مجھے کراچی سے اسلام آباد آئے ہوئے نو مہینے ہو گئے ہیں لیکن اب بھی میں خود کو یہاں انجان محسوس کرتی ہوں۔ اس لیے اس دفعہ جب کراچی گئی تو پوری کوشش کی کہ کراچی کی چھوٹی سی چھوٹی بات بھی یاد کر لوں۔
اس مرتبہ کراچی کا چکر یوں بھی یادگار رہا کیونکہ میں نے اسلام آباد سے کراچی تک کا سفر بس میں طے کیا۔ تنگ سیٹ، موبائل کا چارجنگ سٹیشن نہ ہونے اور اکیلے ہونے کے باوجود اس 18 گھنٹے کے سفر میں، میں نے خوب مزا کیا۔
یہ میرا پہلا بس کا سفر تھا۔ رات کے وقت سردی میں ڈائیوو کے تقریباً ہر اڈے پر میں اترتی اور ٹہلتی۔ آس پاس کی جگہیں بھی دیکھتی۔ بس کے یہ اڈے کسی ہندی فلم کے ولن کے تہہ خانے سے کم نہ تھے۔ وہی پیلے بلب کی روشنی۔ پہیے، گریس اور دیگر لوہے کا سامان۔ مسلسل بارش، ٹپکتی چھت اور گیلی زمین۔ بس ایک ولن اور اس کے غنڈوں کی کمی رہ گئی تھی۔
جب صبح ہوئی تو ہم سکھر پہنچے۔ میں سکھر کبھی نہیں گئی تھی لہٰذا سکھر کے ڈائیوو کے اڈے پر اتر کر ہی خوش ہو گئی اور صبح کی چائے پی۔ ٹک شاپ سے کھجور کا حلوہ بھی لیا، جو دکان میں کھڑے لڑکے کے مطابق وہاں کی سوغات ہے۔ اللہ جانے اس میں کتنا سچ تھا۔ بہرحال میں گھر والوں کے لیے وہ حلوہ لے گئی اور اللہ اللہ کر کے یہ 18 گھنٹوں کا سفر اپنے اختتام پہ پہنچا۔ میں کراچی پہنچ گئی۔
کراچی پہنچ کر میرا یہاں کی مشہور ’سائبیریا کی ہواؤں‘ نے استقبال کیا۔ ٹھنڈی ہوا، کلاسک دھول مٹی، ٹریفک کا شور اور دھواں، اتنا مزا آیا کہ میں بیان نہیں کر سکتی۔ سہراب گوٹھ پر واقع ڈائیوو کے اڈے پر جب اتری تو جسم ایسا اکڑا ہوا تھا کہ بازو، کاندھے، کمر غرض ہر جگہ کے پٹھے الگ سے محسوس ہو رہے تھے۔ دل میں خیال آیا کہ کون ٹیکسی بلائے، چھوڑو ناظم آباد پیدل ہی چلی جاتی ہوں۔ جن لوگوں کو اندازہ نہیں ان کے لیے بتاتی چلوں کہ سہراب گوٹھ سے ناظم آباد کا سفر 12.5 کلو میٹر ہے۔ بس یہ سوچ کر خود ہی خود ہنسی اور چپ چاپ کریم بلا لی۔
اس دفعہ میں نے چھ مہینے بعد گھر کا چکّر لگایا اور گھر میں کسی کو نہیں بتایا۔ جب مامی نے دروازہ کھولا تو وہ خوشی کے مارے مجھ سے لپٹ گئیں اور رونا شروع ہو گئیں۔ لندن سے ایک خالہ آئی ہوئی تھیں۔ انھوں نے ایک نظر دیکھا اور دوسری نظر میں خوب زوردار چیخ ماری۔ سب بہت خوش ہوئے۔ گھر پہنچ کر سب سے پہلے میں نے اپنے ’اردو سپیکنگ گھرانے کی شناخت کھانا‘ کھایا: شامی کباب اور سبزی کے ساتھ دہی اور تازہ روٹی۔ ویسے تو مونگ کی دال بھی ہوتی ہے مگر وہ اس دن نہیں تھی۔ بس، اسلام آباد میں ترس جاتی ہوں ایسا گھر کا کھانا کھانے کے لیے۔
محکمہ موسمیات کچھ بھی کہہ لے لیکن ہم کراچی والوں کو ابھی بھی یقین ہے کہ اس دفعہ کراچی میں بڑی کڑاکے دار سردی پڑی ہے۔ اتنی ٹھنڈ ہم نے کبھی نہیں محسوس کی۔ ہم ان لوگوں میں سے ہیں جو نومبر کی خنکی میں سویٹر پہن کر باہر نکلتے ہیں، لیکن اس دفعہ تو حد ہی ہو گئی۔ درجہ حرارت نو ڈگری تک جا گرا اور کراچی والوں کے انداز میں کہوں گی کہ صحیح معنوں میں ہم لوگوں کی قلفی جم گئی۔
دوسرے شہروں کے لوگ کراچی والوں کے 20 ڈگری پر ٹھٹھرنے پر مذاق اڑاتے ہیں تو ہم لوگ یہاں پڑنے والی سردی کو ’کراچی کی سردی‘ کہہ کر مخاطب کرتے ہیں۔ کراچی میں سردی کسی تہوار سے کم نہیں۔ لوگ اس قدر پر جوش ہو کر اس سردی کو انجوائے کرتے ہیں کہ کوئی انتہا نہیں۔ رات کو ڈھابوں پہ الگ قسم کا رش ہوتا ہے۔ ٹھنڈی ہوا میں اپنی چھتوں پر نکل کر ہم بار بی کیو کرتے ہیں اور کوئلے پر تندوری چائے کا اہتمام کرتے ہیں۔
سردیوں میں مچھلی کی بھی خوب ڈیمانڈ ہوتی ہے۔ کیماڑی فش مارکیٹ جائیں اور وہاں نت نئی مچھلیاں اور ان کے کڑھائی سالن کھائیں۔ کچھ لوگوں کو لگے گا کہ کتنی گندگی ہو رہی ہے۔
کراچی کی سردی کی بات کی جائے اور شادیوں کا ذکر نہ ہو، یہ ہو سکتا ہے بھلا؟ لوگوں نے شادی کے سیزن کو ’دسمبرستان‘ کہنا شروع کر دیا ہے۔ دسمبر سے جنوری تک روزانہ کے حساب سے ایک شادی کا بلاوا ہوتا ہے۔ کبھی کبھی تو تین، تین جگہ بلاوا ہوتا ہے۔ سردیوں کی شادی کا بھی الگ مزا ہے بلکہ یوں کہیں، کراچی میں سردیوں کی ہی شادی کا مزا ہے۔
کھانے میں سب فرائڈ پران اور مچھلی ڈھونڈتے ہیں۔ ایسپریسو کافی پر لمبی لائن ہوتی ہے۔ کرنچ والی قلفی اور آئس کریم کا اہتمام اور ساتھ میں ڈھیر سارے کھوے والا تازہ تازہ گاجر کا حلوہ۔ کہیں کہیں خوب شیرے والے گلاب جامن بھی رکھے جاتے ہیں۔ لوگوں سے ٹھنڈے ہاتھ ملا کر گرم گرم کھانا ایسے ہی کھایا جاتا ہے۔ لیکن مجال ہے کہ اتنی سردی میں کوئی لڑکی اپنا شادی کے کپڑوں کے ساتھ شال یا سویٹر پہنے۔ چاہے جتنی بھی سردی ہو جائے، ایسی کوئی سائبیریا کی ہوا نہیں جو ہم لڑکیوں کو شادی میں سویٹر پہنا سکے۔
اس دفعہ میں سِوِک سینٹر بھی گئی جہاں عورتوں کا آنا بہت غیر معمولی ہے۔ وہاں گئی تو دیکھا کل تین ملا کے تین عورتیں ہیں، میرے علاوہ دو خواتین تھیں جو کہ انٹری گیٹ پر بھیک مانگ رہی تھیں۔ خیر میرا وہاں اس لیے چکر لگا کیونکہ مجھے اپنی اور اپنے ماموں کی گاڑی کا ٹیکس جمع کروانا تھا۔ میرے ماموں بھی میرے ساتھ گئے تھے۔ ہم جب دفتر جانے کے لیے سیڑھیاں چڑھ رہے تھے تو ایک داڑھی والے انکل ملے جو ان سیڑھیوں پر بیٹھے تھے۔
جب انھوں نے دیکھا کہ میں سیڑھیاں چڑھ رہی ہوں تو زور زور سے اعلان کرنا شروع کر دیا: ’عورتوں کا احترام کریں!‘ یہ سن کر مجھے اچھا محسوس ہوا لیکن ہنسی بھی آئی کہ لو بتاؤ اس ملک کے مردوں کو الگ سے یہ بھی کہنا پڑتا ہے۔ بہرحال میں اور ماموں اوپر پہنچے تو دیکھا کہ دفتر مردوں سے کھچا کھچ بھرا ہوا ہے اور لیڈیز کاؤنٹر خالی ہے۔ ہمارا کام مشکل سے پانچ منٹ میں ہو گیا، ورنہ ماموں کا کہنا تھا کہ ان کو چار پانچ گھنٹے انتظار کرنا پڑتا۔ یہ سن کر میرے ذہن میں ایک بات آئی۔ اگر عورتیں برابری سے باہر کے کام کریں تو سرکاری اداروں کا کتنا بوجھ کم ہو جائے۔ اسی لیے یہ ملک ترقی نہیں کرتا۔ آدھی عوام تو گھر میں محدود ہے۔
اتنے عرصے بعد کراچی گئی تھی تو انڈے والے برگر کی الگ سے تڑپ تھی۔ ناظم آباد میں واقع ایک بن کباب والا ہے جو 60 روپے میں بن کباب بیچتا ہے۔ اس ٹھیلے کا نام آئیڈیل برگر تھا کیونکہ کراچی میں ملنے والا انڈے والا برگر واقعی آئیڈیل ہوتا ہے۔ اس کے آگے اسلام آباد میں ملنے والا ہر بن کباب آپ کو مایوس کر دیتا ہے۔ اس آئیڈیل برگر میں انڈے کی تین تہیں ہوتی ہیں۔ شامی کباب بھی ایسا موٹا ہوتا ہے کہ اس کا ذائقہ منہ میں زبردست طریقے سے محسوس ہوتا ہے۔ اتنی اچھی فلنگ کے ساتھ برگر صرف ساٹھ روپے کا ملا تو میرے تو وارے نیارے ہو گئے۔
کراچی میں ہمارے قائد کا مزار ہے لیکن اپنا شہر کون گھومتا ہے؟ میں پہلی اور آخری دفعہ قائد اعظم کے مزار 12 سال کی عمر میں گئی تھی۔ اس کے بعد سے آج تک وہاں قدم نہیں رکھا، لیکن اس دفعہ جب میں وہاں سے گزری تو اپنے ساتھ بیٹھی دوست سے دھیمی آواز میں کہا ’یار ان اوبر والے بھائی صاحب کو بولو آہستہ چلائیں مجھے تصویر لینی ہے۔‘ میری دوست میرا مذاق اڑاتے ہوئے کہنے لگی ’یہ تمہیں کیا ہو گیا ہے؟ تم کیا سیاح بنی ہوئی ہو؟‘ تو میں نے اسے سمجھایا میں اسلام آباد میں کتنی ہوم سِک ہو جاتی ہوں۔ پھر اچانک اوبر والے نے گاڑی سائڈ پر روک دی اور ہم پریشان ہو گئے کیونکہ اندھیرے میں ہمیں لگا کہ ہم اغوا ہونے والے ہیں۔
ہم نے اوبر والے سے پوچھا، ’کیا ہوا؟ آپ نے گاڑی کیوں روکی؟‘ تو اس نے کہا ’ادھر دیکھیے۔ یہاں سے بہت اچھی تصویر آئے گی۔‘
میں اپنی بائیں طرف مڑی تو قائد اعظم کے مزار کا رات کے وقت حسین منظر دیکھنے کو ملا۔ میں نے اس کی ڈھیر ساری تصاویر کھینچیں اور اوبر والے بھائی صاحب کا ڈھیروں شکریہ کیا۔ ان کی اس مہربانی نے میرا دل موم کر دیا۔ بس یہی کراچی والوں کی سخاوت ہے۔
کراچی جائیں اور ایک فیمینسٹ ہونے کے ناطے ڈھابے پر چائے نہ پیئیں، یہ کیسے ہو سکتا ہے بھلا؟ کسی کام سے اپنے فلیٹ سے نیچے اتری تھی کہ ایک پرانا دوست ٹکرا گیا۔ وہیں اس دوست سے پوچھا کہ کیا اس کے پاس چائے پینے کا وقت ہے تو اس نے کہا ہاں۔ یہیں کہیں بیٹھ جاتے ہیں اور ہم نے ڈھابے پر چائے پی اور خوب دل ہلکا کیا۔
دوسری دفعہ میں نے دوستوں کے ساتھ ہی گلستان جوہر میں ایک اور پٹھان کے ہوٹل سے صبح چھ بجے چائے پی۔ کراچی میں ڈھابوں کا کلچر کچھ اس طرح ہے کہ اب وہاں کوئی آپ کو گھور کر نہیں دیکھتا۔ بس ایک چھوٹا آتا ہے، چائے دیتا ہے اور چلا جاتا ہے۔ آس پاس کہ کم از کم 50 فیصد مرد حضرات بھی اپنے کام سے کام رکھ کر اپنی باتوں میں مگن رہتے ہیں۔ اب ڈھابوں پر خواتین کو پہلے کے مقابلے گھور کر اتنا ہراساں نہیں کیا جاتا جتنا پہلے ہوتا تھا۔
میں کراچی کو اتنا یاد کرتی ہوں کہ بس ہر معمولی سے معمولی لمحے کی بھی تصویر لے لی۔ میرے لیے ایسے لمحے بہت انمول ہیں جیسے کہ میرے ماموں کا امرود خریدنا۔ سوک سینٹر کے پاس کاریگر کا نمبر پلیٹ بنانا۔ راشد منہاس روڈ پر سیلن والے فلیٹ اور اس پر چھایا ہوا کراچی کا نیلا آسمان۔ زینب مارکیٹ میں کپڑوں کے سٹال۔ ناظم آباد کی وہ پرسکون گلی جہاں کے درختوں کے سائے میں سے گزروں تو لگے جیسے میامی پہنچ گئے ہیں۔ خیر چار دنوں کی گہما گہمی میں بس اتنا ہی کر پائی ورنہ کراچی سے میرا رومانس ان چند تصویروں سے کہیں زیادہ گہرا ہے۔