اسلام آباد کے اطراف و اکناف کے بزرگ پہاڑ سفید برفیلی چادر اوڑھے چپ چاپ بیٹھے تھے۔ بھیگے ہوئے شہر کی راتوں میں تہہ دار خاموشی ٹھہر گئی تھی۔ ایسی خاموشی، جس سے لپٹ کے مرجانے میں لطف ہے یا پھر دور بھاگنے میں ہی خیر ہے۔
شہر کی پراسراریت بڑھ رہی تھی کہ دور سے بانسری کا سریلا سُر سنائی دیا۔ یہ یاد دہانی تھی کہ تار اور سِتار کا جو آہنگ کدہ دو برس پہلے آباد ہوا تھا، آج ایف نائن کے جنگلوں میں اس کی سالانہ تقریب ہے۔
ہال میں طبلے کی تھاپ پر رباب کی دھنیں بکھر رہی تھیں اور کشور ناہید جھوم رہی تھیں۔ کشور ناہید کی ہی ایک نظم ’چڑیا اور کوئل‘ بے طرح یاد آ گئی۔ اس نظم میں موٹا سا ایک باجے والا جھوم جھوماتا جنگل کی طرف نکل آیا ہے۔ پاس بیٹھی کوئل باجے والے سے کہتی ہے، ایک کام کیوں نہ کریں، تم یونہی باجا بجاتے جاؤ اور میں محبت کے نغمے گاتی جاؤں؟ کوئل کے نغمے سن کر چڑیا چہکتی ہوئی کھنچی چلی آئی۔ نغمہ سرا کوئل کے سُریلے گیتوں کا اس نے اعتراف کیا اور دنیا جہاں سے بے نیاز ہوکر محفل کے رنگ میں رنگ گئی۔
یہ نظم یاد آئی تو ساتھ ہی گرد وپیش کی عجیب سی ایک تصویر کھنچ گئی۔ جیسے ہم مایوسی، ناامیدی اور بے بسی کے ایک جنگل میں آباد ہیں۔ جہاں ہر صبح سورج اپنے ماتھے سے خون کے تازہ حاشیے مٹاتا ہے اور غم بڑھانے کو غم گسار ہی چلا آتا ہے۔ ایسے میں بلال خان کشور ناہید کی نظم کا کردار بن کر باجہ بجاتا ہوا جنگل کی طرف نکل آتا ہے اور جنگل کی ہر کوئل، ہر چڑیا کو اپنے سحر میں لے لیتا ہے۔ دیکھتے ہی دیکھتے دکھیاروں کے دکھ درد بانسری میں پھونک کر ہوا کر دیتا ہے۔
منظر تو وہ تھا جب اعجاز سرحدی سارندہ اٹھائے سٹیج پر چلے آئے۔ یہ مشہور زمانہ سارندہ نواز منیر سرحدی کے فرزند ہیں۔ سارندے کی زندگی اُس زبان کی طرح خطرے میں ہے جس کے بولنے والے کم رہ گئے ہوں۔ قبائلی علاقے درہ آدم خیل کا دعویٰ ہے کہ سارندے نے میری آنکھوں کے سامنے جنم لیا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اس بات میں کتنی سچائی ہے، خداجانے۔ یہ بات مگر سامنے کی ہے کہ سارندہ اگر چراغِ سحر ہے تو پھر یہ درہ آدم خیل میں ہی بجھ رہا ہے۔ میری طرح شاید باقی کا خیال بھی یہ تھا کہ جو تار آخری دموں پہ ہے اس کا ساز کیا اور سوز کیا۔ اعجاز سرحدی نے جوں ہی سارندے کا پہلا تار چھیڑا تو لگا کہ جیسے برفیلی دیواروں میں سے یکایک آگ کا کوئی شعلہ گزر گیا۔
بے ساختہ نوجوانوں سے ایک ہائے سرزد ہوئی اور قدم بے انت تھرکنے لگے۔ ایک سکارف پوش لڑکی اٹھی اور پدر سری سماج کے سینے پہ چڑھ کر اپنی ہی موج میں ناچنے لگی۔ چراغ سے چراغ آگ پکڑتا گیا اور خواتین کشور ناہید کی نظم ’ہم گناہ گار عورتیں‘ کا مفہوم بنتی چلی گئیں، جیسے کہ وارفتگی گنگنا رہی ہو:
اے ساقیا مے خانے پہ جنت کا گماں دیکھ
یہ دیکھ کہ ہے رقص کناں سارا جہاں دیکھ
عابدہ پروین کے متعلق گلزار نے کہا تھا ’عابدہ جب مولا پکارتی ہیں تو لگتا ہے کہ ہاں، مولا کو ان کی پکار پہنچتی ہو گی۔ ہم نے جب خدا کو بلانا ہوتا ہے توعابدہ کی معرفت بلا لیتے ہیں۔‘
موسیقی کی صوفی ثقافت میں جو مقام عابدہ کے مولا کو حاصل ہے پشتو فوک میں وہ مقام زرسانگہ کے ’یا قربان‘ کو حاصل ہے۔ زرسانگہ جب کوئے یار میں یا قربان پکارتی ہیں تو لگتا ہے کہ ہاں، ان کی آواز پہنچ گئی ہو گی۔ ثبوت کے لیے اتنا کافی ہے کہ پشتو نہ جاننے والے بھی جب پشتو موسیقی کا تصور کرتے ہیں تو دھیان سب سے پہلے یا قربان کی طرف جاتا ہے۔ ہماری بدقسمتی ہے کہ زرسانگہ کو وہ مقام نہیں مل سکا جس کی وہ مستحق تھیں، مگر خوش قسمتی کہیے کہ آج وہ ہمارے سامنے موجود تھیں۔
محفل جیسے جیسے اختتام کی طرف جارہی تھی رقص تھمتا چلا جا رہا تھا۔ وقت آیا کہ محفل برف زاروں کی طرح ٹھنڈی پڑ گئی اور زبانیں اسلام آباد کی پر آسیب راتوں کی خاموش ہو گئیں۔ زرسانگہ کی عمر اور طبعیت اچھی توقعات باندھنے کی اجازت نہیں دے رہی تھی۔ مگر جب ’یا قربان‘ کی کھنکتی ہوئی صدا گونجی تو خاموشی کی ساری طنابیں ٹوٹ کر بکھر گئیں۔
زرسانگہ کے آگے شمع پچیس منٹ کے لیے رکھی گئی تھی، مگر شمع رکھی گئی تو بجھنے تک زمانے میں مستی رہی۔ زرسانگہ کے گیتوں پر اتنڑ کرنے والے دیکھتے دیکھتے بے خودی کی دنیا میں نکل گئے۔ تین مستانے لامکان کے کچھ ایسے پھیروں میں تھے کہ اہلِ نظر پھر ہال میں نہیں رہے، مستقل کیفیت میں رہے۔ یہ مستانے جب پسینے میں سر تا پا شرابور ہوئے تو میرے سامنے پھر ایک عجیب تصویر تھی۔ جیسے خنجر کی دھار پر اور نوکِ ہرخار پر رقص کرتے ہوئے کچھ لوگ عمر بھر کی ایذارسانیوں کا نوحہ سنا رہے ہوں۔
رقصِ بسمل کی تصویر اس لیے کھنچی کہ رقص کرنے والے وہ تھے جنھوں نے ابھی کل ہی اپنے عزیزوں کے چیتھڑے قبروں میں اتارے۔ جن کو صرف مار کھانے کی اجازت تھی، رونے کا حق نہیں تھا۔ نائن الیون کے بعد قندھار سے کوئٹہ تک، کوئٹہ سے وزیرستان تک اور وہاں سے پشاور تک ان کے حجروں کی پامالی ہوئی۔ جبیں میں تڑپنے والے ہزار سجدوں کے لیے مسجدیں باقی رکھی گئیں، مگر ہزار سجدوں سے نجات دینے والا ایک گراں سجدہ جہاں ادا ہوتا ہے وہ حجرہ نہیں چھوڑا گیا۔
یہ حجرے اجڑ گئے تو پیچھے ناصر کاظمی کا سوال رہ گیا۔ وہ ساحلوں پہ گانے والے کیا ہوئے؟ کیا بتائیں کہ کیا ہوئے۔ کمال محسود اور عالم زیب کی طرح جو ہاتھ لگے وہ قلعوں میں محصور کر لیے گئے۔ سردارعلی ٹکر اور ہارون باچا کی طرح جو بچ رہے، وہ ٹوٹی ہوئی بانسری چھوڑ کر اور خون آلود ہارمونیم سمیٹ کر پردیس چلے گئے اور انشا کی زبان میں ناصر کاظمی کے لیے پیغام چھوڑ گئے:
اب کوئی آئے تو کہنا کہ مسافر تو گیا
یہ بھی کہنا کہ کیا اب بھی نہ جاتا لوگو؟
پشاور کے واحد کلچرل سینٹر کو تالے لگ گئے۔ فراز کے شہر سے شعر سفر کر گیا۔ سر اور ساز بے دردی سے قتل ہوگئے۔ قبریں کھود کھود کر بزرگوں کی کمر چٹخ گئی۔ احرار نے مگر اپنی روایت زندہ رکھتے ہوئے قتال کا جواب دھمال سے دیا۔ تیغ کے وار کو لے سے کاٹا۔ بے چہرہ جنگ کے طبل کو امیر خسرو کے طبلے سے زیر کیا۔ اختلاف کیا تو وزن میں کیا اور احتجاج کیا تو سُر میں کیا۔ وقت پڑنے پر جو پندار کے صنم کدے میں بیٹھ گئے، ان کی نصیحتوں کے ہزار دفتر نچوڑ کر بھی اُس رقص کا خراج ادا نہیں کیا جا سکتا جو لعل شہباز قلندر کے لہو لہو مزار میں شیما کرمانی نے کیا تھا۔ یہ وہی رقص ہے جسے عثمان مروندی نے اپنے مشہور زمانہ شعر میں تصویر کر دیا ہے:
تو آں قاتل کہ از بہر تماشا خونِ من ریزی
من آں بسمل کہ زیرِ خنجرِ خوں خوار می رقصم