(سوویت یونین کی فوجوں نے 27 دسمبر 1979 کو افغانستان کی حکومت کا تختہ الٹ دیا تھا۔ انڈپینڈنٹ اردو نے اس موقعے پر ایک خصوصی سیریز کا آغاز کیا ہے، جس میں آپ اس تاریخ ساز واقعے کے مختلف پہلوؤں کے بارے میں تحریریں اور تجزیے پڑھ رہے ہیں۔)
چالیس سال پہلے افغانستان میں بدامنی کے سبب پاکستان ہجرت کرنے والے مہاجرین کو پاکستان کے جن کیمپوں میں جگہ دی گئی ان میں ایک خراسان کیمپ بھی ہے جو چارسدہ روڈ کے پاس واقع ہے۔
خراسان کیمپ اس زمانے میں مہاجرین سے کچھا کھچ بھرا ہوتا تھا۔ سردی کی شدت اور گرمی کی حدت سے بچنے کے لیے کچھ لوگوں نے نزدیکی ایک دریا کے پاس مٹی کے ٹیلوں میں غار بھی بنا لیے جن کو پشتو میں گارا بولتے ہیں۔
وقت کے ساتھ ساتھ کچھ مہاجرین کرائے کے گھروں میں منتقل ہو گئے جب کہ بعض نے اپنی مدد آپ کے تحت خراسان کیمپ میں ہی مٹی کے گھر بنا لیے۔
اس طرح دیکھتے ہی دیکھتے خراسان کیمپ ٹینٹس سے گھروں میں تبدیل ہو گیا۔ تاہم 2010 کا سیلابی ریلہ ان گھروں کو بھی ساتھ بہا لے گیا۔
جب دوبارہ بحالی اور تعمیر نو کا کام شروع ہوا تو اس کیمپ میں ایک مرتبہ پھر مہاجرین نے اپنی مدد آپ کے تحت گھر بنانے کا کام شروع کیا۔
آج خراسان کیمپ ایک گاؤں کی شکل اختیار کر گیا ہے جہاں گھر، گلی کوچے، دکانیں اور ایک سکول بھی ہے۔
ایک نسل یہاں جوان ہوئی ہے اور دوسری نسل بڑی ہو رہی ہے۔ لیکن خراسان کیمپ کے مکینوں کا کہنا ہے کہ انھیں مختلف لوگ یہاں سے نکلنے پر مجبور کر رہے ہیں اور انھیں بتا رہے ہیں کہ یہ کیمپ بیچ دیا گیا ہے۔
انہی میں سے ایک پریشان حال خاندان نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ پراپرٹی والے اور پولیس ان کو تنگ کرتے رہتے ہیں، اور وقت بے وقت ان کے دروزے پر دستک دیتے رہتے ہیں۔
اس خاندان کے سربراہ نے بتایا کہ پولیس ایک دفعہ انھیں پکڑ کر ساتھ لے گئی تھی اور انھیں ڈرایا دھمکایا۔ ان کا کہنا تھا: ’میں نے ان سے کہا کہ مجھے یہاں سے نکل جانے کا یہ حکم تحریری شکل میں دیا جائے تاکہ میں کل کو دکھا سکوں کہ مجھے حکومت پاکستان نے کہا ہے کہ نکل جاؤ۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اسی گھرانے کی ایک خاتون نے کہا کہ انہوں نے خود اس گھر کو تعمیر کیا ہے باوجود اس کے کہ ان کی اتنی استطاعت نہیں تھی۔
انھوں نے بتایا: ’ہم بھی مجبور ہیں، کہاں جائیں؟ افغانستان میں نہ ہمارا گھر ہے اور نہ زمین۔ نہ ہی وہاں کی حکومت ہماری کوئی ذمہ داری لینے کو تیار ہے۔‘
ان کا کہنا تھا: ’شروع میں جب ہم آئے تھے تو ہم جسمانی طور پر مظبوط تھے۔ اب ہم بوڑھے ہو چکے ہیں، ہمارا خاندان بڑا ہو گیا ہے۔ ہمارے ساتھ بچے ہیں۔‘
خراسان کیمپ میں بسنے والے مہاجرین کا کہنا ہے کہ پاکستان میں ان کی تیسری نسل بڑی ہورہی ہے۔ اتنا عرصہ پاکستان میں گزارنے کے بعد انھوں نے افغانستان میں جینے پر پاکستان میں مرنے کو ترجیح دی۔
خراسان کیمپ میں اقوام متحدہ کے پناہ گزینوں کے لیے کام کرنے والے ادارے یو این ایچ سی آر کی جانب سے کھولا گیا ایک پرائمری سکول بھی ہے جس میں اس وقت دو سو سے زائد افغان بچے زیر تعلیم ہیں۔ اس سکول کے اساتذہ بھی مہاجرین ہیں جو دل لگا کر اس کیمپ کے بچوں کو پڑھانے میں مصروف ہیں۔
سکول کے ایک استاد کا کہنا تھا کہ مہاجرین کی واپسی کے اعلانات کے بعد طالب علموں کی تعداد میں بتدریج کمی آتی گئی یہاں تک کہ ہوتے ہوتے اب صرف دو سو یا ڈھائی سو طلبہ رہ گئے ہیں۔
تاہم سکول کی سہولت ہونے کے باوجود کیمپ کی گلیوں میں ایک بڑی تعداد میں بچے کھیلتے ہوئے نظر آئے جو سکول نہیں جا رہے ہیں۔