پہلا دن:
پیارے بچو!!
بلکہ پیارے بالغ بچو!
الف انار، ب بکری، پ پنکھا، ت تتلی، ث ثمر والا قاعدہ اب ہوا پرانا۔ آج ہم آپ کو نئی تعلیم کے نام پر ایسی ہفت اقلیم کا راستہ دکھائیں گے جس سے آپ کے وارے نیارے ہو جائیں گے۔
حالاتِ حاضرہ کے تقاضوں کے مدِ نظر اور خواص کے پرزور اصرار پر ہم نے اپنے تعلیمی قاعدے میں تبدیلی کی ہے۔
قواعد و ضوابط البتہ وہی پرانے ہیں جو کئی دہائیوں سے آزمودہ ہیں۔ ہمارے یہاں سے ہی فارغ التحصیل ہونے والی کلاس آف نائنٹیز کے حالیہ طرزِعمل نے ہمیں بھی سوچنے پر مجبور کر دیا کہ دستوری روایتی تعلیم اب فرسودہ ہو چکی۔
یوں بھی زمانہ بدل گیا، حالات بدل گئے، ملک بدل گیا تبدیلی کا دور دورہ ہے، سو کیوں نہ قاعدہ بھی بدل لیا جائے۔
لیکن نئے داخلہ لینے والے خواص نوجوانوں کا اصرار تھا کہ قاعدہ تو بدل لیں لیکن سبق وہی پرانا دہرانا چاہیے، تو شروع کرتے ہیں آج کا پہلا سبق۔
الف ۔ انار، ب ۔ بوٹ ۔۔۔۔
بس، بس، بس۔ ہمارے تبدیل شدہ کچی کے قاعدے میں یہی پہلا پکا سبق ہے اور یہی دو حروفِ تہجی۔
ویسے تو الف سے اور بھی بہت کچھ بنایا جا سکتا ہے لیکن ڈر ہے کہ پہلے سبق سے پہلے پہلے ہی کہیں سبق نہ سکھا دیا جائے۔
ویسے بھی ب بوٹ آج کل خود بھی ایک ایسا الف انار ہے جس کے سو بیمار ہیں۔ تو چلو، پیارے بچو، بلکہ پیارے بالغ بچو، سب پالش کرو ۔۔۔۔۔۔ اپنی اپنی تختیاں ۔۔۔۔۔۔ شاباش گیٹی نکالو، تختیاں پالش کرو، چمکا لو اور اپنی اپنی قلمیں تراش خراش کر لکھنا شروع کرو ۔۔۔۔۔ الف – انار، ب – بوٹ، خوش خطی کے نمبر الگ ہوں گے۔
دوسرا دن:
پیارے بچو!!
بلکہ پیارے بالغ بچو!
آج ہم آپ کو سکھائیں گے اردو کے کچھ نئے محاورے اور ضرب الامثال۔ ایسی مثالیں جنھیں سیکھ کر اور استعمال کر کے آپ دنیاوی مثال بن جائیں گے۔
اچھی یا بری صحیح یا غلط فیصلہ آپ کا اپنا ہو گا۔ فیصلہ کرنے میں کوئی دقت پیش آئے تو اپنے کسی چھوٹے بھائی سے مشورہ کرنے سے گریز نہ کیجیے گا۔
زیادہ صائب مشورہ درکار ہو تو والدِ محترم یا کسی دیرینہ ساتھی سے بھی رجوع کیا جا سکتا ہے۔ مشورہ کرنے کے لیے ایک مشورہ البتہ ہم دے سکتے ہیں کہ کسی کھلی صحت مند پرفضا مقام کا انتخاب کیا جائے جہاں ہوا خوری سے دماغ کی بند شریانوں میں خون کی روانی بہتر ہو سکے اور سوچ پروان چڑھے وگر نہ تو بند کمروں کی رازداری بھی باہر آ سکتی ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اسی لیے تو کہتے ہیں کہ دیواروں کے بھی بوٹ ہوتے ہیں۔
ارے لیجیے، ہم نے تو سبق کا آغاز کرنے سے پہلے ہی محاوروں کا استعمال شروع کر دیا۔ سو اب جبکہ استعمال ہو ہی گئے۔۔۔ میرا مطلب ہے آپ نہیں، محاورے ۔۔۔ تو آگے بڑھتے ہیں اور سبق پڑھتے ہیں۔
ہمارے نئے قاعدے میں کچھ محاوروں میں ترمیم کی گئی ہے اور کچھ میں اضافہ۔
ترمیم کرنے والوں اور اضافہ جات رکھنے والوں سے یہ ضرب الامثال محفوظ ہیں۔ عوام کی آسانی کے لیے ہم نے ان کے معنیٰ بھی کھول کھول کر بیان کر دیے ہیں۔
امید ہے آپ کو پسند بھی آئیں گے اور سمجھ بھی اور آپ اپنی سمجھ بوجھ کے مطابق عملی زندگی میں ان کا استعمال بھی مفید بنا سکیں گے۔ ہمارا آج کا پہلا محاورہ ہے:
جس کا بوٹ اسی کو ساجھے اور کرے تو ٹھینگا باجے
یہ انتہائی عام فہم اور روزمرہ استعمال کی ضرب المثل ہے جس کا عملی مظاہرہ آپ گذشتہ دنوں دیکھ بھی چکے ہیں۔ کسی اور کا بوٹ کسی اور کام کے لیے کسی اور جگہ لایا گیا اور خمیازہ اٹھایا گیا۔
سو ایسے کسی بھی کام سے گریز کیا جائے جس کی نہ آپ کو سوجھ بوجھ ہو نہ نتائج کا اندازہ۔
جس کے ہاتھ ڈوئی اس کا سب کوئی
اس ضرب المثل میں آپ ڈوئی کی جگہ ’ڈ‘ سے شروع ہونے والا کوئی اور متبادل بھی استعمال کرسکتے ہیں لیکن قافیہ اور حلیہ دونوں بگڑنے کا خدشہ ہے۔
محاورے کا قافیہ اور آپ کا حلیہ۔ سو فی الحال ڈوئی سے ہی کام چلا لیں۔
ویسے آپ چاہیں تو اس سے ملتا جلتا محاورہ بھی استعمال کر سکتے ہیں۔ جس کی لاٹھی اس کی بھینس۔ لیکن یہاں بھینس غیر پارلیمانی لفظ قرار دے کر حذف بھی کروایا جا سکتا ہے اور استحقاق بھی مجروح ہو سکتا ہے۔ باقی آپ پر منحصر ہے۔
آ بوٹ مجھے مار
اس محاورے کا استعمال ان جگہوں پر کیا جا سکتا ہے جہاں آپ عادت سے مجبور ہوں۔ سب کچھ آپ کے حق میں جا رہا ہو، معاملات درست ہوں، زندگی گلزار ہو لیکن آپ پنگا لینے کی عادت سے مجبور ہوں۔ نتائج تاریخ کے قاعدے میں آپ کے آئندہ سبق میں محفوظ ہیں۔
ڈرپوک کو بوٹ کا سایہ بھی بھوت
وہ ڈرپوک لوگ جو ذرا سی آہٹ سے کانپ جاتے ہیں، لڑکھڑا جاتے ہیں، ڈگمگا جاتے ہیں اور جن کی فراوانی آپ کو آج کل اپنے اردگرد نظر آئے گی، یہ ضرب المثل آپ ان کے لیے استعمال کر سکتے ہیں۔
اپنا بوٹ سیدھا کرنا
یہ کہاوت آپ ان ہوشیار چالاک شاطر لوگوں کے لیے استعمال کر سکتے ہیں جو آپ کو سبز باغ دکھائیں گے لیکن موقع ملنے پر اپنا فائدہ اٹھانے سے گریز نہ کریں گے۔ آپ ہکا بکا منہ تکتے ہیں رہ جائیں گے۔ یہ منہ اور بالادستی کی دال!
یک بوٹ دو قالب
اصل میں تو یہ کہاوت پرانے زمانے میں یک جان دو قالب کی تھی لیکن نئے زمانے میں اس میں ترمییم کی گئی ہے۔
یہ کسی بھی دو ایسے اشخاص کے لیے استعمال کی جا سکتی ہے جو بظاہر تو دو الگ الگ شخصیات نظر آئیں لیکن ان کی جان کسی واحد چیز میں قید ہو یا ان کا مفاد واحد ہو۔
بوٹ تلے انگلی دینا
اصل میں تو یہ کہاوت تھی دانت تلے انگلی دینا۔ لیکن جہاں حیرانی و پریشانی کے عنصر کے ساتھ ساتھ ایسی تکلیف بھی شامل ہو جائے جس کا آپ کھل کر اظہار بھی نہ کر سکیں تو وہاں آپ اس ضرب المثل کا کھل کر استعمال کر سکتے ہیں۔
ناچ نہ جانے آنگن ٹیڑھا
اس محاورے کو ہم نے پرانی ہی کیفیت میں بحال رکھا ہے۔ ایسے تمام لوگ جو شیخیاں تو بڑی بڑی بگھاریں، دعوے تو بڑے بڑے کریں، سبز باغ دکھائیں، باتیں کروڑوں کی مگر دکان پکوڑوں کی چلائیں یا میلینلز کے زمانے کی زبان میں سوشل میڈیا مارکیٹنگ تو بہت خوب کریں مگر جب کر دکھانے کا وقت آئے تو ہزار حیلے بہانے تراشیں دوسروں کے سر تھونپنے کا سہارا لیں۔
ایسے لوگ ہر دو مرد و خواتین میں آپ کو بے شمار نظر آئیں گے۔ ویسے آپ چاہیں تو اس محاورے میں بھی ترمیم کر سکتے ہیں۔ ناچ نہ جانے جوتا ٹیڑھا۔
یہ اوپر بیان کیے گئے لوگوں میں سے ہی اولی نسل کی قسم ہے جو طویل عرصے سے اپنا بیانیہ ہنر نہ دکھائے جانے کی ناکامی کا ملبہ اور موردِ الزام اوروں کو ٹھہراتی ہے۔
تو پیارے بچو!!
بلکہ پیارے بالغ بچو!
آج کا سبق یہیں تک۔ امید ہے آپ نے کافی سبق حاصل کر لیا ہو گا۔