگ موجود رہتے ہیں۔
فرحان بٹ کے مطابق اس مکان کو خریدنے کے لیے 28 جنوری کو نیلام عام ہے، جس میں شامل ہونے کے لیے آپ کو موقعے پر اپنا شناختی کارڈ اور شورٹی اماؤنٹ ڈی سی آفس لے کر جانا پڑے گی، ایک فارم بھی بھرنا پڑے گا اور اس کے بعد جو زیادہ قیمت لگائے گا مکان اس کا ہوجائے گا۔
انھوں نے مزید بتایا کہ مکان کو اندر سے دیکھنے کی اجازت ڈپٹی کمشنر لاہور سے ہی ملے گی کیونکہ یہ مکان ایک کمیٹی کی موجودگی میں سیل کیا گیا تھا، جس میں ایل ڈی اے، نیب کے افسران، ضلعی حکومت، ایم سی ایل اور مقامی پولیس کے افسران موجود تھے اور انھی کی موجودگی میں اب یہ مکان ڈی سیل ہو سکتا ہے۔ ’یہ مکان پوری طرح فرنشڈ ہے، اسحٰق ڈارکا سارا سامان وغیرہ جس طرح وہ چھوڑ کر گئے تھے، ویسے ہی اندر موجود ہے۔‘