واٹس ایپ پہ دس منٹ کی ویڈیو ایک دوست نے بھیجی۔ فقیر ویڈیوز یا کسی بھی فارورڈ میسج سے عموما چالو رہتا ہے لیکن یہ دیکھ لی گئی۔
غضب ہو گیا۔ ایک نمانڑا سا لڑکا، سر پہ ٹوپی، آواز ایسی جیسے ابھی ابھی بریک اپ ہوا ہو یا دائمی نزلے کا مسئلہ رہتا ہو، بس پڑھے جا رہا ہے، پڑھے جا رہا ہے، ایسے نظم پڑھ رہا ہے جیسے کوئی شدید عاجز فقیر کسی بادشاہ کے دربار میں التجا کرتا ہے۔ مرشد پلیز آج مجھے وقت دیجیے۔ اس کے لہجے میں سچائی ہے، اس کے چہرے پر درد ہی درد لکھا ہے، اس کے تاثرات شدید بے بسی کے ہیں اور وہ بس نظم پڑھے جا رہا ہے۔ دس منٹ کی وہ ویڈیو اسی وقت تین مرتبہ دیکھی اور بھائی رہ گیا۔ فیس بک پہ جا کے افکار علوی کو فرینڈ ریکوئیسٹ بھیجی، نمبر لیا، بات کی تو پتہ لگا کہ وہ تو فون پہ بھی ویسے ہی بولتا ہے۔ اسی عاجز، مسکین، سادہ سے لہجے میں۔ وہ بھکر کے پاس ایک گاؤں کا رہنے والا ہے اور گریجوئیشن کر کے آج کل فراغت پہ ہے۔ نظم سن کے دوبارہ سوچا کہ اگر یہ فراغت ہے تو خدا نے جب مصروف کیا اس وقت کیا عالم ہو گا بندے کی شاعری کا، آہا، سبحان اللہ!
فیس بک پر ایک جگہ لکھا دیکھا کہ افکار علوی کا لہجہ دیکھیے، سرائیکی ٹپک رہی ہے، آپ سرائیکی لہجے والے شاعر کو اردو کیسے پڑھتا سن سکتے ہیں؟ بات یہ ہے کہ ایک سرائیکی شاعر اگر اردو بول رہا ہے تو وہ اپنا کلام زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانا چاہتا ہے، کیا حرج ہے اس میں؟ وہ اردو کے خزانے میں آپ کے وزن کے برابر موتی تول رہا ہے اور آپ اس کے لہجے پہ اعتراض کر رہے ہیں؟
ایک اور سطر تھی کہ غضب خدا کا، لوگ اس کی شاعری کا دفاع بھی کرتے ہیں۔ تو یار، جو پسند کرے گا وہ دفاع کیوں نہیں کرے گا؟ ایک اعتراض یہ تھا کہ افکار کی نظم میں دو تین لائینیں سرائیکی زبان کی بھی ہیں۔ کیوں نہ ہوں؟ جب ایک سرائیکی آپ کے لیے (یا اپنی بقا کے لیے) اردو سیکھ سکتا ہے، اپنے بچوں کو مادری زبان نہیں سکھاتا اردو سکھاتا ہے تو آپ اتنی گنجائش اپنے دل میں کیوں نہیں رکھتے کہ اس کی دس منٹ کی نظم میں یا تو وہ دو تین مصرعے سمجھ لیں اور یا بھول جائیں، نظر انداز کر دیں۔ ہائے ہائے، بھول بھی کیسے جائیں، یار شعر ملاحظہ ہو ابھی مطلب بھی لکھتا ہوں؛
مرشد اے فوٹو پچھلے مہینے چھکایا ہم
ہنڑ میکوں ڈیکھ! لگدئے جو اے فوٹو میڈا ھ ؟
اب اردو دیکھیے، مرشد یہ فوٹو ابھی پچھلے مہینے بنوائی تھی، اب مجھے دیکھو، لگتا ہے کہ یہ میری تصویر ہے؟ تو یہ شعر کیسے فراموش کیا جا سکتا ہے؟ کجا اس پہ اعتراض ہو کہ زبان سرائیکی ہے۔ جب اردو میں عربی اور فارسی کے تڑکے لگیں تو وہ آپ مزے لے لے کر سنیں اور جب پنجابی، سرائیکی، یا پشتو بولنے والا اردو میں اپنی زبان کے لفظ ملائے تو آپ کو اعتراض لگ جائیں، ایسا نہیں ہوتا! اب وہی سرائیکی والا دوسرا شعر دیکھ لیں۔
ہونہہ، صبر کیجے صبر کا پھل میٹھا ہوتا ہے
مرشد میں بھونکدا ہاں جو کئی شے وی نئیں بچی
افکار اب 25 برس کے ہیں۔ ایک نوجوان اپنے اندر کی تلخی کو اس سے بہتر کیسے دکھا سکتا ہے؟ شاعر کہتا ہے کہ مرشد نے گیان بازی کی اور فرمایا صبر کرو، اس کا پھل میٹھا ہوتا ہے، تس پہ شاعر پھٹ پڑا اور اس نے کہا مرشد! میں ادھر بھونک رہا ہوں کہ میرے پاس کچھ باقی نہیں رہا، میں بالکل برباد ہو چکا ہوں اور آپ صبر کی بات کرتے ہیں؟ یار اور شاعری کیا ہوتی ہے؟ اگر آپ کو بھونکنے پہ اعتراض ہے تو سب سے بڑی اتھارٹی کے حوالے سے بات کرتے ہیں۔ میر تقی میر مثنوی در تعریف سگ و گربہ میں آرام سے یہ لفظ استعمال کر چکے ہیں۔
شور کیسا محلے چونک اٹھے
سگ بازاری بھونک بھونک اٹھے
اگر آپ کو سرائیکی پر اعتراض ہے تو یاد رکھیں جب بندہ پھٹتا ہے تو گالی بھی اپنی مادری زبان میں دیتا ہے اور ساری بھڑاس بھی اسی میں نکالتا ہے۔ یہ تو کلیجہ تھا جو افکار علوی نے سامنے رکھ دیا نکال کے، اب آپ کے معیار سیٹ نہ ہوں تو کوئی کرے کیا؟ اور اسی بات کو ذہن میں رکھتے ہوئے دیکھیں کل ہم سب پر وقار ملک نے کیا ہی خوب لکھا ہے ’افکار علوی کی یہ نظم کیا ہے؟ فنی خامیوں کو ایک طرف رکھیے، آپ کالم لکھنا چاہتے ہیں، آپ کوئی مضمون لکھنا چاہتے ہیں، مضمون یا کالم کا عنوان رکھنے میں دقت پیش آ رہی ہے، افکار علوی کی اس نظم کی طرف جائیے اور ان گونجتے مصرعوں میں سے اپنے مضمون کے مطابق کسی کو منتخب کر لیجیے۔ ’مرشد ہمارے واسطے بس ایک شخص تھا‘ یا ’مرشد ہماری ذات پلندوں میں دب گئی‘ یا ’مرشد محبتوں کے نتائج کہاں گئے‘ یا ’مرشد میں رونا روتے ہوئے اندھا ہو گیا‘ یا ’مرشد وہاں یزیدیت آگے نکل گئی‘ یا ’بے موسمی وفات کا دکھ چھوڑ جائیں گے‘ یا ’مرشد! ہماری دوستی شبہات کھا گئے‘ یا پھر ’اپنا نصیب اپنی خرابی سے مر گیا‘ یا ’پروردگار! یار، ہمارا خیال کر۔‘ یعنی آپ مصرعے اٹھا کر ایک مضمون بھی لکھ سکتے ہیں۔‘ وقار ملک یہ آپ کا ہی حصہ تھا!
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
واپس آتے ہیں، تنقید کرنے والے دوست صرف ایک بار اپنے دل سے پوچھ کے بتائیں، ہم میں سے کتنوں نے میر تقی میر کے مکمل دیوان، علامہ اقبال کی ساری شاعری، ن م راشد کی کلیات یا جوش صاحب کو پورا پڑھا ہے؟ کیا واقعی یہ فیشن نہیں بن گیا کہ چار پانچ عظیم کلاسیک شاعر لے لیے اور ساری عمر انہی کا نام جپتے رہے؟ میں آپ کو لکھ کے دیتا ہوں کہ پچانوے فیصد لوگ ایسے ہیں جنہیں سامنے بٹھا کے کہا جائے کہ حسن کوزہ گر کی تشریح کر دو تو ان کے ہاتھ پیر ٹھنڈے ہو جائیں گے۔ اعتراف کرنے میں کیا حرج ہے کہ اب وہ نسل باقی نہیں ہے جو پیچیدہ الفاظ، اشارے کنائے اور مشکل رمزیں سمجھ سکے، اب تو جو ہیں وہ بے چارے اردو لکھ نہیں سکتے ٹھیک سے، کلاسیکی شاعری کیا پڑھیں گے؟ دیکھیں ہر زمانے میں کوئی نہ کوئی فنکار مشہور ہوتا ہے، اس کی ہوا بنتی ہے۔ پھر ایک وقت آتا ہے کہ وہ کلاسیک کے درجے پہ فائز ہو جاتا ہے۔ پھر دو سو برس بعد انہیں وہی پڑھتے ہیں جو اس زمانے کے الفاظ سے واقف ہوتے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ ایک پیرلل دنیا چل رہی ہوتی ہے جس میں نئے شاعر اپنی جگہ بنا رہے ہوتے ہیں۔ تو اگر ان میں سے کوئی بندہ اچھی نظم یا شعر کہہ دے تو اس سے پریشان کیوں ہوتے ہیں؟
ادب پسند لوگوں میں ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ جسے عوام پسند کر لیں اسے یہ لوگ کوئی جگہ دینے کو تیار نہیں ہوتے۔ یہ ایک دوسرے کو شاباشیاں دینے میں لگے ہوتے ہیں یا اپنی پروجیکشن کے چکر میں ہوتے ہیں۔ کریں، سب کچھ کریں، اچھی بات ہے، لیکن یار نئے آنے والے کو عزت تو دیں۔ اگر بندے کی ایک نظم وائرل ہوئی ہے تو آپ اسے مشاعروں میں بلوائیں، پڑھوائیں (معاوضہ ضرور دیجیے گا)، فورا سامنے بیٹھے لوگ خود فیصلہ کر دیں گے کہ زیادہ طاقتور کلام کس کا ہے۔ نکل آئیں بھئی اس چکر سے کہ فلاں عظیم شاعر ہے، فلاں عظیم مصنف ہے اور فلاں عظیم مصور ہے۔
عظمت ہوتی کیا ہے؟ عظمت اصل میں اتفاقات کا ایک پورا سیٹ ہوتی ہے۔ بڑے سے بڑا شاعر شاید سو ایسے شعر چھوڑ کر مرا ہو جو لوگوں کو زبانی یاد ہوں گے لیکن مشہور وہ ایک دو شعروں سے ہی ہوتا ہے۔ عظیم ادیب بھی عام طور پہ ایک آدھ کتاب یا افسانے کے زور پہ ہی بنتا ہے، سب کچھ اس نے بھی عظیم نہیں لکھا ہوتا۔ یہی معاملہ پینٹنگ کا ہے۔ بڑے بڑے عظیم مصوروں نے بڑی بڑی خچ بھی ماری ہے، خاص طور پہ ایبسٹریکٹ کے میدان میں۔ تو عظمت جو ہے وہ ایک آدھی چیز کے وائرل ہونے پہ شروع ہوتی ہے باقی پھر شاعر، ادیب، مصنف، سب کی اپنی اٹھان ہے کہ وہ اس عظمت کو کیش کیسے کرتے ہیں۔ اصل عظیم وہ شخص ہوتا ہے جو یہ جانتا ہے کہ وہ مہان ہے لیکن اپنے گیان کو لوگوں میں بانٹنے کے لیے مشکل پسند نہیں بنتا، انہی میں رہتا ہے، انہی میں اٹھتا بیٹھتا ہے اور ان سے انہی کی زبان میں بات کرتا ہے۔ ن م راشد کی نظم زندگی سے ڈرتے ہو، آخر کیوں ہٹ ہوئی، کئی لوگوں نے اسے گایا بھی، آج تک نوجوان پڑھتے بھی ہیں، کیوں؟ وجہ سوچیے گا۔
متنبی عرب شاعر تھا۔ ایک جگہ لکھا کہ میرا دل تیروں سے بھرا پڑا ہے، اب تو احوال یہ ہے کہ اگر کوئی نیا تیر آتا ہے تو وہ انہی پرانے تیروں پہ لگتا ہے اور برباد ہو جاتا ہے۔ عربی شاعری گھوڑوں، صحراؤں، قافلوں، تلوار بازی، تیراندازی، بہادری، فتح، شکست اور عورت کے ذکر سے بھری ہوئی ہے۔ جو اس زمانے میں ان کے آس پاس تھا وہی ان کی شاعری میں تھا۔ اگر ہمارا شاعر اپنے شعر میں ایس ایم ایس، مس کال، کمپیوٹر، کیمرے، فوٹو، جینز یا کسی بھی نئی چیز کا ذکر کر دے تو بھی لوگوں سے ہضم نہیں ہوتا۔ زمانہ بدلنے کے ساتھ لفظ بدلتے ہیں صاحب، انگڑائی لیں، صبح ہو چکی ہے!
ایک بات اور ہے۔ سوشل میڈیا کے اس دور میں شاعر ہو یا ادیب، اگر اس کا اکاؤنٹ موجود ہے تو لوگ اس کی تصویروں سے اس کے بارے میں تاثر قائم کر لیتے ہیں۔ پرانے زمانے میں ہوا بنانا آسان تھی۔ اگر مصطفی زیدی، شہریار، ثروت حسین، ذی شان ساحل یا کوئی بھی اور زندہ ہوتا اور وہ فیس بک پہ اپنا روزنامچہ لگانے کے ساتھ شاعری بھی پوسٹ کرتا تو یقین کیجیے کہ ان سب کے ساتھ بھی یہی واقعے ہوتے۔ ہماری نفسیات بن چکی ہے کہ جو سامنے دکھائی دے گیا وہ فنکار ہی کیسا؟ قسم لے لیں اس رسائی نے شاعروں ادیبوں کی پراسراریت چھین لی ہے۔ وہ ہوا ہی نہیں بن پاتی۔ خود فقیر کو ایک عرصہ لوگ روزنامہ دنیا میں پڑھتے رہے، اب فیس بک پہ آتے ہیں تو کہتے ہیں کہ یہ تو ایویں چھچھورا سا آدمی ہے۔ بڑی شرمندگی ہوتی ہے (ان کو)۔ تو شاعروں، ادیبوں، فنکاروں کو ان کی فنی مہارت سے جانچیے، ادھر ادھر کمنٹ بازی کرتے رہے تو اپنا وقت ضائع ہو گا اور جسے مولا نے بھاگ لگائے ہوئے ہیں وہ راکٹ کی طرح آسمان چڑھتا جائے گا۔ بس جاتے جاتے یہ دو لائنیں افکار علوی کی پڑھ لیجیے۔
لوگ کہتے ہیں کہ ہم لوگ برے آدمی ہیں
لوگ بھی ایسے جنہوں نے، ہمیں دیکھا، نہ ملے!
سلام!