افغان صوبے جلال آباد کے زحمت خان گذشتہ کئی سال سے پشاور کے بورڈ بازار میں، جسے’چھوٹا کابل‘ بھی کہا جاتا ہے، فاسٹ فوڈ ریستوران چلا رہے ہیں ۔ اس ریستوران میں جوس اور برگر وغیرہ کے ساتھ’ منتو‘ بھی دستیا ب ہوتا ہے۔
افغان جنگ کے بعد زحمت اپنے خاندان کے ساتھ پاکستان منتقل ہو گئے تھے اور یہاں پر اپنا کاروبار شروع کیا۔
انھوں نے انڈپینڈنٹ اردو کوبتایا کہ ان کے اہل خانہ افغانستان میں جنگ کے بعد پاکستان آگئے تھے اور یہاں پر فاسٹ فوڈ کی دکان کھولی۔
انھوں نے بتایا کہ منتو پاکستان میں بہت پسند کیا جاتا ہے اور پاکستان میں منتو کے زیادہ ترشیف افغان ہی ہیں۔
افغانستان میں منتو، ازبکستان میں مانتی، چین میں مانتا کے نام سے جاننے والایہ فاسٹ فوڈ پاکستان میں اُس وقت مشہور ہوا جب افغان جنگ کے بعد لاکھوں پناہ گزین پاکستان منتقل ہوئے اور یہاں اپنا کاروبار شروع کیا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ان پناہ گزینوں نے پاکستان میں دیگر افغان پکوانوں کے ساتھ ساتھ منتو بھی متعارف کرایا اور آج کل ملک بھر کے شہروں میں جہاں بھی آپ کو منتو ملے تو اس کا شیف کوئی افغان ہی ہو گا۔
منتوپکوڑوں کی طرز پر آٹے کے میدے سے بنایا جاتا ہے۔ پہلے آٹا گوندھا جاتا ہے اور اس کے چھوٹے چھوٹے پکوڑے بنائے جاتے۔ ان پکوڑوں کو پھر قیمے، مٹر، دھنیے، اور دیگر مصالحوں سےبھر دیا جاتا ہے۔اس کے بعد اسےسٹیم پر ایک خاص قسم کے ککر نما برتن میں تیار کیا جاتا ہے۔
منتو کس طرح تیار کیا جاتا ہے؟
زحمت نےمنتو بنانے کا طریقہ بتاتا کہپہلے میدے کو لے کر گوندھ لیا جاتا ہے اور پھر اسے مشین کے ذریعے ہموار کرنے کے بعد چھوٹے پکوڑے کی طرح ٹکڑوں میں کاٹ لیا جاتا ہے۔
اس کے بعد دھنیے، زیرے، گرم مصالحے ، ہری مرچ اور قیمے کا پیسٹ بنایا جاتا ہے ۔ زحمت کے مطابق پھر گھی کو تل کر اس میں چربی کو مکس کیا جاتا ہے اور پیاز اور پیسٹ کو ڈال کر گھی میں15منٹ کے لیے پکایا جاتا ہے۔
اس کے بعد پکے ہوئے پیسٹ کو آٹے کے گولوں میں ڈال کر پکایا جاتا ہے اور تیار ہونے کے بعد اس کو دہی، دال، سلاداور چپس کے ساتھ پیش کیا جاتا ہے۔
منتو کی تاریخ
اس پکوان کی تاریخ کے حوالے سے مخلتف آرا ہیں۔ بعض مورخین سمجھتے ہیں کہ منتو سب سے پہلے چین میں متعارف ہوا اور وہاں سے ہوتے ہوئے وسطی ایشیا ئی کے ممالک تک پہنچا جبکہ بعض مورخین کا دعوی ہے کہ یہ ترکی سے وسطی ایشیا ئی ممالک تک سفر کرتا ہوا افغانستان پہنچا۔
ترکی کے مشہور اخبار ’حریت‘ کی ایک رپورٹ کے مطابق ڈمپلنگز یا پکوڑے کے طرح پکوانوں میں ترکی اور چین یعنی سلک روڈ پر واقع ممالک کے مابین بہت مماثلت پایا جاتا ہے ۔منتو کے بارے میں اس رپورٹ میں لکھا گیا کہ ترکی میں یہی سمجھا جاتا ہے کہ منتو ان کی اپنی خوراک ہے اور انھوں نے ہی اسے ایجاد کیا۔
تاہم دوسری جانب تاریخ کے مختلف جریدیوں کے مطابق لفظ’منتو‘ چینی لفظ man tou سے اخذ کیا گیا جس کا مطلب سٹیم بن ہے جبکہ بعض ڈکشنریوں میں اس لفظ کو منگولوں سے بھی جوڑا گیا۔
لفظ منتو اور اس کی ایجاد کے بارے میں ‘ Proper and Essential Thing for the Emperor's Food and Drink نامی کتاب میں لکھا گیا ہے کہ لفظ منتو کا پہلا ذکر1330 میں ایغور ڈاکٹر نے، جو اس وقت چینی سلطنت کے ملازم تھے،ایک ٹریٹی میں کیا۔
اس ٹریٹی میں تین پکوانوں کا ذکر موجود تھا جس میں ایک منتو تھا۔
پکوانوں کے حوالے سے رپوٹس شائع کرنے والی ویب سائٹ دو فوڈ ڈائریکٹری منتو کے منگول کے ساتھ تعلق کے حوالے سے لکھتی ہے کہ سابق سویت ری پبلک آرمینیا کے ایک تاریخ دان کے مطابق منتو وسطی ایشیا میں سب سے پہلے13ویں صدی میں اس وقت پہنچا جب آرمینیا اور منگولوں کے درمیان ثقافتی تعلقات شروع ہوئے۔
اس رپورٹ کے مطابق ترک زبان بولنے والے لوگ منتو کے لیے گوندھا ہوا ٓٹاآرمینیا لے کر گئے اور وہاں لوگوں نے اسے ترکی منتو کہنا شرو رع کر دیا۔
اس کے بعد منتو وسطی ایشیا کے ممالک میں متعارف کرایا گیا اور بعد میں افغانستان سے پاکستان منتقل ہوگیا۔ آج کل منتو افغانستان، تاجکستان، ازبکستان، کرغستان سمیت وسطی ایشیا کے پسند کیا جاتا ہے۔